donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Nehru Ke Bad Kaun

نہرو کے بعد کون؟


حفیظ نعمانی

کئی دن ہوگئے پرہیز کرتے ہوئے پرہیز میں جہاں کھانے پر کچھ پابندیاں تھیں ان میں یہ بھی پرہیز تھا کہ پڑھنا کم کرو اور لکھنا بند کرو۔ انسانی فطرت میں بدپرہیزی کا بھی ایک ذائقہ ہوتا ہے اسی ذائقہ کے لئے بدپرہیزی کررہا ہوں اس لئے کہ اب فرمانبرداری نہیں ہوتی۔

آزادی کے بعد جو یادگار واقعات سامنے آئے ہیں ان میں ایک یہ واقعہ بھی ہے جس کا اعلان 10  فروری کو 12  بجے تک قسطوں میں ہوگیا فرقہ پرستی کو غلاظت کی طرح دھو ڈالنے والے اروند کجریوال نے حلف لینے کے بعد اپنے کروڑوں چاہنے والوں سے جو وعدے کئے ان میں پانی اور بجلی کو تو اہمیت دینا ہی تھی لیکن ہمارے نزدیک وی آئی پی کلچر کے خاتمہ یا لال بتی کی لعنت سے پرہیز کے اعلان کی سب سے زیادہ اہمیت اس لئے ہے کہ آج پون صدی ہوجانے کے بعد بھی ملک کی زیادہ آبادی وہ ہے جس کے پاس بجلی تو کیا ہوتی پانی بھی نہیں ہے اور اسے صرف اتنا پانی ملتا ہے جو آسمان سے برستا ہے اس کا بھی زیادہ حصہ بے قابو ہوکر سمندر میں واپس چلا جاتا ہے۔

وزیر اعظم شری مودی تو سیکڑوں بار کہہ چکے ہیں کہ اگر پنڈت نہرو کے بجائے پہلے وزیر اعظم سردار پٹیل ہوتے تو ملک کی تصویر بھی دوسری ہوتی اور تقدیر بھی دوسری ہوتی۔ ہم اپنے وزیر اعظم کی آدھی بات سے متفق ہیں کہ بے شک تصویر دوسری ہوتی لیکن مسلمان بہت کچھ محروم ہونے کے باوجود اس سے بھی زیادہ بری حالت میں ہوتے جیسے آج ہیں یعنی اگر ہم یہ کہیں تو شاید غلط نہ ہو کہ ملک کے لئے تو بہت اچھا ہوتا لیکن مسلمانوں کے لئے بہت برا ہوتا۔

آزادی کے بعد جو وزیر اعظم بنے ان میں مرارجی ڈیسائی اور چودھری چرن سنگھ سے بھی زیادہ سادگی کی توقع ہمیں شری نریندر مودی سے تھی لیکن ہم حیران ہیں کہ انہوں نے تو نہرو کو بھی مات کردیا اور وہ حلف لینے کے چار دن کے بعد ہی بادشاہ سلامت یا سلطان ابن سلطان بن گئے اور ابھی ظل الٰہی بنے ہوئے صرف آٹھ مہینے ہی ہوئے ہیں کہ شہرت کی حد تک وہ دس لاکھ روپئے کا کوٹ پہن کر کھڑے ہوگئے اور ایک ایک دن میں چار چار انداز کی پگڑی میں نظر آنے لگے۔ تقریروں میں پنڈت نہرو بھی پورے ملک کو یقین دلاتے تھے کہ وہ ملک کی فکر میں رات رات بھر جاگتے ہیں لیکن درددل میں ڈوبی ہوئی ہر تقریر کے بعد دہلی میں ایک عمارت بناکر کھڑی کردیتے تھے جس کا مقصد صرف دنیا کو دکھانا تھا کہ ہم ایک عظیم ملک کے دوسرے شاہجہاں ہیں کوئی ہمیں دیکھنا چاہے تو ہمارے گائوں نہ دیکھے بلکہ دہلی کو دیکھ لے۔

وہ خود پرستی میں اتنے ڈوبے ہوئے رہے کہ کسی کو یہ نہیں دیکھا کہ وہ کیا کررہا ہے؟ اور یہ اسی خود پرستی کا انجام تھا جو 1962 ء میں سامنے آیا کہ ہم چین کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر آج بھی بات کرنے کے بجائے اس کے صدر کو جھولا جھلاتے ہیں اور اس کے فوجی جب جی چاہے اور جہاں تک جی چاہے چلے آتے ہیں تو ہم ان کی ٹانگ میں گولی مارنے کے بجائے کورس میں گانا گاتے ہیں کہ ’چین ہے کہ مانتا ہی نہیں‘ یہ سب اس کی وجہ سے ہے کہ نہرو اپنے کپڑے اور گلاب کا پھول دیکھتے رہے اور ان کے چہیتے زمین پر سڑک اور ندیوں پر پل بنانے کے بجائے اپنے محل بناتے رہے اور جب 1962 ء میں حقیقت سامنے آئی تو پلنگ پکڑلیا اور وصیت کردی کہ میری راکھ پورے ملک پر چھڑک دینا۔

آج پنڈت نہرو کی طرح ہی شری مودی کہہ رہے ہیں کہ میرے دماغ میں تاریکی میں ڈوبے ہوئے گائوں ہیں جنہیں روشنی دینے کے لئے میں راستے تلاش کررہا ہوں ہم نہیں کہتے کہ وہ شاعری کررہے ہیں لیکن قول اور عمل کو جب ہم ملاکر دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہفتوں دوسرے ملکوں میں گھومنے کے بعد آتے ہیں تو ہریانہ، مہاراشٹر فتح کرنے کے لئے اپنے کو جھونک دیتے ہیں پھر آرام یا بقول خود رات دن کام کرنے کے بعد کشمیر اور جھارکھنڈ فتح کرنے کی مہم پر لگ جاتے ہیں اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے کہ گائوں تو کیا روشن ہوتے شہروں میں بھی چراغ میں تیل ہے یا نہیں؟ اور اس کے بعد دہلی کا معرکہ آجاتا ہے تو اپنے منھ بولے دوست براک اوبامہ کی تواضع میں پورے ملک کو کھڑا کرکے تواضع کرتے ہیں اور پھر دہلی فتح کرنے کے لئے صرف خود نہیں پوری کابینہ کو اور 120  ممبران پارلیمنٹ اور رنگ رنگ کے وزیر اعلیٰ کو بھی جھونک دیتے ہیں چاہے جس کا حاصل 70  میں تین کرسیوں تک رہ جائے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ مودی تاریکی میں ڈوبے گائوں کو روشن کرنے کے راستے تلاش کررہے ہیں یا مغل بادشاہوں کی طرح سلطنت کو بڑھانے کی جدوجہد میں لگے ہیں؟

ہم کیسے کہیں کہ ذرا اپنے کو بدل کر تو دیکھیں اور جو کہتے ہیں وہ کرکے تو دیکھیں پھر وہ دیکھیں گے کہ جیسے سیلاب کی طرح ووٹ بہہ کر کجریوال کے پاس آگئے اس سے زیادہ تیزی سے ان کے پاس آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی نے ثابت کردیا کہ صرف آٹھ مہینے میں ملک پوری طرح ان سے مایوس ہوگیا ہے 2019 ء تک تو ظاہر ہے کہ ان کو ہر دو گھنٹے کے بعد پگڑی بدلنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور نہ اس سے روک سکتا ہے کہ جہاں جائیں وہاں کہیں کہ ہم نے ہر وعدہ پورا کردیا اور اچھے دن آگئے یا سب سے ناکارہ بے مصرف مگر اپنے دلارے امت شاہ کی حفاظت میں 25  کمانڈو اور لگا دیں یا جو چاہے کریں؟ لیکن اس کے بعد کا خواب نہ دیکھیں کیونکہ جگہ جگہ کجریوال پیدا ہوچکے ہوں گے۔

پنڈت نہرو کی علالت جب خطرہ کی طرف چل پڑی تو دنیا میں شور ہوا کہ نہرو کے بعد کون؟ اور اس وقت کے سیاسی حکیموں نے اعلان کردیا کہ چند دن کوئی اور اس کے بعد اندرا گاندھی۔ اگر یہ سوال آج کیا جاتا تو ہم جیسے نہ جانے کتنے کہتے کہ مودی اس لئے کہ وی آئی پی کلچر نہرو اور ان کے خاندان کی دی ہوئی بیماری ہے۔ اس کے باوجود برسہا برس نہ جانے کتنے پارلیمنٹ کے ممبر اور نہ جانے کتنے ہزار ایم ایل اے ریٹائر ہونے کے بعد اس حال میں مرے کہ اچھے علاج کے پیسے ان کے پاس نہیں تھے۔ آج ایم ایل اے راجہ ہوتا ہے اور ایم پی مہاراجہ۔ خدا کجریوال کو کہنے اور کرنے کے فرق کی لعنت سے اگر محفوظ رکھے گا تو شاید پھر وہ یا اس سے ملتا جلتا زمانہ لوٹ آئے ورنہ ملک کی کیا صورت ہوجائے گی اسے دیکھنے کے لئے شاید ہم تو نہ ہوں مگر ہماری اولاد ماتم کرنے والوں میں نظر آئے گی۔

(یو این این)

******************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 615