donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Hussain Sahil
Title :
   Hame Seyasi Tarbiyati School Ki Zaroorat Hai


 

ہمیں سیاسی تربیتی اسکول کی ضرورت ہے


محمد حسین ساحلؔؔ
ممبئی


’’جمہوریت میں ،بے روزگار،کم تعلیم یافتہ ، مکار اور فریبی لوگ سیاست میں اعلیٰ مقام پر قابض ہوجاتے ہیں۔تعلیم یافتہ، دانشور، مدبر لوگ ،آخری صف میں نظر آتے ہیںاور جمہوت کی اہمیت کو سمجھنے والے اور عوام کے مفاد کو مد نظر رکھنے والوں کو مکمل طور سے نظر انداز کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ترقیات کے منصوبے سرد خانوں میںپڑجاتے ہیں۔‘‘ یہ بات میں نہیں بلکہ عالمی شہرت یافتہ فلاسفر پلیٹو Platoنے جمہوریت کی Defination لکھتے وقت کہی ہے۔ اس کے یہ خیالات ہمارے ملک میں صد فی صد سچ نظر آرہے ہیں۔

مراٹھا طبقے نے مراٹھا غرور کو غبار کی طرح پھلانا،سمتا کمیٹی نے دیگر پسماندہ طبقات کو گلے سے لگانا، ری پبلکن نے دلتوں کے حقوق کے لئے شور مچانا، مسلمان بے روزگاری،حق تلفی اور نا انصافی کا رونا رو رہی ہے۔ غرض ہر ذات اور اورمذہب کے لوگ اپنی اپنی دوکان کھولیں بیٹھیں ہیں، مگر اس دوکانداری سے متعلقہ ذات، جماعت یا مذہب کے لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے، یا پھر ذات اور مذہب کے نام پر بھیڑ جمع کرکے لیڈر حضرات صرف اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں، اس پر سماج کے لوگوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔مذہب اور صوبوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کی جو ٹولیا ں موجود ہیں وہ الگ،اس طرح کے خیالات رکھنے والوں کا خالصتا ن کا بھوت ایک مرتبہ ملک کے کاندھے پر سوار ہو گیا تھا۔ کھیرلانجی معاملہ بھی اسی طرح کے خیالات اور سوچ کا نتیجہ تھا۔سکھ سماج کے دو گروپوں کا تصادم ہو یا پھر صحافیوں پر ہونے والاحملہ ہو۔ ایسے معاملات  فضول،کھوکھلے،بالادستی کا معذور مظاہرہ کہلاتا ہے۔اس طرح کے معاملات کے تعلق سے عارضی بحث ہوتی ہے،احتجاجی میٹنگیںاور اجلاس ہوتے ہیں،مگر انھیں جڑ سے ختم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی جاتی ہے اور اس طرح کے واقعات آئیندہ  وقوع پزیر نہ ہو اس تعلق سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے، یہ ہندوستان کی جمہوریت کا افسوسناک پہلوں ہے۔

سیاسی بل بوتے پر منفی ذہنیت کو تقویت ملتی ہے،تہذیب یافتہ سماج کی تشکیل یہ جمہوری  سیاسی  پارٹیوں کا مقصدہونا چاہئے، مگر ہماری سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑنے والے آلات یا مشنر ی بن چکے ہیں۔اہم شخصیات کے یوم پیدائش،تہواروں کے نیک خواہشات و مبارک باداور لیڈران کے یوم پیدائش کے وسیع و عارض ہورڈنگس اور بینرس لگانا، پارٹی کے ٹکٹ اور عہدے  کے لئے جدوجہد کرنا، اس کے لئے لیڈروں کے آگے پیچھے گھومنا، انھیں خوش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کا مطلب ہی اب سیاست ہوگیا ہے۔جوہمارے تمام موجودہ سیاسی ورکرس کا جنر ل پروگرام بن گیا ہے ۔ترقیات کے مسائل،عوام کے مسائل،کو نہ حل کرنے کی گویا سیاسی پارٹیوں نے قسم کھالی ہو،جس کی وجہ سے تحریک اور کارکردگی سے پیدا ہونے والے لیڈران کا زمانہ بہت پیچھے چلا گیا اور لیڈر کے گھر جنم لینے والالیڈر،دھشت گردی،غنڈہ گردی کے منظر اور پس منظر میں رہنے والا لیڈر،پیسے دے کر عہدہ  اور ٹکٹ خریدنے والالیڈر، لیڈران کی چمچہ گیری کرنے والا لیڈربن جاتا ہے، اسی جوش اور جذبات میں سیاسی ورکرس کے ہاتھوں وہ بات ہو جاتی ہے، جو نہیں ہونی چاہئے۔کام کرنے والے ورکرس کی حق تلفی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔بڑھتی آبادی ملک  کے سامنے ایک سنگین مسئلہ ہے، اس کا علم کا  ہر لیڈر کو ہے ، مگر وٹنگ پر نظر رکھ کر کوئی بھی سیاسی پارٹی  یا لیڈر اس تعلق سے اف کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ذات، مذہب ، صوبہ اور زبان کا سہارا لیکر اشتعال انگیز تقاریر کی جاتی ہیں اور ماحول کو خراب کیا جاتا ہے، جس کی بھاری قیمت ملک کو چکانی پڑتی ہے۔

جمہوریت کی مخالفت کرنے والے پلیٹوPlatoنے مہذبب بااخلاق اور نیک کردار سیاستدانوں کا نمونہ پیش کیاہے اس طرح کے سیاستداں بنانے اور سنوارنے کے لئے اس نے ۵ویں صدی میں اٹلی کے شہر اتھینس میں ایک اکیڈمی قائم کی تھی۔ گلوبولائزشن کی وجہ سے دنیا قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے، اور آسانی سے دستیاب سرمایے کی وجہ سے ہرسُو تمام شعبوں میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رُونما ہورہی ہیں۔تعلیم و تربیت سائنس اور دریافت کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلیں ہیںملک کے ذی فہم نوجوان عالمی سطح پر مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہورہے ہیں۔ان حالات میں سیاست کی Definationبھی تبدیل ہورہی ہیں، تبدیل ہونے والی ہے یہ بات سیاسی پارٹیوںاور سیاسی تنظیموں نے ذہن نشین کرنا اشد ضروری ہے۔سیاست کے تعلق سے جدید نقطہء نظر اپنا کر مزید بہتر طریقے سے نئی نسل کو بنانے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔آنے والے کل کے Challengesکو مات دے کر ملک کو آگے کی سمت لیجانے والے سیاستدانوں کوتشکیل دینے کی ضرورت ہے، جس کے لئے سیاستداں بنانے والے انتظامیہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ سیاستدانوں کے اے سی والے دفاترکا  مہذب اور با اخلاق سیاستداں تشکیل دینے کے لئے اگر استعمال کیا جائے توپارٹیوں میں رشوت خوری تو کم ہوگی ہی،مگر ملک کے مفاد میں ایک مثبت قدم بھی ہوگا۔

مہذب اور با اخلاق آدمی کی تشکیل تمام مسائل کا موثر علاج ہوسکتا ہے، اس کے لئے سیاست ایک با اثر ذریعہ ہے، اس کی ابتداء سیاسی پارٹیوں کے ورکرس سے ہی شروع کرنی
(2)

چاہئے۔سیاسی ورکرس کی شخصیت کی ترقی کو ترجیح دی جائے۔جو سیاسی ورکرس اخلاقی طور پر جتنے قوی و مظبوط ہونگے وہ ایمانداری اور حق کی راہ پر گامزن ہونگے۔’نشہ خوری سے دور رہے،ذاتی زندگی میں بھی نیک راہ پر رہے،یہ بات سیاسی ورکرس کے ذہن اوردلوں پر نقش کرنے کی ضرورت ہے۔سیاسی ورکرس کو مطالعہ کرنا چاہئے،ادب اور آرٹ کو سمجھنا چاہئے، جس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے۔ان ورکرس سے سیاست کی ابتدائی تعلیم لینا ضروری ہے۔جس کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے سوچ اور نظریات کا بہائو،الیکشن،جمہوریت میں اخباروں کی اہمیت،مرکزی۔ریاستی حکومت،آئین،شہریوں کے بنیادی حقوق اور فرائض کاکم ازکم سرسری تعرف تو ہونا چاہئے۔

اس تربیت کے ذریعے سماجی مسائل ،کو حل کرنے کے لئے کس طرح تحریک چلائی جائے، اس تعلق سے رہبری کی جائے۔ان تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے تجربہ کار سیاستدانوں کے اقوال و تجربات ٹریننگ کیمپ کے ذریعے ورکرس کے گوش گزار کرنا چاہئے۔سرکاری سہولیات اور منصوبوں کا فائدہ عام شہری تک کیسے پہنچایا جائے اس کی تربیت دی جائے۔مختلف شعبوں میں سماجی خدمات کس طرح کی جائے ، اس کے لئے تربیتی کیمپ منعقد کئے جائے۔اتنا ہی نہیں بلکہ مخالفت کرنے والوں کے رائے کو کس طرح مسترد کیا جائے،احتجاج کس طرح درج کرنا، اس تعلق سے بھی اگر ورکرس کو بیدار کیا جائے تو بیشمار نا خوشگوار واقعات کو ٹالا جاسکتا ہے۔

قومی یکجہتی کے لئے کام کرنے کے لئے ورکرس کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں مختلف صوبائی۔لسانی  ’’دوستانہ کمیٹی ‘ ‘بنائی جائے۔اور اس کمیٹی کے ذریعے مختلف صوبوں اور ریاستوں میں پکنک کا اہتمام کیا جائے، میل جول اور روابط و ضوابط قائم کئے جائیں مختلف صوبوں کے کلچرل پروگرامس کا تمام زبانوں کے لوگوں نے مل کر انعقاد کرنا چاہئے، اس کی تعلیم سیاسی ورکرس کو دی جانی چاہئے۔مذہب کے نام پر اکثر و بیشتر فسادات ہوتے رہتے ہیں، مگر حقیقت میں ہر مذہب میں انسان اور انسانیت کی عزت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔اس انسان نواز نظریات کو یکجا کرکے ’بین المذاہب کانفرنس‘ کا انعقاد کیا جائے تو اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا بھلا ہوگا بلکہ عا لمی سطح پر بھی اس کے مثبت نتائج نظر آئینگے۔مذہب کے نام پر تشدد برپا کرنے والے دل و دماغ پر کاری ضر ب لگ جائے گی، اور مہذب اور با اخلاق سماج کی تشکیل کرنے میں کافی مدد ہوگی۔جس کے لئے بااخلاق

ورکرس بنانا ضروری ہے اور اسی لئے سیاست کی تعمیر نو ہونا ضروری ہے۔

مذہب کے تعلق سے با خبر، قومی یکجہتی کے تعلق سے بیدار،سماجی مفادکی سوجھ بوجھ رکھنے والا،ترقی و خوشحالی کے مسائل کو سمجھنے والاشخص ہی تغیرات کا مرکز و محورہوتاہے، یہ بات ذہن میں رکھ کر ’مہذب اور با اخلاق آدمی‘تشکیل دینے کو ترجیح دینے والے فرض شناس اور محنتی ورکرس بڑے پیمانے پر سماجی خدمات انجام دیں گے ، اس کے لئے سیاسی تعلیم دینے والی اسکول کا قیام عمل میں لانا ضروری ہے،اس کی اہمیت کو سمجھ کر ہم جتنی جلدی ہوسکے ہمیں ضروری اقدامات کرنا چاہے،تب ہی جاکر اس بھارت دیش کو ہم عالمی سطح پر مظبوط و مستحکم طور پر آگے لے جاسکتے ہیں ورنہ وقت ہمار ا انتظار نہیں کرنے والااور ’’ ظالم ‘‘غلامی کی طوق ہاتھوں میںلئے کھڑا ہے۔

=========================
 
Mohd.Husain Sahil
E.mail:husainsahil@rediffmail.com
Mob:09869658668

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 554