donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Wazeer Azam Bano Mahatma Nahi

وزیر اعظم بنو مہاتما نہیں


حفیظ نعمانی

کون نہیں جانتا کہ 1947 ء کو جب ملک آزاد ہوا اور نئی حکومت بنی تو اس کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے وہ ایک طویل مدت تک حکومت کرتے رہے اور اس عرصہ میں حکومت کی سرپرستی میں ملک کے ہر صوبہ میںہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کیا جاتا رہا اور ہندو ہونے کا ہی سبب تھا کہ پنڈت نہرو نے کسی ایک وزیر اعلیٰ کو بھی اس جرم میں اس کے عہدہ سے نہیں ہٹایا کہ بے قصور اور بے گناہ مسلمانوں کو کیوں قتل ہونے دیا؟ تقسیم کے دوران جو لاکھوں مسلمان اور ہندو مرے اُن کا تو حساب کسی سے نہیں لیا جاسکتا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ 1961 ء میں جبل پور میں پنڈت نہرو کے یارغار کیلاش ناتھ کاٹجو وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے بھی جواہر لال کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ابتدا مسلمانوں نے کی تھی اور نہرو نے مان لیا۔
پنڈت نہرو کے بعد لال بہادر شاستری وزیر اعظم ہوئے اور ان کے بعد شری اٹل بہاری باجپئی تک جتنے بھی وزیر اعظم ہوئے وہ سب ہندو تھے اس کے بعد دس سال سردار منموہن سنگھ وزیر اعظم رہے جو سکھ تھے یعنی ہندوئوں کی ہی ایک قسم تھی۔ اس پورے عرصے میں کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ رام زادہ ورنہ حرام زادہ کہے یا گوڈسے کی تعریف کرے۔ یہ صرف شری نریندر مودی کے 9  مہینے کی حکومت کا اثر ہے کہ ایک گئی گذری ہندو مہاسبھا کا سرپھرا یہ کہنے کی جرأت کرے کہ ہم نے گاندھی کو مارا اب ہم کجریوال کو ماریں گے۔ اور یہ کہنے کی ہمت صرف اس لئے ہوئی کہ شری مودی کوشش کررہے ہیں کہ ملک کے 100  کروڑ ہندو انہیںگوڈسے نواز ہندو سمجھیں۔

مودی سے پہلے اشوک سنگھل، پروین توگڑیا یا اُن جیسے سستی شرہت کے بھوکوں پر کبھی کبھی دورہ پڑتا تھا اور وہ کچھ کہہ دیا کرتے تھے لیکن کبھی  ایسا نہیںہوا کہ وزیر اعظم ممبران پارلیمنٹ یا ملک سے کہیں کہ انہیں معاف کردو۔ اب جو کچھ دہلی میں ہوا ہے یہ سب صرف اس وجہ سے ہوا کہ مودی وزیر اعظم سے زیادہ اپنے کو شنکرآچاریہ جیسا ہندو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے اس بہروپ نے انہیں دہلی میں جواب اُن کا گھر ہے اتنا ذلیل کردیا کہ 10  تاریخ سے پہلے اپنی کسی تقریر میںوہ جس اروند کجریوال کا نام لینا بھی توہین سمجھتے تھے اسی کجریوال کو نہ صرف مبارکباد دے رہے ہیں بلکہ چائے پر بھی بلا رہے ہیں۔

شری مودی یا بی جے پی کا کوئی لیڈر یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس طرح مسلمانوں نے کانگریس کو چھوڑا اور وہ اب علاقائی پارٹی بننے والی ہے اسی طرح بی جے پی کی مخالفت کی اس لئے کہ دہلی کی 70  سیٹوں میںصرف 10  ایسی ہیںجہاں مسلمان اثر ڈالتے ہیں ورنہ باقی سیٹیں تو وہ ہیں جہاں ہندوئوں نے بی جے پی کو چھوڑا۔ اور ایسا چھوڑا کہ جس کرن بیدی کو سر پر بٹھانے کی سزا ملی ہے وہ بھی کہہ رہی ہے کہ میں نہیں ہاری بی جے پی ہاری ہے۔

اتفاق کی بات ہے کہ جس دن دہلی کا نتیجہ آنے والا تھا اسی دن کے اخبار میںوہ بھی بکواس چھپی ہے جو یوگی آدتیہ ناتھ نے کی۔ وہ بھی جو مہاسبھا کے سوامی اوم نے کی اور وہ بھی جو موہن بھاگوت نے کہا کہ یہ وقت ہندوئوں کو متحد کرنے کا بہترین وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو عظیم بنانے کے لئے ہندوئوں کو متحد کرنا ہوگا۔ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کا قول نقل کیا ہے کہ جب ہندو مسلمانوں میں جھڑپ ہوگی تو ایک درمیانی راستہ نکلے گا اور یہ راستہ ہندوتو ہوگا۔ یہ ان ہی ٹیگور کا قول نقل کیا ہے جو لکھ گئے ہیں کہ رام چندر جی سیتا جی اور لکشمن جی سب فرضی کہانی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے یعنی نہ رام کچھ ہیں نہ جنم بھومی اور نہ سیتا رسوئی۔

وزیر اعظم شری نریندر سے پہلے کسی وزیر اعظم نے اس طرح کی بکواس کرنے والوں کو نہ پارلیمنٹ کے ممبروں سے معافی کے لئے کہا نہ قوم سے یہ نئی کہانی مودی صاحب نے شروع کی ہے اور اس کا نتیجہ انہوں نے دیکھ لیا۔ شری مودی گجرات میںرہے اور گجرات میںہی انہوں نے حکومت کی گجرات آبادی کے اعتبار سے ہندو صوبہ ہے اور مسلمان چٹنی کے برابر ہیں وہاں کانگریس بھی بس نام کے لئے ہے اسی وجہ سے وہاں سیکولرازم نہیں ہے۔

ملک میں ہر وزیر اعظم کے زمانہ میں مسلمانوں کو قتل بھی کیا گیا ہے برباد بھی کیا گیا ہے اور جلایا بھی گیا ہے۔ جس کا تجربہ مودی جی نے گجرات میں بھی کرلیا اور وہ سب کرلیا جو دوسرے وزیر اعظم کرگئے تھے اور مسلمانوں نے کبھی ملک چھوڑنے کی بات نہیں کی۔ لیکن اسے معاف بھی نہیں کیا جس نے انہیں برباد کیا جس کی مثال کانگریس ہے کہ دہلی میں جس کی 15  سال حکومت رہی اس کے سارے ووٹ عاپ کو منتقل ہوگئے اور مودی جی کو سوچنا چاہئے کہ آخر ہندو نے انہیں کیوں چھوڑ دیا؟ ظاہر ہے کہ قوم وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میںدیکھنا چاہتی ہے اور پجاری کو مندر میں۔ اب اگر پجاری پارلیمنٹ میںجابیٹھے اور وزیراعظم مندر میں تو دونوں کو اسی طرح سبق پڑھایا جائے گا جیسے دہلی والوں نے پڑھا دیا۔

دہلی کی ہار پر جو سرجوڑکر غور ہورہا ہے اس میںہر ایک کے منھ سے ایک ہی بات نکل رہی ہے کہ ہم نے ہریانہ جیتا مہاراشٹر جیتا اور جھارکھنڈ جیتا۔ کشمیر میںبھی ہمارے ممبر بڑھے۔ حیرت ہے کہ اس پر کیوں غور نہیں ہو تاکہ ہریانہ میں میدان صاف تھا کانگریس کو بھی جواب دینا تھا اور چوٹالہ کو بھی لیکن بی جے پی کو کسی بات کا جواب نہیں دینا تھا، اس لئے انہیں میدان صاف مل گیا۔ مہاراشٹر میں دونوں کانگریس پر انتہائی سنگین الزام تھے رہی شیوسینا تو اس کی طاقت بال ٹھاکرے تھے وہ ختم ہوچکے تھے۔ لیکن دہلی میں نہ کانگریس کو حساب دینا تھا نہ کجریوال کو اور کجریوال نے گھر گھر جاکر معافی مانگی جسے لوگوں نے معاف کردیا۔ رہی بی جے پی تو آٹھ مہینے کا اسے حساب دینا تھا کہ اس نے گورنر راج میں جو اس کا راج تھا کیا کیا؟

اور سب سے بڑی غلطی بی جے پی نے یہ کی جن ورکروں نے برسوں محنت کی اور میدان بنایا انہیںکاٹ کر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیا جو دوسری پارٹی چھوڑکر آئے تھے جب کبھی کسی پارٹی نے یہ غلطی کی ہے اس کی سزا اُسے ملی ہے اس لئے کہ تجربہ کار ورکر دشمن بن گئے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش کرکے ہرا دیا۔ اور شری مودی نے بے وجہ اپنے کو ذلیل کیا ان کے پاس پلا پلایا بلی کا بکرا امت شاہ موجود تھا وہ پورا الیکشن ان کے ہاتھ میںدے دیتے تو آج انہیںیہ ذلت نہیںاٹھانا پڑتی کہ ایک وزیر اعظم کو ایک عام آدمی نے دھول چٹا دی اور وہ ذلت دی جو نہ انہوں نے دیکھی اور نہ آئندہ دیکھیں گے۔ انہیں صرف فاتح اعظم بننے کا شوق تھا جس کا خاتمہ ایسے حادثہ پر ہوا کہ اب بہار، بنگال اور اُترپردیش سب خطرہ میں آگئے۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 605