donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Zaheerul Haque
Title :
   Kya Musalmano Ke Andar Qayadat Ubhar Nahi Sakti

 کیا مسلمانوں  کے  اندر  قیادت  ابھر  نہیں سکتی ؟


 محمد ظہیر الحق


             موجودہ  زمانے کی مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے وہ  فقدان قیادت نہیں ہے بلکہ فقدان قبولیت قیادت ہے  ۔  مسلمانوں کے اندر قیادت کو قبول کر نے کا مزاج نہیں ہے  ۔  اس مسلہ پر روشنی ڈالتے ہوے مولانا وحیدالدین خان نے اپنے میگزین  الرسالہ میں لکھتے ہیں کہ آج کا مسلمان بعض اسباب کے سبب نہایت جذباتی ہو گیا ہے  ( اور انا پرست بھی )  ۔  ایسے لوگوں کے درمیان صرف اس قیادت کو  مقبولیت حاصل ہو تی ہے جو ہائی پروفائل  میں بولے  مگر تجربہ بتا تا ہے کہ  ہائی پروفائل میں بولنے والا شخص صرف اپنی قوم کی تباہی میں اضافہ کر تا ہے  ۔  قیادت کی ضرورت اور اہمیت ایک مْسلم حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر اسے کیسے اور کس طرح ملت مسلمہ پر مسلط کیا جائے  یہ ایک اہم مسلہ ہے  ۔  یہ کام ایک گہری منصوبہ بندی کے ذریعہ ہی ممکن ہے  ۔  منصوبہ بندی کی پہلی شرط یہ ہے کہ اصلاح کا کام اقدام سے ہرگز نہ کیا جائے بلکہ عام انسانوں کی ذہنی تیاری سے کیا جائے  ۔  سب سے پہلے امت میں تعمیری شعور پیدا کیا جائے ۔ انا کو دبایا جائے  اور اقتدار کی ہوس کو دور کیا جائے  ۔  شور و غل اور جلسے جلوسوں سے یہ ابتدائی کام ہو نہیں سکتا  ۔ یہ فطرت کا قانون ہے اور فطرت کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہو تی  ۔  قوم کی ذہین سازی کر نے کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو موجودہ دور میں لکھی ہوی ماہرین علم و سیاست کی کتابیں  اور مضامین کا مطالعہ کر تے ہوں اور ان پر دن رات غور و فکر کر کے انہیں عوام تک پہنچانے کے طریقہ کار پر عمل کر تے ہوں  ۔  یہ خیالات ہم اخباروں اور جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ عوام تک پہنچا سکتے ہیں اور آہستہ آہستہ انکی ذہین سازی کر سکتے ہیں  ۔  غور سے دیکھا جائے تو کرناٹک میں یہ کام  جناب منیر احمد ٹمکوری  ،  فیاض قریشی  ،  سید شفیع اللہ  ،   غلام غوث ،  مدثر احمد  ،   اعظم شاہد اور دیگر احباب برسوں سے کر رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے اسکا اثر بھی ہو رہا ہے  ۔ چونکہ آج کافی حد تک ذہین سازی ہو چکی ہے اسلئے اب اقدام کر نے کا وقت آ چکا ہے  ۔  جناب غلام غوث کا مضمون  "  قیادت کا فقدان  ۔ کانگریس اور مسلمانوں کا مسلہ  " اس اقدام کی جانب پہلا قدم لگ رہا ہے  ۔  آپ نے  مسٹر محمد علی جناح کی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوے اس زمانے کے اکابر علماء  اور عمائدین کا انکے قدم سے قدم ملا کر چلنے کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ انکی قیادت تسلیم کر نے کے سبب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے  ۔  آپ نے آج پھر ایک ایسی ہی شخصیت کو ابھارنے کا  تذکرہ کیا ہے  اور کرناٹک میں جناب روشن بیگ صاحب کا نام لیا ہے  ۔  جب میں نے یہ نام چند حلقوں میں پیش کیا تو جہاں اکثریت نے حامی بھری وہاں چند لوگوں نے اعتراضات بھی کئے  ۔  اعتراض کر نے والوں سے میں نے اتنا ہی کہا کہ اعتراض وہی لوگ کر تے ہیں جو ہر عیب سے پاک ہو تے ہیں ۔ اسلئے اگر وہ  بے عیب ہیں اور عام مسلمانوں میں انکا نام مانوس ہے تو وہ خود آگے آئیں اور خود  قیادت کا بار اٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں  ۔  اس جواب پر سب نے چپکی سادھ لی اور دوسرے نام بھی پیش نہیں کیے  ۔  کسی نے کہا کہ وہ چونکہ کانگریس کے ممبر ہیں اسلئے پارٹی کے اندر مسلمانوں کے مسائل پر آواز اٹھانا مشکل ہے  ۔  میں نے جواب دیا کہ یہ مسلہ مسٹر جناح کے ساتھ بھی پیش آیا تھا مگر آپ نے اسکا حل اس طرح نکالا کہ وہ ایک مسلم وفد تیار کرتے اور خود خاموش رہ کر دوسروں کو حکام سے بات کر نے کا موقعہ دیتے  ۔  یہ کام ہم بھی کر سکتے ہیں  ۔  آج کرناٹک میں قوم کو ایک ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے  ۔  یہ بات نہیں کہ ہمارے درمیان متقی ، نمازی ، پرہیزگار  ،  اور اہل علم موجود نہیں ہیں مگر یہ حضرات اتنے اچھے اور ایماندار ہیں کہ وہ  آج کی گندی سیاست اور چالباز لوگوں کے درمیان امت کی قیادت کر نے کے قابل نہیں ہیں  ۔  فرشتہ صفت انسان ہماری قیادت نہیں کر سکتے  کیونکہ قیادت کے لئے معلومات ،  دوراندیشی  ،  بے باکی ،  خلوص ،  تنقید اور مخالفت برداشت کر نے کی قوت اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی عادت ضروری ہے جو مسٹر روشن بیگ  جیسے لوگوں میں ہے  ۔ یہاں  سوال کسی شخصیت کا نہیں ہے بلکہ امت کے عصری مسائل کے حل کا ہے  ۔  اسلئے انہیں انکی اپنی فیلڈ میں کام کر نیکے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہیے  ۔  جس طرح تعلیم کو ہم نے دو حصوں میں بانٹ دیا ہے بلکل اسی طرح ہمیں قیادت کو بھی دو حصوں میں بانٹ دینا چاہیے اور یہ طئے کر لینا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے میدان میں مداخلت نہ کریں گے بلکہ ایک دوسرے کی حمایت کریں گے  ۔  جناب ضیا کرناٹکی کا مضمون  " سو ہاتھ اْٹھیں گے جب ملکر دنیا کا گریبان پکڑیں گے  " ایک خواب اور آرزو ہے جسکا شرمندہ تعبیر ہو نا مشکل ہے  ۔ سو ہاتھ آپ سے آپ نہ کبھی اٹھے ہیں اور نہ اٹھیں گے  ۔  انہیں اٹھانے کے لئے کسی نہ کسی کو آگے آنا ہو گا ۔  قوم کی کمزوری ہر کوئی بیان کر تا ہے اور ہر کوئی اسے دور کر نے کا مشورہ دیتا ہے مگر کسی نہ کسی کو میدان میں اتر کر کچھ کر نا ہو گا  ۔  ہر شعبہ میں کسی نہ کسی کو آگے آبا ہو گا اور اس شعبہ کے ماہرین کو جوڑ نا ہو گا ورنہ کچھ نہیں ہو گا  ۔  اور یہ کام ہر شعبہ میں ایک فرد ہی کر سکتا ہے  ۔  اجتمائی لیڈرشپ کا تجربہ ہم کر چکے اور نا کام بھی ہو چکے  ۔  اسلئے اب کسی نہ کسی کو آگے لا کر تمام علماء اور دانشوروں کو جوڑنے کا کام کر نا ہو گا ۔  یہ کام ماشا اللہ ہمارے اہل قلم اور ادیب حضرات شروع کر چکے ہیں  ۔  ہو سکتا ہے کہ یہ تجربہ بھی ناکام ہو جائے مگر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ کچھ نہ کر کے خاموش رہنے کے بجائے کچھ کر نا ہی بہتر ہے  ۔  پچھلے ساٹھ سالوں سے ہمارے ادارے لیڈرشپ کا رونا روتے رہے مگر نہ خود انہوں نے لیڈرشپ دی اور نہ ہی کسی کو ابھر نے کا موقعہ دیا  ۔  مگر اب ضرورت اتنی شدید ہو گئی ہے کہ کسی نہ کسی کو فورا اس طرف توجہ دینا چاہیے ۔  مسلم کالم نگاروں نے اس طرف جو قلم اٹھایا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔  مسلم اداروں اور عمائدین سے میری گزارش ہے کہ وہ کرناٹک میں جناب روشن بیگ صاحب کے نام کو آگے      ہو گا  بڑھائیں اور انکا ہر طرح ساتھ دیں  ۔



   
  صدر  ، انجمن اصلاح معاشرہ  ،  میسور   ،  فون  :  9886657321     
       

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 443