donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Maulana Khalid Saifullah Rahmani
Title :
   Face Book Ka Sahi Aur Ghalat Istemal---Aik Jayeza

 

فیس بک کا صحیح اورغلط استعمال-ایک جائزہ
 
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ فاصلے سمٹ جائیں گے،  فاصلوں کے سمٹنے کی غالباً دو صورتیں ہوں گی، ایک ذرائع مواصلات کی ترقی کہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگے گا، چنانچہ آج کی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر 24 گھنٹے کے اندر مکمل ہوجاتا ہے۔گزشتہ زمانہ میں شاید اس کیلئے ایک سال کا عرصہ بھی ناکافی ہوتا۔ دوسری صورت ذرائع ابلاغ کی ترقی کی یہ ہے کہ پہلے ایک پیغام دوسرے تک پہنچانے میں ایک مدت درکار ہوتی تھی، تیز ترین ذرائع کے طورپر تیز رفتار گھوڑوں اور کبوتروں کا استعمال کیاجاتا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ گھوڑ سوار کے ذریعہ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خبر پہنچانے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ جن کبوتروں کو نامہ بری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ان کی اُڑان کا دائرہ بھی محدود ہوتا تھا اور ان کے ذریعہ بہت مختصر پیغام رسانی ہوتی تھی لیکن ٹیلی گرام، ریڈیو، ٹی وی، ٹیلیفون اور موبائل کی ایجادات نے ابلاغ کے میدان میں بے حد سہولتیں پیداکردیں اور انٹرنیٹ نے اس سہولت کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔ اب چین کے دور دراز دیہات میں بیٹھ کر ایک شخص امریکہ اور کناڈا کے کسی پرشور اور ترقی یافتہ شہر تک پلک جھپکتے اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو عقل دی ہے، تحقیق و تشخیص کا جذبہ عطا فرمایا ہے اور علمی ترقی کے راستے بچھائے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاکر انسان یہ اور اس طرح کی ایجادات کو وجود میں لایا ہے۔ فرشتے جو دنیا میں انسانوں کے بسائے جانے کے حق میں نہیں تھے شاید انسان کی اس ترقی اور اختراعی صلاحیت پر رشک کرتے ہوں گے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انٹرنیٹ ایک ایسی ایجاد ہے کہ جس نے بہت سی دشوار گزار گھاٹیاں طے کرنے کو انسان کیلئے ممکن، بلکہ آسان بنا دیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی انٹرنیٹ کی وہ ویب سائٹ ہے جو ’فیس بک‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی، جس میں صرف تصویریں شائع ہوتی تھیں اور ایک نوجوان امریکی طالبعلم مارک زکریا برگ (پیدائش 1984ئ) اور ان کے ساتھی نے مل کر اسے قائم کیا تھا۔ یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور انہوں نے اپنے ہوسٹل میں ایک دوسرے سے تعارف کیلئے یہ ویب سائٹ شروع کی تھی تاکہ وہ بہتر طریقہ پر ایک دوسرے کو جان سکیں، لیکن اسے ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ24 گھنٹے کے اندر ہی یونیورسٹی کے بارہ سو طلبہ اس میں شامل ہوگئے، پھر دوسرے کالجوں اوریونیورسٹیوں میں اس ویب سائٹ نے پذیرائی حاصل کرنا شروع کردیا، پھر2005ء میں اس نے برطانیہ تک کا سفر طے کرتے ہوئے وہاں اپنا تعارف کرایا اور رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس نے اپنا قدم جمالیا۔ اس ویب سائٹ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیاجا سکتا ہے کہ اس وقت 845ملین سرگرم صارفین اس سے مربوط ہیں جس میں 483 صارفین اسے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس کے استعمال کرنے والے سب سے زیادہ یعنی 152.5 ملین ہیں، دوسرے نمبر پر ہندستان ہے، جہاں اس کے 43.5 ملین صارفین اس ویب سائٹ پر موجود تھے۔ اس وقت عالم عرب میں آزادی اور جمہوریت کی جو تحریکیں اٹھیں اور آمرانہ اقتدار کے خلاف جو آندھی چلی، اس میں فیس بک کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ مصر میں ایک نوجوان خالد سعید کو پولس نے بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا، اسی کو بنیاد بناکر وہاں کے ایک کمپیوٹر انجینئر نے کلنا خالد سعید (ہم میں سے ہر ایک خالد سعید ہے) کے عنوان سے فیس بک کا بیچ بنایا، جس کو غیر معمولی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس نے مصر کے انقلاب میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
 
اس وقت فیس بک جہاں سماجی تعلقات کو فروغ دینے اور باہمی تعارف کو آسان بنانے کی خدمت انجام دے رہا ہے، وہیں اسے اشتہارات کیلئے بھی استعمال کیاجاتا ہے، اس لئے اسے ایک زبردست تجارت کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور اس کے مالک زکریا برگ اس وقت دنیا کے ان چند نوجوانوں میں ہیں جن کی دولت بلینوں میں ہے، چنانچہ ایک اندازہ کے مطابق ان کی دولت 17.5 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اگر فیس بک کا استعمال صرف بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کیلئے ہوتا تو یہ معروف اشاعت اور منکر کو روکنے کا نہایت زبردست وسیلہ ثابت ہوتا، خاص کر نوجوانوں کے ذہن کو تعمیری رخ دینے اور سماج کو اخلاقی مفاسد سے بچانے میں اس کا غیر معمولی کردار ہوتا ہے، لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اگرچہ اچھے مقاصد کیلئے بھی اس ویب سائٹ کا اچھا خاصا استعمال ہو رہا ہے مگر افسوس ہے کہ سماج کے بگڑے ہوئے افراد نے غلط مقاصد اور اخلاقی مقاصد کی اشاعت کیلئے اس مفید سائٹ کو گویا اغوا کرلیا ہے۔ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے صحیح استعمال کو فروغ دیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں اس کا مزاج بنائیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس کے غلط استعمال کو روکنے اور نئی نسل کو اس کی تباہ کاریوں سے بچانے کی بھرپور سعی کریں۔
 
فیس بک بنیادی طورپر تعارف اور دوستی کا ذریعہ ہے، اگر یہ دوستی اپنی ہی صنف کے لوگوں سے کی جائے، ان تک اچھا پیغام پہنچایاجائے اور ان کو بے راہ روی پر داعیانہ اسلوب میں متوجہ کیاجائے تو یہ ایک بہتر بات ہوگی اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ا س کا مقصد دعوت و تبلیغ ہو، تعلیم و تعلّم ہو یا اپنے ذاتی مسائل کو حل کرنا ہو، لیکن کسی غیر محرم لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے سے دوستی کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خواتین سے گفتگو کا ادب یہ بتایا ہے کہ ضرورت پر ہی گفتگو کی جائے اور یہ بھی حجاب کے ساتھ ہو، یہ مرد و عورت دونوں کیلئے دل کی پاکیزگی کا باعث ہے۔
 
واذا سالتموھن متاعاً فاسئلو ھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن (احزاب53)۔ حجاب صرف کپڑے اور دروازے ہی کی آڑ کانام نہیں ہے بلکہ ایسا رابطہ جو تکلف کو ختم کردے، جس میں ایک مرد اور ایک عورت سے ایسی باتیں کرسکے جو حیادار انسان تنہائی ہی میں کرسکتا ہے جس میں گفتگو کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی صورتیں ایک دوسرے کے سامنے ہوں یہ بھی بے حجابی میں داخل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کی ایسی تربیت فرمائی تھی کہ حج کے درمیان جبکہ خواتین کیلئے چہرہ کھولنے کا حکم ہے، عورتیں اپنے گھونگھٹ چہرے کے سامنے ڈال لیاکرتی تھیں۔’’یہ بات قابل توجہ ہے کہ مرد ہوں یا عورت، جب وہ احرام باندھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے جذبہ سے معمور ہوتے ہیں اور پاکیزہ داعیہ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں پھر بھی انہیں اتنی احتیاط کی تعلیم دی گئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ فیس بک کے ذریعہ دوستی کا دائرہ یا تو اپنی صنف کے لوگوں تک محدود ہو اور اگر دوسری صنف کے لوگوں سے رابطہ استوار کیا جائے تو وہ غیر محرم نہ ہوں یہ سوچنا درست نہیں کہ صرف گفتگو اور تحریری ہی کا تو رابطہ ہوتا ہے کیونکہ فیس بک پر چاٹنگ کے نتیجہ میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ انسان غیر شرعی عمل تک پہنچ جاتا ہے، آپس میں شادی بیاہ کی باتیں طے ہوتی ہیں اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی اور فسق و فجور میں مبتلا فریق کو انسان زندگی کا رفیق بنالیتا ہے، اس کی بہت سی مثالیں اس وقت معاشرہ میں موجود ہیں۔
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
……………………………………
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1130