donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title :
   Abh Kitne Sirabjeet Aur

ابھی کتنے سربجیت اور--؟
 
ایم ودود ساجد
 
ہندوپاک کے تعلق سے جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے خود کو مشکل میں پایا۔ہم جیسوں کیلئے اس پر علمی بحث بھی آسان نہیں اور عقلی بحث بھی ممکن نہیں۔یہ طے کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ بن جاتا ہے کہ غلطی پر کون ہے۔ہندوستان یا پاکستان‘ یا دونوں ؟بسا اوقات کسی ایک کی غلطی ہوتی ہے ۔بعض اوقات دونوں غلطی پر ہوتے ہیں۔لیکن ہندوستان نزاد سربجیت سنگھ کے واقعہ میں‘مجھے ایک تیسرے عنصر کا بھی واضح ہاتھ نظرآتا ہے۔ حیرت ہے کہ خود سربجیت سنگھ کے اعتراف کے باوجودکوئی اس تیسرے عنصر کی دہشت ووحشت اور ہلاکت خیزیوں پر بات نہیں کرتا۔
 
ایک سے زیادہ پہلو رکھنے والے اس تکلیف دہ واقعہ میں‘پاکستان نے اسلام اور اہل اسلام کی ایک بہترین شبیہ پیش کرنے کا سنہراموقع گنوادیا۔اس واقعہ سے متعلق تمام سیاسی‘قانونی اور سفارتی پہلو اپنی جگہ‘ لیکن اگرپاکستان نے خیرسگالی کے اظہار کے آخری موقعہ کو استعمال کرتے ہوئے بیمار اور زخمی سربجیت کو اس کے اہل خانہ کے حوالہ کردیا ہوتا توآج منظرنامہ دوسرا ہوتا۔آخر موت کی ڈھانگ پر بیٹھے ایک مجبور شخص کو روکے رکھنے سے کیا حاصل؟جیل میں قیدی نما بھیڑیوں کے حملہ میں وہ جس طرح زخمی ہوگیا تھا اس کی روشنی میں اس کے بچنے کے امکانات معدوم تھے۔ایسے میںیہ بات فہم سے بالاترہے کہ پاکستان نے کیوں اس کے مرنے تک ضدی بچوں جیسا سلوک کیا۔اہل پاکستان ‘اپنے سیاسی اور قانونی فیصلے لینے کیلئے آزاد ہیں لیکن انہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے ہر عمل کودنیا اسلام کی میزان پر تولتی ہے۔دنیا ایسا کرنے میں حق بجانب ہے۔اس کے سامنے پیغمبر اسلام ﷺ کا وہ تاریخی سلوک موجود ہے جس میں وہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے والے قیدیوں کوبھی چھوٹی چھوٹی‘نفع بخش اور آسان شرائط پر رہا فرما دیتے ہیں۔اللہ اور اس کے رسول کے ابدی پیغام الفت کو آگے بڑھاکر پاکستان کے اہل اقتدار‘پوری دنیا کیلئے نمونہ عمل بن سکتے تھے لیکن آج تو وہ خود مسلمانوں کیلئے ہی ناقابل عمل نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ 
 
اس واقعہ میں‘ جس کے ایک منظر نامہ کااختتام سربجیت کی بعد از مرگ ہندوستان واپسی پر ہوگیا ہے‘پورا ملک ڈوبا ہوا ہے۔اتنے بڑے ملک میں کوئی کسی اور موضوع پر بات نہیں کر رہا ہے۔’کول گیٹ‘کے سنگین معاملہ پر حکومت جس شدید بحران سے دوچار ہونے والی تھی ‘سربجیت کی موت نے وقتی طورپراس بحران سے اسے بچا لیا ہے۔لیکن عدالت عظمی نے سی بی آئی کے کام کاج میں وزیروں کی مداخلت کاجس انداز میں نوٹس لیا ہے اس کی روشنی میں مرکزی حکومت کے وقار پر ذلت کی تلوار لٹک رہی ہے۔عوام کو خواہ اس قضیہ کی سنگینی اور شدت کا علم نہ ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب حکمراں اس درجہ کی بد دیانتی اور بدعنوانی میں ملوث ہو ں تو پھر انہیں سربجیت جیسوں کی فکر کہاں ہوگی۔ہم پاکستان کو ‘جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر لعن طعن کرسکتے ہیں لیکن قیدیوں کے ساتھ اس سلوک سے ہمارا دامن بھی پاک نہیں ہے۔یاد کیجئے کہ ۸جون ۲۰۱۲کو پنے کی یرواداسینٹرل جیل میں ایک ملزم کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔ابھی تو اس کا جرم ثابت بھی 
نہیں ہوا تھا۔کیا عجب کہ دوسرے نوجوانوں کی طرح وہ بھی عدالت سے دس یا ۱۴برس بعد باعزت رہا ہوجاتا۔اس پر ایک سے زائد بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔اسے ہائی پروفائل سیکوریٹی سیل میں رکھا گیا تھا۔لیکن اسے انتہائی عام قسم کے غنڈوں اور چور اچکوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ایسے ملزم کے پراسرار قتل پر‘جس سے بہت سی مفیدمعلومات حاصل ہوسکتی تھیں‘ملک میں کوئی شوروغل اور ہنگامہ نہیں ہوا۔حکومت نے کوئی معاوضہ دیا اور نہ ہی اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو سرکاری نوکری کا اعلان کیا۔ایک بہت معروف چینل پر اس سلسلہ میں ہونے والی بحث کے دوران جب میں نے ایک پاکستانی جنرل کو اینکرپرچیختے ہوئے اوریہ کہتے ہوئے سنا کہ’تم اپنی اقلیتوں پر مظالم ڈھاتے ہو‘تو مجھے اس پر غصہ آیا۔میرا جی چاہا کہ اس سے کہوں کہ ’ہماری فکر چھوڑکر اپنی فکر کیجئے‘۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے بدعنوان حکمرانوں اور متعصب اہل کاروں نے اپنے عمل سے ملزم‘مجرم اور مظلوم کے فرق کو مٹادیا ہے۔یروادا جیل میں ہونے والے قتل کے خلاف کیا اس لئے اتنا شور نہیں مچا کہ وہ ایک مسلم ملزم کا قتل تھا؟کیا وزیر اعظم اس سیدھے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب دے سکتے ہیں؟
 
سربجیت کے قضیہ نے ایک اور خدشہ کو جنم دے دیا ہے۔جموں کی جیل میں ایک پاکستانی قیدی کے ساتھ زدوکوب کا جو واقعہ رونما ہوا ہے وہ اس خدشہ کا پہلا ثبوت ہے۔دونوں ملکوں کے سیاستداں اور سفارت کاراس معاملہ کی سنگینی کو سمجھ رہے ہیں لیکن وہ اپنے سیاسی مفادات کی قیمت پر اس مسئلہ کو سلجھانے کا جوکھم نہیں اٹھاسکتے۔ایک دوسرے کے قیدیوں پر اگر حملوں اور جوابی حملوں کا یہ سلسلہ چل پڑا تو صورت حال کتنی خراب ہوجائے گی اس کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگائیے۔پاکستان کی جیلوں میں اس وقت ۷۹۳ہندوستانی مقید ہیں۔ان میں سے ۵۸۲ماہی گیر ہیں۔پاکستان نے ان میں سے صرف ۳۳قیدیوں تک ہندوستانی سفارتکاروں کو رسائی دی ہے۔ادھر ہندوستانی جیلوں میں ۷۶۱پاکستانی قید ہیں۔جن میں سے ۶۹۸سویلین ‘۴۵ماہی گیراور۱۸دفاعی سروسز کے ہیں۔دونوں طرف ایسے سینکڑوں قیدی ہیں جن کے معاملات ہمدردانہ سلوک کے متقاضی ہیں۔لیکن دونوں ممالک ان کی کوئی خیر خبر نہیں لے رہے ہیں۔ پاکستان میں شدت پسندی کو جو فروغ مل رہا ہے وہ ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے۔لیکن خود ہمارے یہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی کم تشویشناک نہیں ہے۔حکومت اس شدت پسندی کے رجحان کی طرف سے جو مجرمانہ بیزاری اختیار کئے ہوئے ہے اس سے عوام میں مایوسی پیدا ہورہی ہے۔اس مایوسی کے منطقی انجام کے بارے میں تصور کرکے ہی جسم وجاں میں برق سی دوڑ جاتی ہے۔اگر دونوں ممالک نے سیاسی مجبوریوں اور سفارتی مصلحتوں کو چھوڑکردونوں طرف کے ڈیڑھ ہزار سے زائد قیدیوں کاانسانی بنیادوں پرجلد کوئی پرامن تصفیہ نہ کیا توموجودہ پر خطر صورتحال کوایک مستقل عذاب میں تبدیل ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہ جائے گا۔آئیے اب اس تیسرے عنصر پر بات کرتے ہیں جس کا شروع میں ذکر ہوا تھا۔سربجیت نے دعوی کیا تھا کہ وہ ایک کسان ہے اور رات کے وقت شراب کے نشہ میں سرحد عبور کرگیا تھا۔غور کیجئے کہ سربجیت کے نشہ نے کتنے لوگوں کی زندگی کو تہہ وبالا کرڈالا۔اور آج جب سربجیت اس دنیا میں نہیں ہے تو اس کے بچوں سمیت دونوں پڑوسی ملک کس مشکل میں گرفتار ہوگئے ہیں۔اگر سربجیت نشہ میں نہ ہوتا تو کیا وہ ایسا احمقانہ کام کرتا؟تو سوال یہ ہے کہ انسانیت کی اس دشمن شے سے معاشرہ کو بچانے کیلئے حکومت کوئی موثر قدم کیوں نہیں اٹھاتی؟کم سے کم پاکستان سے متصل سرحدی علاقوں میں تواس لعنت کے خاتمہ کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔نہیں تو اسی طرح سربجیت شراب کے نشہ میں سرحد عبور کرکے پاکستان کے چنگل میں پھنستے 
رہیں گے۔کیا سیاستداں اور حکمراں سارا شوروغل چھوڑکراس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دیں گے؟
ہندوستان کی عدالت عظمی نے ۸۰سالہ پاکستانی قیدی ڈاکٹر خلیل چشتی کو ضمانت دے کرجو شاندار مثال رقم کی تھی دہلی کی ایک عدالت میں پیش آنے والے ایک واقعہ نے اس مثال کو دھندلا کردیاہے۔کسی ہندوستانی نے ایک پاکستانی یتیم ومسکین خاتون سے تیس سال پہلے شادی کی تھی۔اب عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے کہ اس خاتون کو ہندوستان بدر کردیا جائے۔اس خاتون کے جوان اور شادی شدہ بچے ہیں ‘خود پاکستان میں اس بدقسمت خاتون کا اب کوئی رشتہ دار زندہ نہیں ہے۔اس نے رو روکررحم کی اپیل کی لیکن انسان کے بنائے ہوئے قوانین کسی مظلوم کی فریاد سے کہاں بدلتے ہیں؟ 
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 668