donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Modi Jhoot Aur Sach Ke Girdab Me

مودی جھوٹ اور سچ کے گرداب میں


حفیظ نعمانی

 

صدر جمہوریہ کے خطبہ پر ہونے والی بحث کا جواب دینے کے لئے وزیر اعظم شری مودی کھڑے ہوئے تو انہوں نے اگلا پچھلا سب حساب برابر کرنے میں ایک گھنٹہ کا وقت لے لیا اپنے جواب میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اپنے کو انہوں نے ایک بار بھی چوکیدار نہیں کہا اور میری حکومت نہ جانے کتنی بار کہہ کر سب کے گوش گذار کردیا کہ یہ حکومت ہماری یا بی جے پی کی نہیں ہے صرف اور صرف مودی کی ہے اسی لئے اسے مالک ہونے کی حیثیت سے یہ حق حاصل ہے کہ جس کی جو چیز لینا چاہے لے لے اس کی اجازت کی اسے ضرورت نہیں۔ شری مودی نے اپنے ملک سے باہر کے دَوروں، پارلیمنٹ میں اپنی عدم موجودگی یا عام آدمی کے مسائل سے زیادہ دولتمندوں کے مسائل سے دلچسپی کے اعتراضات کا بھی اپنی گرج دار آواز میں جواب دیا۔ شری مودی نے سب سے زیادہ زور حزب مخالف کو تحویل آراضی بل پاس کرانے پر دیا انہوں نے کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 2013 ء میں آپ کے بل کو پاس کرانے میں آپ کا ساتھ دیا تھا۔ اب آپ کی باری ہے کہ آپ ہمارا بل پاس کرانے میں ہمارا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو اس پر غرور نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے بل کے مقابلہ میں دوسرا اُن سے اچھا بل نہیں تیار کرسکتا۔ مودی نے خلاف عادت ایک گھنٹہ تقریر کی اور جتنی مرتبہ میری حکومت کہا اُتنی ہی مرتبہ غریبوں اور کسانوں کی حکومت کہا لیکن یہ نہیں بتایا کہ جو بل ہم نے پیش کیا ہے اس میں جیسے کسان کی زمین اس سے لینے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے اسی طرح کسانوں کو میری حکومت مجھے لینے کے لئے بھی میری اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

کانگریس کے لیڈروں نے جواب میں کہا کہ وہ تقریر اچھی کرتے ہیں مگر اچھی تقریر سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اور ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ مودی کی تقریر کو اچھا کہنے والے جانتے ہی نہیں کہ تقریر کسے کہتے ہیں؟ مودی صاحب تقریر نہیں کرتے چھلانگیں مارتے ہیں۔ صدر کے شکریہ کی تقریر میں اپنی پرائی ملک اور دنیا کے ملکوں کی باتیں زیادہ تھیں صدر کے شکریہ کے متعلق برائے نام۔ ملک کے ممتاز لیڈروں کی ہم نے نہ جانے کتنی تقریریں سنی ہیں نہ جانے کتنی نوٹ کرکے چھاپی ہیں سب کا کیا ذکر کریں بس ایک تقریر یاد دلاتے ہیں جو امین الدولہ پارک میں شری آچاریہ نریندر دیو نے کی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ پارک میں مختلف جگہ مختلف پارٹیوں کے جھنڈے لگے تھے اب یاد نہیں حکومت کس کی تھی لیکن یہ یاد ہے کہ کارپوریشن پر بی جے پی کا قبضہ تھا کارپوریشن نے مغربی جانب ایک خوبصورت ڈائس بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے پیچھے لائن سے تمام پارٹیوں کے جھنڈے لگانے کا اس وقت عام سیاسی جلسوں کی سب سے بڑی جگہ جھنڈے والا پارک ہی تھا۔ کانگریس کا جھنڈا جہاں لگا تھا اس کی ایک تاریخ تھی یہ وہ جگہ تھی جہاں آزادی کی تحریک میں پنڈت گوبند بلبھ پنت اس جگہ کانگریس کا جھنڈا لگانے کی کوشش کررہے تھے انگریزوں کی پولیس انہیں روک رہی تھی پنت جی نہیں مانے تو ایک بڑے پولیس افسر جمنا پرشاد ترپاٹھی نے ان کی گردن پر ایسی لاٹھی ماری کہ اس کے بعد ساری عمر اُن کی گردن ہلتی رہی۔ اس یادگار جگہ سے جھنڈا ہٹانے کی جو لوگ مخالفت کررہے تھے آچاریہ جی ان کے بڑے لیڈر تھے۔ انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے تک صرف جھنڈے پر تقریر کی اور دنیا کی جنگوں کی پوری تاریخ دُہرادی مگر وہ ایک میٹر کے جھنڈے سے اِدھر اُدھر نہیںہوئے۔

شری مودی جھوٹ بول رہے ہیں کہ انہیں کسانوں کی فکر ہے اور اس بل سے ان کا فائدہ ہوگا وہ تقریر میں اپنا موضوع اور اپنا مخاطب ان کو بنا رہے ہیں جن کے ممبروں کی راجیہ سبھا میں قابل لحاظ تعداد ہے۔ اگر معاملہ صرف کسانوں سے زمین ہی لینے کا ہے تو کسان لیڈروں یا انا ہزارے سے کیوں بات نہیں کرتے؟ صرف کانگریس ایس پی، بی ایس پی اور راشٹریہ جنتا دل کے لیڈروں سے کیوں بات کررہے ہیں؟ رہی یہ بات کہ کسان سے زمین بغیر اس کی رضامندی کے حکومت کی طاقت کے بل پر لینے سے اس کا فائدہ ہوگا تو اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہوگی پھر تو یہ بات عام ہوجائے گی کہ جس کے پاس زیادہ دولت اور طاقت ہے وہ کسی بھی برادری کے کسی بھی غریب کی اس کی خوبصورت لڑکی کو یہ کہہ کر اپنی بہو بنا لے گا کہ وہ نہیں جانتا اسی میں اس کا ہی فائدہ ہے۔ 2013 ء سے پہلے یہی اندھا قانون تھا کہ جس کی زمین حکومت لینا چاہتی تھی لے لیتی تھی اور نہ جانے کتنے تو معاوضہ کا کاغذ لے کر برسوں گھومتے اور افسروں کے دفتروں کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔ یہ زمین ہی کا جھگڑا تھا جس کے لئے نہ جانے کتنوں کی جان جاچکی ہے۔ یاد کریں شری مودی اپنی اس تقریر کو جو وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے سینٹرل ہال میں کی تھی اور کہا تھا بی جے پی میری ماں ہے۔ اسی طرح کسان کہتا ہے کہ زمین میری ماں ہے۔ اگر کسی کے پاس زمین کا چھوٹا سا بھی ٹکڑا اس کا اپنا ہے تو وہ سماج میں ایک معتبر آدمی ہے۔ پیسہ چاہے وہ کتنا ہی ہو اُسے ہاتھ کا میل کہا جاتا ہے۔

شری مودی تحویل آراضی بل کے لئے جتنے اتائولے ہورہے ہیں وہی اس کا ثبوت ہے کہ ایک فیصدی بھی کسان کے نقصان یا نفع کی بات نہیں ہے بلکہ انہیں اس کی اس لئے جلدی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے دَور میں جس کے سوا چار سال تو ہر حال میں ہیں وہ سارے قرض اور وہ تمام احسانات اُتار دینا چاہتے ہیں جنہوں نے انہیں سواسو کروڑ انسانوں کا لاشریک حاکم بنایا ہے وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس، اچھے دن آگئے مہنگائی کم ہوگئی 2022 ء میں ہر غریب کا اپنا مکان ہوگا جیسے من چاہے اعلان کریں انہیں نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ یہ معلوم کرنے والا کہ اگر آپ 2019 ء کے بعد ملک کے بادشاہ نہ رہے تو ان مکانوں کی چابی غریب کس سے لیں؟ ان کی تقریر آراضی بل کے معاملہ میںبالکل ایسی ہی ہے جیسی اس آدمی کی ہوتی ہے جسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہر آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ نفع نقصان کی پوری بات بتاکر یہ فیصلہ کسان کے اوپر ہی کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ اب وہ خود فیصلہ کرے کہ وہ اپنا نفع چاہتا ہے یا نقصان؟ اور جب اس کا نقصان ہوجائے تب اس سے کہیں کہ تم نے اپنی مرضی سے خودکشی کی ہے پھر اس کے بعد اس بل کو پاس کرالیں۔ شری مودی اسے پاس کرانے کے لئے جتنی جلدی کریں گے ان کا مقدمہ اتنا ہی مشکوک ہوگا اور وہ روز اگر کسی قسم کی تبدیلی قبول کرنے کی بات کریں گے تو اور زیادہ مشکوک ہوجائے گا اگر ان کے اندر ہمت ہے تو وہ کہیں کہ ہم سرمایہ داروں سے انہیں من چاہی زمین دینے کا وعدہ کرچکے ہیں ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے اس کے لئے چاہے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 594