donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nadir Khan Sirgiroh
Title :
   Hinoz Billi Door Ast

 

ہَنو  ز      بِِلّی     دُور اَست
 
(نادر خان سَرگِروہ ۔۔۔ سعودی عرب )
 
 چوہوں کا انسانی زندگی میں اہم رول ہے۔ یہ چوہوں کا اِنکسارہے کہ وہ جنگلوں میں آزادی سے گھومنے کی بجائے ہمارے بند گھروں میں گُھسنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض جانور د ل میں گھر کر جاتے    ہیں اور چوہے گھر میں بِل کر جاتے ہیں ۔ انسان پر دواؤں اور جرّاحی کے تجربے کرنے سے پہلے چوہوں کی ہی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔ گویا دونوں ایک سی صفات کے حامل ہیں۔ انسان تو انسان ، بِلّی بھی مَرے ہوئے چوہے کو نہیں بخشتی۔ اُسے اُچھال اُچھال کر اپنے بچوں کو جھپٹنے پلٹنے ، پلٹ کر جھپٹنے کی مشق کراتی ہے ۔ لیکن وہ بڑے ہو کر سب سبق بھول جاتے ہیں اور تمام عمر خواب میں چھیچھڑے ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ کہاں گئیں وہ بِلّیاں، چوہے کو دیکھ کر جن کی ’رگِ ہلاکت‘ پھڑکتی تھی؟ دوسری طرف چوہے بھی اپنے بچوں کو بِلّی سے بچنے اور اُسے چکما دینے کے گُر سکھاتے ہیں ۔ لیکن وہ بھی بڑے ہوکر بِلّی کو چکما دینے کی بجائے اُس کی چمکتی آنکھوں میں اپنی بجھتی آنکھیں ڈال کر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں ۔ گویا پہلے ہی دن بِلّی مارنا چاہتے ہوں۔ 
 
چوہوں کی ایک عادت ہمیں پسند نہیں کہ اُن کے ہاں ڈِسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جتنا کھاتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ خانہ خرابی کرتے ہیں۔ اور جب اِن ’کھاناخرابوں ‘کی چوری پکڑی جاتی ہے تو بوکھلاہٹ میں یہ آگے پیچھے نہیں دیکھتے ۔ بندوق کی گولی کی طرح سَٹ سَٹ چھوٹتے ہیں ۔ بندوق کی گولی توکم اَزکم لحاظ رکھتے ہوئے نشانے کے آس پاس سے گزرجاتی ہے، لیکن یہ جس سے بچنا چاہتے ہیں ، اُسی کی ٹانگوں میں آجاتے ہیں۔ ڈِسپلن تو چیونٹیوں کے ہاں ہوتاہے ۔ چاہے کچھ ہو جائے ، وہ اپنی ترتیب بگڑنے نہیں دیتیں۔ اِس ڈِسپلن کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے، جس کی توقع چوہوں سے نہیں کی جاسکتی۔ اِن سے تو بِلّی کے گلے میں ایک گھنٹی تک باندھی نہ گئی۔ یہ ناہنجار اَب تک اِس خوش فہمی میں ہیں کہ ہَنوز بِلّی دُور اَست!
چوہوں اور ہماری آنکھ مچولی کا کھیل بچپن سے چلا آرہا ہے ۔ زندگی میں دو ہی چوہے ہمارے دل کو بھائے۔اُن میں سب سے پہلے ہے ،چالاک، بہادر’ جیری ‘۔ جس کی شرارتیں ہم نے ہنستے ہنستے برداشت کیں اور ’ٹام ‘کے خلاف قدم قدم پر اُس کی حمایت کی۔ اور دوسرے نمبر پر ہے وہ چُوہا ، جس کی دُم کمپیوٹر سے جُڑی ہوتی ہے،جب کہ بقیہ چوہوں نے توہماری ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ یا یو ں کہہ لیجیے کہ ہماری ناک میں دُم کر رکھی ہے ۔ ہم اِن کے بِل بھرتے رہتے ہیں اور یہ پڑوسی کے گھر سے ہمارے گھر تک ایک نیا بِل پاس کرتے ہیں ۔ کاش ! اِن کا بھی یہ شیوہ ہوتا کہ:
گھروں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
بات گھر وں تک ہی موقوف نہیں، اِن کے حوصلے اِتنے بلندہیں کہ یہ ہمارے پیٹ میں بھی دوڑتے ہیں۔ کاش! ہم چوہوں کا شکار رائج کر سکتے، تو گھر بیٹھے شکار کا شوق پورا کرتے ۔ لیکن چوہوں کو مارنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ ہم ہاتھ میں رائفل پکڑے ، ایک پَیر مَرے ہُوئے ، بلکہ مارے ہُوئے چوہے پر رکھ کر اپنی تصویر نہیں کھنچوا سکتے ۔ جب چوہا نظر ہی نہیں آئے گا توچوہا مارنے اور تصویر اُتروانے کا فائدہ ؟ چوہا مارنے میں ایک قباحت اور بھی ہے کہ اِس کارنامے پر ہم فخر بھی نہیں کرسکتے۔ لوگ کہیں گے، ’’ گھر میں چوہا مارا! کس نے دیکھا‘‘ ۔۔۔یا پھریہ کہ ’ ’دیکھو ! مارا تو کیا مارا ! ۔۔۔ چوہا؟ ۔۔۔ 
    ‘‘ہا۔۔۔ بڑا آیا ماؤس مار خاں
 ! 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 614