donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Menhdi Hasan
Title :
   Do Bol Bliye Desh Bhakt Baniye

دو بول بولئے دیش بھکت  بنئے؟؟


(بھارت ماتا کی جئے بولنے پر ایک خصوصی تحریر)


مھدی حسن عینی قاسمی  رائے بریلی 


جس دن سے’’منواسمرتی ‘‘وہندوتو کے پیروکاروں کی سرکار ناگپوری آقائووں کے تعاون سے آئی ہے ۱ور ہزاروں وعدوں سے 100کروڑبرادران وطن کوبیوقوف بناکرزمام اقتدارحاصل کیا ہے،اسی دن سے اس ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو نظر لگ گئی ہے،یہاں کی سنسکرتی یہاں کے جمہوری اقدار پر فاشسزم کے آقائووں نے منظم طریقے سے حملہ کرتے ہوئے 90سالہ پرانیخواب کوحقیقت میں بدلن کیلئے اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کردی ہیں125کروڑ کے متحدہ ہندوستان کو’’ہندوتو‘‘کی آگ میں جھونک کر’’بھارت ورش‘‘کو’’ہندو راشٹر‘‘بنانے کی جو سازش ناگپور میں رچی گئی تھی دلی کیناخدائووں نیاسے عملی جامہ پہنانیکے لئے کمر کس لی ہے،اور اسی مشن پر چلتے ہوئے ان کیکارندوں نے الگ الگ متنازع وبھڑکائوبیانات دیکر ملک کی پاکیزہ وپرامن فضاء  کوداغدارکردیاہے۔

کبھی گیتا کو قومی کتاب بناکر سبھی اسکولوں میں داخل و لازم کرنے کی بات کہی جاتی ہے،کبھی گئو ماتاکا مسئلہ اٹھایاجاتاہے،کبھی رام مندر تو کبھی بابری مسجد کو شوشہ بنایاجاتا ہے،شاھد ا سے گلبرگی تک A.M.Uسے J.N.U تک نعمان و اخلاق سے روہت وکنہیا تک سب اسی مشن کی پیش بندی ہے،اور اب جب ملک کے ۵۸ فیصد دلت واقلیت ان فاشسٹ طاقتوں کی سازشوں کو سمجھنے لگے ہیں،اورروہت کی خود کشی و کنہیا کی گرفتاری کے ذریعہ منواسمرتی کوہوادینیوالے سنگھیوں کے خلاف صف بستہ ہوکر سراپااحتجاج  بن گئے ہیں،توسنگھ کے’’سر سنچالک‘‘کو سنگھی عزائم پر منڈلاتے ہوئے بادلوں کااحساس ہوگیا اور فورا’’بھارت ماتاکی جئے‘‘کو ایشو بناکر ایک طوفان کھڑاکردیااورروہت کی قربانی،کنہیاکی جانبازی،ہرمحاذ پر حکومت وسنگھ کی کرکری کودبانے کیلئے،جے این یوو دلتوں کے تحفظ کے لئے ہوئے ہندومسلم،اقلیت و اکثریت کے اتحادکوتوڑنیکیلئے ایک نہایت غیرضروری مسئلہ کو مذھبی ایشوبناکرپیش کردیاہے،تاکہ اس کا’’ری ایکشنRe Action ‘‘ہواورہندئووں کے مذھبی عقیدت و جذبات کوبھڑکاکرانہیں مسلمانوں کے خلاف کردیاجائے،اورجو متحدہ محاذ فرقہ واریت وفسطائیت کیخلاف بناتھا وہ خود بخود ’’بھارت ماتاکی جئے‘‘کینذر ہوجائے،قومی یکجہتی کے لئیایک بند مٹھی کی طرح ہوجانے والوں کے مابین منافرت کی دیوارکھڑی ہوجائیجس کا فائدہ پانچ صوبوں میں ہونے والے الیکشن میں سیدھیطورپربی جیپی کو ملے،کیونکہ لوک سبھاالیکشن میں جن  وعدوں سے پر امید و مرعوب ہوکر عوام نے مودی جی کو تخت و تاج سے نوازا تھا، ان پر تو آج’’مسٹر پھینکو‘‘ کی سیاحت وبڑبولیپن کا غلبہ ہوگیا ہے،اس لئے تعمیری کاموں  سے ہٹ کر تخریبی طریقہ کار کو اپنایاجارہاہے،جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مطابق ۸۹ فیصد  ہندوستان کی عوام توچونکہ اندھی ہیخود ساختہ مذھبی مخالفت پروہ چراغ پاہوجاتی ہے، پھر’’ناآودیکھا نا تائو‘‘اورمذھب کے نام پریکطرفہ ووٹنگ کرکے سیکولرزم کا جنازہ نکالتے ہوئے فاشسزم کو اقتدارکی کرسی تک پہونچا دیتی ہے،اسی لئے’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ والے مسئلہ کوایک  ماہر،گھاگھ،اور شاطربالر کی گگلی یایارکر سمجھی جائے جسیاگر منجھا ہوا’’بیٹسمین‘‘کھیلے گا تو’’ڈیفینسیو‘‘شاٹ لگاکر اپناوکٹ بچالیگاورنہ تو بولڈ ہوناطیہے۔

اب آتے ہیں’’بیرسٹر اسد الدین اویسی‘‘ کی طرف،جذباتی سیاست جن کی فطرت ہے،اور فی الفور جواب دینا ان کی عادت ہے۔جیسیہی موہن بھاگوت نے یہ گگلی پھینکی اسد صاحب نے چھکامارنے کی کوشش کی پراس کانتیجہ یہ ہواکہ زرخرید میڈیانیاسیقومی و مذھبی مسئلہ بناکر انہیں بولڈ کردیا،نتیجتاً مہارشٹرااسمبلی سیوارث پٹھان کو’’سسپینڈ‘‘کردیاگیا،اوردیکھتے ہی دیکھتے  ملکی عوام روہت کی خود کشی، کنہیاکی گرفتاری،وجے مالیہ کیفرارہونے اوراسمرتی ایرانی کی غنڈہ گردی کوبھول کر فقط ایک  نعرے کی بحث میں الجھ گئے،ہزاروں کروڑ روپئے کا چونا لگاکر حکومتی تعاون سے ہی ملک سے فرار ہونے والے وجئے مالیا کو میڈیا نے اتنی کوریج نہیں دی جتنا اس مسئلہ پر میڈیا کے اینکرس و نمائندے دلچسپی لیرہے ہیں،اور نفرت کی چنگاریاں بھڑکارہے ہیں،یہی بھاگوت جی کا منشاتھا، اب ناگپوری ا?قا خاموشی سیپوراتماشا دیکھ رہیہیں۔

رہی بات’’بھارت ماتا کی جئے‘‘کہنے کاعقلی مسئلہ جیسا کہ کچھ لوگوں کانظریہ ہے تو بھارت’’ہند‘‘ انڈیا‘‘ہندوستان سب ایک ہی ملک کے نام ہیں،ماتا،ماتے،ماتر‘‘کامطلب ہندی اورسنسکرت میں ماں ہوتا ہے۔ماتربھومی سے مراد وہ سرزمین مراد ہوتی ہے جہاں پر کسی کی پیدائش ہوئی ہو۔اس لئیاگر کوئی ہندوستان میں پیدا ہوا تو اسکی ماتر بھومی ہندوستان ہوگی۔اگر کوئی بنگلہ دیش میں پیداہواہیتو اس کی ماتربھومی بنگلہ دیش کہلائیگا،اس لحاظ سے کہا جاسکتاہے کہ بھارت ہماری ماتر بھومی ہے۔لفظ مادرکا مطلب بھی ماں ہوتا ہے۔

ہم جس ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کومادر علمی کہا جاتا ہے۔اور ہم جہاں پیدا ہوئے اس کو مادر وطن کہاجائے گا۔جب ہم ہندوستان کو مادر وطن کہہ سکتے ہیں تو اس کا ترجمہ بھارت ماتا بھی کہہ سکتے ہیں اب رہ جاتا ہیلفظ’’جے‘‘ کا معاملہ’’جئے‘‘کا مطلب کامیابی فتح ہے،اگر ہم اپنے ملک کی کامیابی کی تمنا کرتے ہوئے ’’بھارت ماتاکی جئے‘‘کہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہونی چاہئے۔یہ تو ایک عقلی فلسفہ ہے۔

لیکن موجودہ تناظرمیں جس نقطہ نظر سے’’بھارت ماتاکی جئے‘‘کہنے کامسئلہ اٹھایاجارہاہے اور اسے قوم پرستی کی تعریف بتایاجارہاہے وہ یقینی طور پرمادر وطن کی کامیابی وکامرانی کی دعاکے نظریہ سینہیں بلکہ’’وندے ماترم‘‘کی طرح ہی ہندوئوں کے ایک خاص عقیدے پر عمل کرنے کے لئے ہے،کیونکہ  ہندیووں کے مطابق ہم انسانوں کو پیدا کرنے میں ’’دھرتی ماں‘‘ہی خالق کل ہے اسی وجہ سے اس کی ’’پوجاووندناکرنا‘‘ضروری ہے،لہذا’’بھارت ماتاکی جئے‘‘کا نعرہ بھی دھرتی ماں کو خدامانتیہوئے ہی کہناپڑیگا،اور ظاھر ھیکہ یہ شرک ہے اور کوئی بھی کلمہ گو مسلمان اسے کہنیکے لئے  تیار نہیں ہوگا،اوراس کو یہ نعرہ لگانے پرازروئے دستور ھند مجبوربھی نہیں کیاجاسکتااوراگردیش بھکتی اسی بول سے ہی  ثابت ہوگی توواضح رہیکہ دستور ہند کے مطابق کسی کی حب الوطنی صرف یہ نعرہ لگانیسیہی ثابت نہیں ہوسکتی، بلکہ مکمل ا?ئین پر عمل  پیرا ہوناپڑیگا،اور حب الوطنی کے لئے اگر لفظوں کاکھیل ہی ضروری ہے تو جئے ھند بھی کہا جاسکتاہے،بلکہ کرانتی و جنگ ا?زادی کے ہزاروں نعروں کے ساتھ ساتھ نعرہ تکبیر’’ اللہ اکبر‘‘بھی بلاتفریق مذھب و ملت ہر ہندوستانی کولگاناچاہئے،کیونکہ1857 کی جنگ ا?زادی کاسب سیبڑانعرہ یہی تھا۔

الغرض اس مسئلے کیحوالیسے متفقہ شرعی فیصلہ کچھ بھی ہواور عنقریب ہمارے بڑے ادارے اس جانب توجہ بھی دیں گیاور قوم کی سہی راہنمائی بھی کرینگے پراب سے2017 تک بی جے پی و آر ایس ایس کے ٹٹو اس طرح کے غیر ضروری امور کو ہوادیکر فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کرینگیاور ان کے کچھ ضمیر فروش چمچے تسلیمہ نسرین و جاوید اختر کے روپ میں ان کے خیالات کی ترجمانی بھی کرینگے، تاکہ وہ دھرم کے نام پر آسام سے لیکر یوپی تک میں  راج کرسکیں اور رام مندر کا خواب پورا کرسکیں،اس لئے ہم مسلمانوں کو جوش سے نہیں ہوش سے، جذبات سے نہیں عقل سے کام لیتے ہوئے برادران وطن کو مزید قریب لانے کی پہل کرنی ہوگی اور قومی یکجہتی و بقائے باہمی کوفروغ دینے کے لئے ہمیشہ کی طرح تمام تر توانائیاں وترجیحات لگادینی ہوگی،قومی  یکجہتی کے پروگراموں میں صرف مذھبی رہنمائووں و سیاسی لیڈروں پر اکتفا نہ کرتے ہوئے برادران وطن میں سے عوام الناس کی بھی اچھی خاصی نمائندگی بہت ضروری ہے تاکہ  وہ اسلام  اور مسلمانوں کو  قریب سے دیکھیں اور ان کے ذھنوں میں نفرت و تعصب کاجوزہرڈالاگیاہے وہ کافور ہوسکے،عدم رواداری کے خاتمہ کا یہ واحد راستہ ہے، بلکہ دعوت اسلام کاکام حکمت سیشروع کرناپڑیگا،اور اسلام 

و سیرت کے پیغام امن و سلامتی کو عام کرناپڑیگا،تاکہ ان برہمن نواز’’منو اسمرتیوں‘‘ کی ناپاک سازش نامراد و ناکام ہوجائے،اور جس ملک میں پیارو محبت،امن و آشتی،جمہوریت وایکتا ’’گنگاجمناسرسوتی‘‘بن کربہتے ہوں وہاں کی ’’کثرت میں وحدت‘‘تکثیریت اورانسانیت کی بنیاد پر مساوات کی تہذیب و پالیسی اور جمہوریت کے پنپنے والے ملک کومظلوموں کے خون و لہو سیاپنی پیاس بجھاکر ہندوتو کو بڑھاوا دینے والوں کی نظربدنالگ جائے۔ 

خلاصہ یہ ھیکہ  اس موضوع کواٹھاکر برادران وطن کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے، اور یہ اسلام پر یک گونہ حملہ کے بھی مرادف ہے،لیکن…….

تم جتنابھی تراشوگے اتناہی سوا ہوگا
یہ اسلام کا پتاہے  کاٹوتوہرا ہوگا۔

وقتاً فوقتاً ان جیسے مسائل کو کھڑا کرکے یہ طاقتیں ملک و باشندگان وطن کے سامنے ایسا چیلینج پیش کررہی ہیں جس کا سامنا سبھی ہندوستانیوں کو مل کر کرناپڑیگا، کیونکہ وزیر اعظم اور ان کے پٹھو تو پوری طرح فیل ہوچکے ہیں،مودی جی صرف انہیں مسائل پر زبان کھولتے ہیں جو انہیں سیاسی طور پر سہل محسوس ہوتے ہیں،بطور وزیر اعظم وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں،فاسشٹ طاقتیں ملک کو تقسیم کرنے اور نفرت پھیلانے وزہر گھولنے کا کام منظم انداز سے کرتی آئی ہیں اور مودی جی یاتو خاموش ہوجاتے ہیں یا بالواسطہ طور پر راضی خوشی ان قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں،حالانکہ اس ملک کے لئے مسلمانوں نے جتنا لہو بہایا ہے شاید کہ اوروں نے اتناپسینہ بھی بہایاہو،اسی حب الوطنی کے جذبات و احساسات کو شکیل اعظمی نے الفاظ کا پیراہن دیتے ہوئے کہاھیکہ   …………………………

میں ایک ہندوستانی ہوں مجھے اپنے وطن سے
کس قدر اپنایئت ہے
عشق ہے
میں کہہ نہیں سکتا
بس اتنا جانتا ہوں
اس سے کٹ کر رہ نہیں سکتا
یہاں کی خاک میرے جسم کی مٹیّ میں شامل ہے پہاڑوں کی ندی سے جڑی ہے میری اونچائی
درختوں کے تنے ہیں پاو?ں میرے
ہاتھ ہیں شاخیں
ندی ّ
جھرنے
سمندر
میرے تن میں خون کی مانند
مرے اندر وطن میرا
مرے باہر وطن میرا
میں ذرے ّ ذریّ پہ
لکھی وفائوں کی کہانی ہوں
میں ایک ہندوستانی ہوں..

لیکن ناگپوری آقائووں نے دیش بھکتی ناپنے کا جو آلہ مودی جی اور ان کے بھکتوں کو دیا ہے وہ اسی آلہ سے ہی ناپ کر دیش بھکتی و حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں ورنہ تو 200سال سے خون بہانے والوں،وطن کے لئے تن،من،دھن کی بازی لگادینے والوں اور موقع ہونے کے باوجود اسلام کے نام پر بننے والے ملک پر ہندوستان کو ترجیح دینے والوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتاہے اور انہیں پاکستان جانے کافرمان سنایاجاتاہے

بقول شخصے……………...

اسی کی آج وفاداریاں ہویئں مشکوک
جو سرحدوں پہ بھی عبدالحمید ہوتا ہے۔

(یو این این)

 

******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 604