donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Parikarma Yatra Aur Shiddat Pasandon Ki Zid


پر یکر ما یاتر ااور شدت پسندو ںکی ضد
 
عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
09911657591
 
وطن عزیز ان دنوںعجیب صورت حال سے دو چار ہے ‘وہ عجیب  کرب کے عالم سے گذرہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے  کہ کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے ۔یہ اس لیے کہ بر سوں سے چلی آرہی ایک قومی رسم ’’ایودھیا کی  چوراسی کوس کی پریکرما ‘‘کو ادا کر نے پر یوپی حکومت نے نقص امن کی خاطر پابندی لگادی ۔بات سپریم کورٹ تک پہنچ گئی اور وہاں سے بھی حکومت کے حق میں فیصلہ ہوا ۔اس وقت تو غضب ہو گیا جب شاستر کے ماہرین اور مذہبی گروئوں نے ’فتو ا ‘دے دیا کہ ہندو مذہب میں پر یکر ا کو ئی ثبوت اور جواز نہیں ہے نیز اسے وی ایچ پی سے وابسطہ سادھو سنتوں کی گڑھی اور من مانی روایت کہہ  کر جلتی پر تیل کا کام کر دیا ۔ بس ان ہی ناکامیوں نے۔۔۔۔۔ان ہی ناکامیوں نے اکثریتی طبقے کے افراد کو بوکھلاہٹ‘جھلاہٹ‘غم و غصے میں مبتلا کر دیا اور وہ ملک کے امن و امان کے دشمن ہو گئے ۔ان کی آنکھوں میں جنونیوں اور قاتلوںکاسا خون اتر آیا ہے جس میں مذہبی عقیدت سے زیادہ نفس ‘انا اور سیاست کی سرخی جھلک رہی ہے ۔
 
 چوراسی کوس کی پریکرما کے عدم جواز اور وی ایچ پی کی ہٹ دھرمی بتا تے ہو ئے شنکر اچاریہ سوامی دیانند سرسوتی کے قریبی اور راشٹریہ پر گتی شیل مورچہ کے صدر حقیقت بیان کر تے ہو ئے کہتے ہیں : ’’ہندو شاستر وں کے مطابق یہ وقت’’چتر ماس ‘‘کا ہے جس میں ندی نالا پار کر نا بھی منع ہے تو پھر وی ایچ پی کے سادھو سنت کون سے شاستر کو مانتے ہیں اور کس حساب سے وہ پریکرما جارہے ہیں۔۔۔۔‘‘اسی طرح کے خیالات کا اظہار متھرا گوردھن کے شنکر اچاریہ نے بھی کیا ۔انھوں نے کہا کہ گجرات بدنام زمانہ ونریندی مودی  اب یوپی کو گجرات بنانے کی تیاری کررہے ہیں ۔ان کی نیت ہمیں معلوم ہے ۔یہ پریکر ما مذہبی سے زیادہ سیاسی لگ رہی ہے۔ان فسادی کیڑوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا ‘میں کہتا ہوں کہ جب تک ان کیڑوں کو ملک سے باہر نہیں نکالا جاتا  اس وقت تک ملک میں امن و امان قایم نہیں ہو سکتا۔ اتر پردیش  حکومت  کا یہ خوش آیند قدم ہے ۔ یہ اس نے بہت اچھا کیا کہ انسانیت کو تباہ کر نے والوں کا راستہ رو ک دیا ۔انھوں نے کہا کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت تھی جس کے لیے میں بذات خود یوپی حکومت کو مبارک باد دیتا ہوں اور اس کے اعلا انتظام کی ستائش کر تا ہوں۔انھوں نے کہا کہ وی ایچ پی سے وابسطہ تمام سادھو سنت ٹھگ اور چور اچکے ہیں ‘مفاد پرست ہیں جو انتخابات کے موقع پر عام ’ہندوئوں ‘کو لوٹنے آجاتے ہیں ۔آج سے20قبل بابری مسجد کو شہید کر کے انھوں نے یہ گھنائو نا کھیل کھیلا تھا اور اب پھر ان کی وہی کوشش ہے ۔یہ سادھو سنت رام کی تعلیم کو چھوڑ کر مودی کے اقتدار کے لیے مذہبی روایات و اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔۔۔۔ ۔ ‘‘ (بشکریہ ’دی ہندو ‘24اگست2013)  
 
اسی طرح دوسرے حقیقت ‘جمہوریت اور امن و امان کے خوگر شنکر اچاریوں ‘سادھو سنتوں نے بیان دیے ہیں اور اس پریکرما کو کلی طور پر ناجائز اور قومی سلامتی کے لیے تباہ کن بتایا ہے۔
 
مند رجہ بالا بیانات اورمتھرا گوردھن کے شنکر اچاریہ کا بیان حرف بحر ف صحیح ہے ۔ سب سے پہلے میں اس اتفاق کر تا ہوں ‘واقعی یہ فر قہ پر ست عناصر ملک کو تباہی کے دہانے لے جارہے ہیں اور مذہب کی آڑ میں اقتدار کی ہوس میں پاگل ہو رہے ہیں ۔رام کے ’مقدس ‘نام کا غلط استعمال کر کے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔حد تو اس وقت ہو گئی جب یہ عدالت عالیہ پہنچ گئے مگر کچھ دیر بعد ہی اپنا سا منہ لے کر آگئے ۔ اس وقت ان کے چہروں پر نفرت اور تعصب کی چنگاریاں مچل رہی تھیں۔۔۔۔۔لیکن وہ کہیں بھی آگ نہیں لگا سکے نتیجتاً خود ہی اپنی آگ میں جلنے لگے۔حقیقت سامنے آگئی قانون نے انھیں ملک کی سلامتی کے خاطت اجازت نہیں دی اس کے باوجود بھی شرپسندوں کی ضد ہے کہ انھیں پریکر ما سے نہ روکا جاے بلکہ ہر حال میں اسے کر نے دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ 
 
با رہا یہ بات کہی جاتی ہے کہ جمہوری ملک کی روایات مختلف ہوتی ہیں اور مذہبی اسٹیٹ کی رسومات جلد ‘جمہوریت میں من مانیاں اور غلط بیانیاں نہیں چلا کر تی۔جمہوریت میں مختلف مذاہب‘رسوم ‘افکار ‘ نظریات اور عقائد کے لوگ رہتے ہیں جن کا فردا فردا احترام ہر ایک پر لازم ہے ۔اپنی بات اور ضد پوری کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی مگر فرقہ پر ستوں کے یہ حقیقت کیسے سمجھ میں آسکتی ہے ۔وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ گھڑی ہو ئی رسوم ‘کتابی ہدایات اور شاستروں کی تلقین سے اٹھ کر بھی ایک مذہب ہے ۔’مذہب انسانیت‘ جس کا احترام اسی طرح لاز م ہے جیسے’ماں باپ ‘کا۔۔۔۔۔ انھیں بچپن سے انسانیت کے خلاف’ نفرت کازہر ‘پلادیا جاتا ہے جس کے زیر اثر وہ خود کو دنیا کا اعلا ترین انسان تصور کر نے لگتے ہیں اور دوسروں کو رذیل ترین ۔پھر جہاں موقع ملتا ہے انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر اپنی خونی پیاس بجھالیتے ہیں ۔
 
ان دنوں ایک بار پھر’’ ملک کی آزادی‘‘  خطرے میں ہے اور مادر وطن کا دامن تارتار ہونے کو ہے ۔اس کے بڑے بیٹے خود اس کی چادر کھینچنے کی ضد کر رہے ہیں ۔وہ ہاتھ جوڑرکر کہہ رہی ہے ۔۔۔۔۔ نہیں میرے بچو!ایسا مت کروتمہاری طرح اور لوگ بھی میرے ہیں جو امن چاہتے ہیں ‘تم فساد بر پا کر و گے ‘خدا کے لیے میری چادر چھوڑ دو ‘مجھے بے لباس مت کرو ۔میرے بچو! اپنے بھائیوں کا خیال کر لو ۔۔۔۔۔۔مادر وطن رو رہی ‘دہائیاں دے رہی ہے اور امان مانگ رہی ہے ۔۔۔۔مگر شرپسند عناصر اب اسے اس کے وجود سمیت ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ان پر اس کی دہا ئی ‘فریاد اور رونے دھونے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے ۔انھوں نے تو قسم کھالی ہے کہ اب نریندر مودی کے بل بوتے پر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے اور سب سے پہلے مادر وطن کو قتل کر نا ہے۔ اس کے بعد کو ئی ان پر روک لگانے والا نہ ہو گا اور کو ئی ’جمہوری قانون ‘ ضابطے اور روکاوٹیں ۔۔۔اس وقت ہر طرف ہندو ازم ہی ہو گا اور ہماری شرپسندیاں آسمان کے ہمدوش ہو جا ئیں گی۔
 
اللہ خیر کرے !حالات دن بدن دھواں دھواں ہوررہے ہیں اور صورت حال بگڑتی جارہی ہے ۔پتا نہیں کب شرپسند غیر انسانی حرکات پر اتر آئیں اور ملک میں آگ و خون کا منظر بپا ہو جائے ۔  جو لوگ ماں کی بات نہیں مانتے ۔جو لوگ اپنی مرضیات کے مطابق شاستروں میں ردو و بدل کردیتے ہیں  ان سے اور کیا امید کی جاسکتی ہے۔مگر میں اللہ پاک کی مدد اور وقت کی تبدیلی سے مایوس نہیں ہوں نہ ابابیلوں کے عدم وجود کا قائل ہوں ‘ابابیل پھر آئیں گے اور ابرہہ کی تاریخ پھر دہرائی جائے گی۔
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 714