donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mozaffar Ahsan Rahmani
Title :
   Seyasi Ittehad Ke Sath Motahadda Qaumiyat Waqt Ki Aham Zarurat

سیاسی  اتحاد  کے ساتھ متحدہ قومیت وقت کی  اہم   ضرورت   


 مظفراحسن رحمانی  

 استاد دارالعلوم سبیل الفلاح جالے دربھنگہ بہار

 امام وخطیب جالے جامع مسجد

 

ہندوستانی جمہوریت کی چیخ سسکیاں اور کراہ اب پوری دنیا میں سنائی دی جا رہی ہے، اقتدار پر براجمان ایک مخصوص ذہنیت کی حامل افرادوجماعت

اس کی ارتھی اٹھانے کو تیار بیٹھی ہے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ جس دن ہندوستان اپنی جمہوری شناخت کھونے کے دہانے پر آجائے گا اس دن یہ اپنے وجود کے کھونے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرست حامل نظریہ کے  وجود کو بھی جلا کر بھشم کردے گا، اسے معلوم ہیکہ جب اس کے سینے پربیٹھا" گوروں" کے  ذریعہ اس کی گود میں بیٹھے سپوتوں کو مختلف اذیتیں دی جا رہی تھیں، اور گوروں کا ٹاپ اسے روند رہا تھا توسیکولر نظریات  اور متحدہ قومیت کے حامل فکروں  نے اپنے  دلیرانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انگریزوں کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا، اور یہ اس وقت تک لڑتے رہے  جب تک کہ اسے ہندوستان کی سرزمین سے نہیں نکال بھگایا، اور جو لوگ آج گالیاں دیتے نظر آرہے ہیں وہ در اصل انگریزوں کے ٹکروں پر پلنے والے تھے، جس کی جوتیاں اس کی درباری کرنے میں گھس گئیں تھیں، جی حضور ی جس کی خمیر میں داخل تھیں، آج جو اپنے آپ کو رام زادہ اور دوسروں کو حرام زادہ کہنے کی جرات کررہے ہیں، یہ دراصل اپنے لئے کہی جانے والی باتوں کو دہرانہ چاہتے ہیں، ہندوستانی سیکولر ڈھانچہ،  جس کی گود میں ہر تہذیب وتمدن، مذہب و مسلک کے لوگ عافیت کی سانس لیتے ہیں،اور یہاں ہر ایسے کام کے فروغ کی کوشس کرتے ہیں  جس سے متحدہ قو میت فروغ پاسکے، یہ آپسی اتحاد اور سیکولرزم اسے ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے اور   یہ لوگ در اصل ایک منفرد تہذیب وثقافت کے دشمن ہیں، اور اپنی عادت کے مطابق اپنی پچھلی روش اور راستے پر چل کر اس سونے کی چڑیا کہی جا نے والے ملک کے دشمن ہیں، اس ملک نے پوری دنیا میں اس لئے اپنی شناخت بنائی ہے کہ یہاں منوج ، لکشمن، عبد الرحمٰن، عبدالرحیم، سب ایک ساتھ اپنی زندگی بتاتے ہیں، جہاں نہ تو کبھی ان کے بیچ مذہب آڑے آئی اور نہ ہی کبھی تہذیب وثقافت نے ہی اس کے راستے روکے، سب سکون سے زندگی کی ان راہوں میں اپنے قیمتی لمحات کو بسر کرتا آرہا ہے، لیکن بدقسمتی سے انسانیت کا قاتل نریندر مودی جس دن سے اس عظیم ملک کی  وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ہیں،   اسی دن سے آر، ایس، ایس کے گود میں پلنے والے  کچھ بد قماش قسم کے لوگ وزیر اعظم کے شہ پر منھ میں آنے والی ہر بات کو بول دینا پن سمجھتے  ہیں ، اور جو جتنا دل دکھا نے والی بات کہے وہ اتنا ہی ہر دل عزیز ہے، ہمارا ہندوستان جو محبت کی بول کے لئے پوری دنیاں میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا تھا وہ منہ چھپاتا نظر آرہا ہے، اب کون اس کی آبرو کی حفاظت کرے گا، اس لئے کہ محافظ ہی اب اس کے آبرو کے درپہ ہے،اب ہندوستان کو متحدہ قو میت کے ساتھ جس میں سیکولر ہندو اور مسلما ن کی شراکت ضروری ہے،کے ساتھ از سرے نو  آزادی کی صور پھونکنے   کی ضرورت ہے اور اس ہندوستان کو گاندھی، آزاد  لوہیا جے پرکاش جیسے لوگوں کی تلاش شدت کے ساتھ ہے، قبل اس کے کہ ملک دوبارہ پھر تقسیم کیدہانے پر آجائے اور فسطائی طاقتیں اپنی انا کے آگ کو بجھانے کی کوشس میں  ملک کو تخرہ بخرہ کردے، اس موقعہ پر جنتا پریوار کا اتحاد جوگذشتہ دنوں ملائم سنگھ یادو کے گھر پر پوری فکر مندی کے ساتھ وجود میں آیا ہے ملک کی سالمیت کے لئے  سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے، لیکن یہ صرف سیاسی اتحاد کی کوشس ہے یہاں اس وقت قومی اتحاد کی بھی ضرورت ہے، اس کے لئے اس اتحاد میں "مجلس اتحادالمسلمین، جس کے سربراہ اس وقت اسدالدین اویسی ہیں،" آل انڈیا یونائئٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ "جس کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل ہیں،  کی بھی شمولیت ضروری ہے، اور اگر ملائم سنگھ یادو "عام آدمی پارٹی "اور "کانگریس "کو بھی اس اتحاد میں شامل کئے جانے کی پیش رفت کریں تو یہ ہندوستانی تاریخ میں سنہرے  حروف سے لکھا جائیگا، اور ملائم سنگھ کی اس کوشس سے ہندوستان کو ایک زندگی میسر ائیگی، مجھے اس وقت مولانا آزاد کی وہ بات یاد آرہی ہے  جو انہوں 1940/ میں اپنے ایک صدارتی میں خطاب میں  کہا تھا کہ:

ہماری گیارہ صدیوں کی مشترک تاریخ نے ہماری ہندوستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنے تعمیری سامانوں سے بھردیا ہے، ہماری زبانیں، ہماری شاعری، ہمارا ادب ہماری معاشرت، ہمارا ذوق، ہمارا لباس، ہمارے رسم ورواج، ہماری روزانہ زندگی کی بے شمار حقیقتیں کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے، جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگ سکی ہو ہماری بولیاںالگ الگ تھیں مگر ہم ایک زبان بولنے لگے، ہمارے رسم ورواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے، مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا کرلیا، ہمارا پرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے، مگر وہ اب ہمارے جسموں پر نہیں دیکھا جاسکتا، یہ تمام مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قومیت کی ایک دولت ہے، اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے، جب ہماری یہ ملی جلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی، ہم میں  اگر ایسے ہندو دماغ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس پہلے کی ہندو زندگی واپس لائیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں، اور وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے،اسی طرح اگر ایسے مسلمان دماغ موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ اپنی اس گذری ہوئی تہذیب اور معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس پہلے ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے، تو میں ان سے کہوں گا کہ اس خواب سے جس قدر جلد بیدار ہوجائیں بہتر ہے، کیونکہ یہ ایک غیر قدرتی تخیل ہے، اور حقیقت کی زمین میں ایسے خیالات اگ نہیں سکتے "
  ہماری ایک ہزار سال کی مشترک زندگی نے ایک متحدہ قومیت کا سانچہ ڈھال دیا ہے، ایسے سانچے بنائے نہیں جاسکتے، وہ قدرت کے مخفی ہاتھوں سے صدیوں میں خود بخود بنا کرتے ہیں، اب یہ سانچا ڈھل چکا اور قسمت کی مہر اس پر لگ چکی، ہم پسند کریں یا نہ کریں مگر اب ہم ایک ہندوستانی قوم اور ناقابل تقسیم ہندوستانی قوم بن چکے ہیں، علاحدگی کا کوئی بناوٹی تخیل ہمارے اس ایک ہونے کو دو نہیں بناسکتا، ہمیں قدرت کے فیصلے پر رضامند ہونا چاہئے، اور اپنی قسمت کی تعمیر میں  لگ جانا چاہئے "

( مولانا ابولکلام آزاد شخصیت اور کارنامے ، ص: 236)

بدقسمتی سے ان الفاظ کی معنویت مولانا کی زندگی پوری طرح نہیں سمجھی جاسکی لیکن ان لفظوں میں پوشیدہ پیغام آج کے بدلے ہوئے حالات میں بھی ہم ہندوستانیوں کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا اس وقت تھا جب یہ لفظ مولانا آزاد مرحوم کی زبان سے ادا ہوئے ہونگے،
  موجودا ہندوستان کو اس وقت تک فسطائی طاقتوں سے آزاد کراناممکن نہیں ہے جب تک کہ سیکولر ہندو اور مسلمان کا اتحادنہ ہوجائے، اس لئے پوری سنجیدگی کے ساتھ ہمیں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا تب ہم پاکیزہ ہندوستان کا تصور کرسکتے ہیں،

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 478