donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Amir Mazhari
Title :
   Babri Masjid Masla : Millat Se Aik Sawal

بابری مسجدکا مسئلہ!ملت سے ایک سوال


مفتی محمد عامر مظہری قاسمی


(استاد دارالعلوم سبیل الفلاح جالہ، دربھنگہ)


زندگی کے طویل سفر میں کچھ واقعات ہوتے ہیں کہ وہ کبھی نہ کبھی ہمیں یاد آتے رہتے ہیں۔ بعض واقعات بہت خوشگوار ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی تکلیف دہ۔ کچھ یادیں بعض مشکل اور تکلیف دہ واقعات سے وابستہ ہوتی ہیں جو آپ نہ کبھی بھلا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ جلد آپ کو اس سے نجات دیتی ہیں۔تکلیف دہ واقعہ جو آج بھی دل میں خنجر کی طرح چبھتا رہتا ہے، وہ ہے 6 دسمبر 1992ء کی وہ تاریک لمحہ جب بابری مسجد کو شہید کردیا گیا، ہر سال جونہی دسمبر کا مہینہ قریب آتا جاتا ہے میرا دل غم سے بیٹھا جاتا ہے۔ ایک ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب، دن ہے اور جو لوگ اس کو بھول گئے ہیں یا بھولنا چاہتے ہیں وہ بے حس ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ ملک اور یہان کی گنگا جمنی تھذیب بھی تباہ ہو جائے تو ان کو کچھ دردتکلیف نہ ہو گی۔بابری مسجد کی شہادت کا زخم ایسا ہے کہ جو مندل نہین ہوتا بابری مسجد کی شہادت کو 23 سال گزرگئے۔فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے، لیکن کوئی ملزم گرفتار نہ ہو سکا۔چھ دسمبر 1992 کوانتہاپسندہندئووں کے ایک گروہ نے بابری مسجد پر دھاوا بول دیا۔ یہ مسجد مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے 1527 میں اترپردیش کے ضلع ایودھیہ میں تعمیر کرائی تھی۔ انتہا پسند ہندووں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر قائم کی گئی تھی۔1859میں انگریز حکمرانوں نے عبادت کی جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اندر والا حصہ مسلمانوں کے لئے جبکہ باہر کا حصہ ہندووں کیلئے مختص کر دیا گیا تھا۔ 1949ء میں مسجد کے اندر سے مورتی ملنے کے بعد ہونے والے فسادات کی وجہ سے بھارتی حکومت نے مسجد کے دروازے بند کرا دیئے۔ 1984ء میں ہندو کمیونٹی نے مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کیلئے وشوا ہندو پریشد پارٹی کی قیادت میں ایک تحریک چلائی۔ بعد میں اس تحریک کی قیادت بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشنا ایڈوانی نے سنبھال لی۔ 1986 میں ضلعی جج نے مسجد کے دروازے کھلوا کر ہندووں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دے دیا۔ 1991 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی اور 1992 کو سیکڑوں ہندووں نے مسجد کو شہید کر دیا۔ مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ گودھرا، گجرات ٹرین حملوں سمیت ان فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا 23 سال گزرنے کے باوجود بابری مسجد کی شہادت کے کسی بھی ملزم کوسزا نہیں ہو سکی ہے۔ اقدام کو کیسے قانونی درجہ حاصل ہوا اسکی سب سے اچھی روداد بھارتیہ جنتا پارٹی کے شائع کردہ White Paper on Ayodhya and Rama Mandir,1944 میں حسب ذیل طریقے سے ملتی ہے۔  1885 سے 1949 تک ساٹھ سال کے عرصے میں قانون ہندو ں کی کوئی مدد نہیں کر سکا لیکن جب انہوں نے22،23 دسمبر کو رام مورتیوں کے ظہور کے بعد عمارت پر قبضہ کر لیا قانون نے اسے جو از فراہم کر دیا۔ 1986کے عمل پرWhite Paper میں سوال اٹھایا گیا  دو دن میں کیسے فیض آباد ڈسٹرکٹ کورٹ نے تالا کھولنے کا حکم صادرکردیا جس کی کوشش ہندو تقریباً 37سال سے کر رہے تھے؟ کورٹ کے حکم کے چند گھنٹوں کے اندر کیسے دور درشن کے کیمرے سے تصاویر کی مشتہری ہو گئی؟ ان سب سوالوں کا صرف ایک جواب ہے۔ حکومت اگر مخالفت نہ ہو تو اس طرح کے عمل پر کورٹ بھی مثبت رویہ اختیار کرتی ہے۔  عدالت عالیہ نے اب تک ان تحریروں کی کوئی قانونی گرفت نہ کرکے اسکی صحت کا اعتراف کر لیا ہے۔لال کرشن ایڈوانی نے لبرہن کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں یہ اعتراف کیا ہے کہ رام مندر تحریک میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے تاخیر سے شمولیت اس وقت کی جب اس میں اسے ہندو قوم پرستی کے فروغ کے قوی امکانات نظر آئے۔میناکشی پورم تبدیلی مذہب کے واقعہ کے بعد کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اسی ہندو قوم پرستانہ مسابقت کے مختلف مراحل 1992 تک جاری رہے۔ 1986 میں گیٹ کا تالا کھلنے کے بعد شلا نیاس کے لئے کانگریسی حکومت نے وشو ہندو پریشد کی پوری حوصلہ اافزائی کی اور اس کے لئے بوٹا سنگھ نے 27ستمبر 1989 کو پریشد سے واضح معاہدہ کیا ۔ جسکے بعد پھرکشت و خون ہوا۔

1992میں جو ہوا اسکے لئے یہ ثابت کرنے کے لئے خاصہ مواد موجود ہے کہ نرسمہاراو کی سربراہی میں حکومت ہندووں کو ناخوش نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ مسلمانوں سے تاریخی بدلہ کے جذبات کا نگریس میں شریک سنگھی فکر کے حاملین کے اندر اسی طرح پائے جاتے تھے جیسے وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں ۔ اس روداد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاپی صرف کلیان سنگھ نہیں بلکہ پاپیوں کی فہرست طویل ہے۔ بہ حیثیت جماعت کانگریس کی مجموعی ذمہ داری اس ساز شی جارحانہ عمل میں 1949سے 1992 کے مختلف مراحل میں بہت زیادہ ہے۔ کرشناجھا اور دھیریندر جھا کی تحقیقی کتاب دی ڈارک نائٹ 145 146 میں اس سازش کی پوری کہانی اور کانگریس کی شمولیت بھی کہی گئی ہے۔ اور یہ بھی کہ کس طرح جواہر لال نہرو کے باربار خبردار کرنے اور تشویش ظاہر کرنے کے بعد بھی کانگریس پارٹی کے رہنماوں نے، جن میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ گووندوللبھ پنت شامل تھے، اس معاملے کو 146ہندو نظریے145 سے ہی دیکھا۔ اس معاملے میں ہندو فریق کے ساتھ مل کر انتظامیہ نے شریک سازشی کا کردار ادا کیا۔ اس کردار کو نہیں بھولا جاسکتا اور مستقبل کے ہندوستان میں پولیس اور انتظامیہ کا یہ مسلم مخالف رویہ مزید گہرا ہی ہوا۔اب جب کہ موجودہ حکومت کے سربراہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا اشوک سنگھل کے مرنے کے بعد دہرایا ہے، اسے عام مسلمان بابری مسجد کی آراضی کے حصول سے اور اس کی تعمیر نو سے بہت زیادہ پر امید نہں ہیں، کسی قوم مین مایوسی کا در آنا بڑا خطرناک عمل ہے، یہ عمل قوت فکروعمل کو فنا کردیتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو مایوسی سے بچانا، اور آنے والی نسلوں کو بتانا بھی وقت کی ضرورت ہے، اور ملت سے ایک سوال عرض بھی کیا جائے کہ مجرمین کے لیے حسرت وناکامی سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ اللہ کی نصرت کیوں نہیں ہورہا ہے،؟ سوال تلخ ہے لیکن جواب بھی صاف ہے کہ ہم نے بابری مسجد کے مجرموں کی فہرست بنالی لیکن افسوس کہ دشمنون کے اس فہرست میں ہم نے گناہ لکھنا بھول گئے، بابری مسجد کی یاد سے ہم غافل نہ ہو، بلکہ ہم اپنے انے والی نسلون کو بھی غافل نہ ہو نے دیں، جب بدر کے میدان میں حق و باطل کا معرکہ بپا ہوا تودو نو جوانوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے پوچھا چچا جان ابوجہل کون ہے ذراہمیں بتا دیجئے ۔انہوں نے پوچھا تم اس کو پہچان کر کیا کروگے؟ جواب ملا ہم نے سنا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیتا تھا۔ خدا کی قسم اگر وہ نظر آجائے میں اس سے جدا نہیں ہووں گا یہاں تک کہ اس کوموت آجائے یا ہماری جان چلی جائے۔ان دونوں نوجوانوں کا نام اتفاق سے معاذ ؓ تھا ۔یہ مکہ کے مظالم کا شکار نہیں ہوئے تھے انہوں نے ظلم سہا نہ تھا بلکہ سنا تھا وہ ابوجہل کو نہیں پہچانتے تک نہ تھے لیکن اس کی حرکات کو جانتے تھے۔اگر ان کے والدین اپنے ماضی کو بھلادیا ہوتااور ابوجہل کے مظالم سے اپنی اولاد کو واقف نہیں کرواتے تو اس فرعونِ وقت کو کیفرِ کردار تک پہونچانے کی سعادت ان نوجوانوں کو حاصل نہیں ہوتی اور وہ فرقانِ عظیم ظاہر نہیں ہوتی جس نے انسانی تاریخ کا دھارا موڈ دیا ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنا احتساب ضرور کریں، اور مسجدوں کو آباد کریں، اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔


 

***************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 425