donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ilyas Azmi
Title :
   To Mai Rajiv Gandhi aur Veer Bahadur Singh Ko Sazaye Maut Deta

 ...تو میں راجیو گاندھی اور ویر بہادر کو سزائے موت دیتا


الیاس اعظمی سابق ممبر پارلیمنٹ


جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ ہاشم پورہ قتل عام کے ملزم چھوٹ گئے۔ میرے جیسے لوگوں کے دماغ میں اٹھائیس سال پہلے کے واقعات کی فلم دوبارہ چلنے لگی۔ یہ صرف اتفاق نہیں ہے کہ فیصلے کی خبر ملتے ہی اترپردیش کی غیر سنجیدہ اور نابالغ حکومت کے مکھیا نے ہندئو وں کے مذہبی لباس کیخلاف ایک زہریلا بیان اس لئے داغ دیا کہ میڈیا ہاشم پورہ کو اجاگر کرنے کے بجائے بھگوا لباس کو موضوع بحث بنادے۔یوں تو انگریز کی واپسی کے تین سال بعد ہی ’’استادوں کے استاد‘‘جواہر لال نہرو نے دلتوں کے ریزرویشن کو حاصل کرنے کیلئے ہندو ہونے کی قانونی شرط لگا کر بھارت کے دستور اور سکولرازم کو راسٹرپتی بھون کے مغل گارڈن میں پورے تزک واحتشام کیساتھ اتنے نیچے دفن کردیا تھا جہاںاسکے دوبارہ نکل آنے کا امکان ہی نہ رہے۔انگریز کی واپسی کے بعد ملک میں اٹھنے والی ہر ملی اور عوامی تحریک میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے میں زیادہ تر واقعات کے عینی شاہد کی حیثیت رکھتا ہوں۔ رمضان 1987میں میرٹھ میں ہونے والا فساد ان ہزاروں فسادات میں سے ایک تھا جسکی بنیاد راجیو گاندھی نے یکم فروری 1986کو بابری مسجد کا ’’رسوائے زمانہ‘‘ تالہ کھولوا کر رکھی تھی ۔تالہ کھلوانے کی تمہید بھی علمائے سو کے ذریعہ چلائی جانے والی نا ن و نفقہ تحریک تھی جسے پر سنل لاء تحریک کا نام دیا گیا تھا۔کرامت اللہ کے نظام الدین میں واقع عالیشان مکان میں سید ابوالحسن علی میاں ندوی ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہیں راجیو گاندھی اور ارون نہرو نے ان سے تخلیہ میں طویل ملاقات کی۔ اسکے چند دن بعد ہی ’’ملت کو نان و نفقہ‘‘ کا نیا قانون مل گیا۔ اور علماء کے بڑے بڑے ناموں نے پارلیمنٹ کی گیلری میں بیٹھ کر پارلیمنٹ سے اسلام کی نان و نفقہ قانون کی الٹی تعبیر و تشریح کروائی۔ اور تحریک کی اس تاریخی شکست کو فتح کا نام دیا۔اس واقعہ کے چند دن بعد گومتی ندی کی باڑھ کے بہانے پردھان منتری راجیو گاندھی لکھنؤ گئے اور وہاں کے مکھیہ منتری نرائن دت تیواری کو ہٹاکر ویر بہادر سنگھ کو مکھیہ منتری بنادیا گیا۔اب یہ بات راز نہیں رہی کہ کچھ خاص کاموں کو کرانے کیلئے ویر بہادر سنگھ کو کنٹریکٹ مکھیہ منتری بنایا گیا تھا۔چند دن بعد ہی وقف بورڈ کے چیئرمین فرحت علی کو الہ آباد سے لکھنؤ بلواکر ویر بہادر سنگھ نے ان پر دبائو، لالچ اور انہیں امریکہ کا سفیر بنانے کی پیشکش کی ، بشرطیکہ وقف بورڈ بابری مسجد کو سونپ دے، لیکن فرحت علی نہ تو ملا تھے نہ ہی نیتا کہ وہ لالچ میں آجاتے۔ تین دن ان سے کیا کیا کہا گیا لفظ بہ لفظ فرحت علی صاحب مجھ سے بتاچکے تھے۔

مشن وقف بورڈ ناکام ہوتے ہی راجیو گاندھی نے سپریم کورٹ کے مشہور جج کو فیض آباد بھیج کر ضلع جج کرشن موہن پانڈے کو راضی کروایا کہ وہ عدالتی ڈرامہ کے ذریعہ مسجد کا تالہ کھولنے کا حکم دے دیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ جج صاحب کبھی ریٹائر ہی نہیں ہوئے بلکہ آخری سانس تک کسی نہ کسی کمیشن کے چیئرمین رہے؟


1987کے رمضان میں میرٹھ میں ہونے والا فساد ان ہزاروں فسادات کے سلسلے کی ایک کڑی تھا جو بابری مسجد کا تالہ کھلنے کے بعدپورے ملک میں ہورہے تھے۔ کانگریس کی روایات کے مطابق ویر بہادر سنگھ نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر افطار پارٹی دے رکھی تھی۔ وہ میرٹھ سے سیدھے افطار پارٹی میں پہنچے ابھی افطار چل ہی رہا تھا کہ انکے پی اے نے دہلی سے آنے والے فون کی دوبار اطلاع دی جسے ویر بہادر نے ٹال دیا۔کھانا شروع ہونے پر ابھی ویر بہادر نے دوسرا لقمہ ہی لیا تھا کہ پی اے نے بتایا کہ پردھان منتری خود لائن پر ہیں۔ ویر بہادر اٹھے اور چند منٹ بعد مہمانوں کو رخصت کئے بغیر ایئر پورٹ چلے گئے۔ دہلی میں راجیو گاندھی نے ویر بہادر سے کہا کہ میرٹھ میں املیان اور ہاشم پورہ کے مسلمان اتنے سرکش ہیں کہ کرفیو کے دوران انہوں نے  پولیس اور پی اے سی کو ان محلوں میں گھسنے تک نہیں دیا، اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ویر بہادر نے کہا بھی کہ اب میرٹھ میں امن قائم ہوچکا ہے ،لیکن پردھان منتری کے حکم پر وہ دوسرے دن میرٹھ پہونچے۔وہاں موجود پی اے سی کی مختلف بٹالینوں کے کمانڈنٹوں سے بات کی ،سب نے کہا کہ پی اے سی بہت زیادہ بدنام ہوچکی ہے اب امن قائم ہوجانے کے بعد کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال اکتالیسویں بٹالین غازی آباد کا کمانڈنٹ تیار ہوگیا۔ اس لئے ویر بہادر نے اس کو الگ سے ہدایات دیں۔ویر بہادر بھوج پوری بولتے تھے اور ہکلاتے تھے۔ کمانڈنٹ نے املیان کو ملیانہ سمجھ لیا۔ ملیانہ شہر کے باہر ایک گاؤں تھا جسکی آراضی پر کالونیاں بن چکی تھیں۔ ملیانہ گاؤں ان کالونیوںکے بیچ آچکا تھا۔ فساد کے دوران وہاں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی تھی، لیکن ویر بہادر کی ہکلاہٹ کی وجہ سے املیان پر جو مصیبت آنے والی تھی وہ ملیانہ منتقل ہوگئی۔

22مئی 1987کو صرف ہاشم پورہ کا واقعہ نہیں ہوا۔ دن میں پی اے سی کی ایک ٹکڑی ملیانہ گاؤں میں داخل ہوئی اور اس نے اندھا دھندفائرنگ کر کے ملیانہ کے تقریباًباسٹھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ ہفت روزہ چوتھی دنیا کے ویریندر سینگر اس وقت ملیانہ میں تھے۔وہ وہاں سے دہلی پہونچے ۔انہوں نے ملیانہ کے چشم دید واقعات مرحوم جاوید حبیب سے بتائے۔ جاوید صاحب نے مجھے بلوایا جب تک میں ذاکر نگر پہونچتا ویریندر سینگر کہیں جاچکے تھے۔ مجھ سے جاوید حبیب نے ساری باتیں بتائیں جیسے میں نے مضمون کی شکل دی اور ممبئی میں اپنے لوگوں کی وساط سے روزنامہ انقلاب میں چھپوایا۔پی اے سی کی اکتالیسویں بٹالین کے ایک حصے کو ملیانہ تو دوسرے حصے کو ہاشم پورہ بھیجا گیا تھا ۔ہاشم پورہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو اٹھایا گیا۔ انہیں چار تھانوں میں رکھا گیا۔ وہاں انکے ساتھ کیا کیا ہوا۔ اسکی جھلک میں مئو ناتھ بھنجن اور دوسرے علاقوں میں برسوں سے دیکھتا رہا تھا۔شام کو ان سیکڑوں لوگوں میں سے تینتالیس نوجوانوں کو چھانٹ کر چار ٹرکوں میں لادا گیا۔ چاروں ٹرکوں کی منزل مقصود پہلے سے طے تھی۔ ہنڈن ندی اور گنگ نہر کے کناروں پر انہیں اتار کر گولیوں سے بھون کر لاشوں کو پانی میں بہایا جانے لگا۔ان میں ایک ٹرک کا ڈالا کھلتے ہی مظلوم ایک ساتھ ٹرک سے کودے۔ پی اے سی کی رائفلوں نے آگ اگلنی شروع کی۔ اس میں سے پانچ زخمی زندہ نہر میں کود گئے یا پی اے سی نے انہیں مردہ سمجھ کر نہر میں ڈالا۔ نہر کے کنارے بڑے بڑے مسلم گاؤں ہیں۔ انہیں گاؤوں کے کنارے ایک جگہ ذوالفقار نکلا ۔اسے گاؤں والوں نے رات میں ہی دہلی پہونچادیا۔ ایک گاؤں والوں نے چار زخمیوں کو نکالا اور انہیں غازی آباد کے تھانے میں پہونچایا ۔ اس وقت غازی آباد میں وبھوتی نرائن رائے ایس ایس پی تھے ،انہوں نے سب کے بیان لیکر من و عن پولیس ریکارڈ پر چڑھواکر چاروں کو اسپتال میں بھرتی کروادیا۔دوسری طرف ویر بہادر سنگھ دلی کے یوپی نواس میں سورہے تھے ۔انہیں رات کے چار بجے جگا کر بتایا گیا کہ وی این رائے نے سب کچھ پولیس ریکارڈ پر چڑھوادیا ہے۔ ’’ای تو گجب ہوئے گوا،ای تو گجب ہوئے گوا‘‘کہتے ہوئے بنا چپل پہنے ویر بہادر گاڑی کی طرف بھاگے اور غازی آباد پہونچ کر وی این رائے کو معطل کیا اور جس اسپتال میں زخمی بھرتی تھے اس پر پولیس کا اتنا بڑا پہرہ لگوادیا جس سے کوئی ان سے نہ مل سکے۔اس وقت ہائی وے نمبر 24پر مسوری میں وہ پل بن رہا تھا جس سے پوری نہر میں گھنی بلیاں لگی تھیں۔کئی لاشیں بہتی ہوئی ان بلیوں میں پھنس گئیں جسے مسوری والوں نے نکال کر شاید مسوری میں ہی آخری رسومات ادا کردیں اور اسکے بعد یہ خبر عام ہوئی۔

پھر طویل جدوجہد کے بعد واقعہ کی مجسٹریٹ جانچ ہوئی ،تب تک اترپردیش ’’سکولرازم‘‘ کے جال سے نکل کر ’’سماج واد‘‘ کے پھندے میں جکڑ چکا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ اترپردیش کا ’’سماج واد سیکولر بھی تھا‘‘ یعنی کریلا وہ بھی نیم چڑھا۔ اترپردیش کا سماج واد پوری دنیا سے نرالا اور دنیا کا آٹھوواں عجوبہ۔۔۔ہے ۔اس میں حکمراں کوئی پارٹی نہیں ایک پریوار اور اسکی جاتی ہوتی ہے۔ جس پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہاشم پورہ قتل عام کے انیس ملزمان میں سے کئی ایک حکمراں جاتی کے ہوں تو کسی حکومت کی اتنی مجال ہوسکتی تھی کہ وہ اپنے ہی مقدمہ کی پیروی کرتی۔ ا سکے ثبوت وشہادت عدالت میں پیش کرتی۔ اترپردیش میں فاشسٹ فرقہ پرست فراڈ اور دغاباز کانگریس کا خاتمہ بالشر بابری مسجد کے ملبے تلے دب کر اسی وقت ہوچکا تھا۔ اسکی آخری رسومات بھی ملیانہ و ہاشم پورہ کے مظلوم شہیدوں کیساتھ ادا ہوچکی تھیں۔ اسکے بعد بھاجپا، سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی نام کی تین جماعتیں ہیں اور تینوں میں ہمیشہ سو فیصدی ملی بھگت رہتی ہے۔ قنوج سے ڈمپل یادو کا بلا مقابلہ لوک سبھا میں پہونچنا میری بات کا اتنا پختہ ثبوت ہے کہ اسکے بعد کوئی پاگل ہی میری اس بات کا ثبوت مانگ سکتا ہے؟اس المیہ کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ راجیو گاندھی نے ویر بہادر کو ’’کنٹریکٹ مکھیہ منتری‘‘کچھ قابل نفرت کاموںکو انجام دینے کیلئے بنایا تھا۔ ویر بہادر سنگھ کا ضمیر جب ملامت کرتا تھا تو وہ اپنے دوست جے پرکاش شاہی کو سب کچھ بتاکر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے اور جے پرکاش شاہی اپنے شاہ کار مضامین لکھتے تھے۔ جلد ہی جب کانگریسیوں کو یقین ہوگیا کہ جے پرکاش شاہی کو سب کچھ ویر بہادر سنگھ بتاتے ہیں ورنہ پردھان منتری اور مکھیہ منتری کی تخلیہ میں ہوئی باتیں کیسے اجاگر ہوتیں۔کنٹریکٹ کا کام پورا ہوتے ہی ویر بہادر کو فوراً ہٹاکر این ڈی تیواری کو پھر مکھیہ منتری بنادیا گیا۔ کچھ دن بعد ویر بہادر یورپ کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے اور جے پرکاش شاہی کو بھی جلد ہی روڈ ایکسڈنٹ کے ذریعہ انکے پاس پہونچادیا گیا۔ کیا یہ سب محض اتفاق تھا؟ جے ہو نہرو برانڈ سیکولرازم کی! جے ہو ملائم برانڈ سوشلزم کی! جسکے دم پر ملاینہ و ہاشم پورہ کے عملی قاتلوں کو معطل تک نہیں کیا گیا۔ اگر میں جج ہوتا تب بھی ان کو چند سال کی سزا دیتا ۔ اور مقدمہ راجیو گاندھی اور ویر بہادر پر چلاکر انہیں سزائے موت دیتا جو اصل قاتل تھے۔ تاریخ انسانی نے جمہوری دور میں بھی ہٹلر سے لیکر بھٹو، مجیب الرحمن، نہرو، اندرا، راجیو گاندھی اور صدام حسین جیسے سیکڑوں حکمراں قاتلوں کو اور انکے انجام کو بھی دیکھا ہے۔ ملت اسلامیہ کی ماؤں نے بھی دورِ رسالت سے اب تک ایک سے بڑھ کر ایک منافقوں کو جنم دیا ہے ، لیکن یہ مضمون پورا نہیں ہوگا اگر میں یہ نہ لکھوں کہ یوپی کی دونوں بڑی پارٹیوں کے ایک ایک نوکر عبداللہ بن ابی ابن سلول  کی ذریت کے شاہ کار ہیں ۔ یہ ملت جب تک اپنے احتماعی گناہوں کی ان گٹھریوں کو اپنے کندھوں سے اتار کر دفن نہیں کردیتی تب تک اس بوجھ سے انکی گردنیں ٹوٹتی ہی رہیں گی۔متھرا، مسوری فیض آباد اور مظفر نگر ہوتے ہی رہیں گے۔ انہیں روکا ہی نہیں جاسکتا؟

مضمون نگار لوک سبھا کے سابق رکن اور عام آدمی پارٹی کے قومی ترجمان اور پی اے سی کے رکن ہیں

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 456