donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Press Note
Title :
   Ramchander Jee Ka Ayodhya Hindustan Me Nahi Hai

رام چندر جی کا ایودھیا ہندوستان میں نہیں ہے 


    حیدرآباد۔۵/ ڈسمبر۔  شری رام چندر جی جس شہر ایودھیاں میں پیدا ہوئے اور خود شری رام نے جلاوطنی سے واپسی کے بعد جس شہر کو بساکر اس کا نام ایودھیا رکھا دونوں شہر ہندوستان میں نہیں ہیں۔ یوپی کے ضلع     فیض آباد کے ایودھیا کا کوئی تعلق شری رام جی سے نہیں ہے۔ جناب محمد عبدالرحیم قریشی  اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا پرسنل لابورڈ وصدر کل ہند مجلس تعمیرملت نے کہا کہ خود محکمہ آثار قدیمہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی یہ تحقیق ہے کہ رام چندر جی ان کے جدامجد راجہ شری رگھو کے بسائے ہوئے ایودھیا میں پیدا ہوئے جو پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خاں واقع ہے۔ اس شہر کا نام بعد میں رام  ڈیری ہوگیا تھا پاکستان نے اس کانام رحمن ڈیری کردیا ہے آرکیا لوجیکل سروے کی یہ بھی تحقیق ہے کہ رام جی نے جلاوطنی سے واپسی پر خود ایک شہر بسایا اور اس کا نام بھی ایودھیا رکھا اور یہ ہڑپہ ہے جو اب پاکستان میں ہے۔ جناب محمد عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ نقشوں کے ساتھ یہ ریکارڈ انھوں نے انگریزی میں لکھی اپنی کتاب میں پیش کیا ہے جو زیرطبع ہے انھوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ تین مرتبہ ایودھیا میں قدیم آثاربرآمد کرنے کے لئے کی گئیںکھدائیوں کی رپورٹ کے اس اہم حصہ کو شائع اور عام کریں کہ چھ صدی قبل مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے چھ سوسال پہلے موجود شہر ایودھیا کا کوئی وجود نہیں تھا یہاں اس صدی سے انسانوں کی آبادی شروع ہوئی۔ جبکہ رام چندر جی کازمانہ(۱۸) لاکھ سال قبل مسیح یا کم سے کم پانچ ہزار چھ سوسال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ اور اس وقت ہندوستان کے شہر ایودھیا کا نام ونشان نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ کھدوائی بنارس ہندو یونیورسٹی کی طرف سے ہوئی۔ دوسری مرتبہ آرکیا لوجی آف رام پراجکٹ کے تحت ہوئی اور تیسری مرتبہ بابری مسجد کے مقدمہ میں الہ آباد ہائیکورٹ کے حکم پر ہوئی اور کسی بھی کھدائی میں کسی مندر کے آثار‘ کوئی مورتی یا مورتی کا کوئی حصہ نہیں ملا۔ شمال سے جنوب تک لانبی ایک موٹی دیوار  برآمد ہوئی جس کے بارے میں کئی ماہرین آثار قدیمہ نے بیان دیا کہ یہ دیوار کسی مسجد یا عیدگاہ کی ہے۔ جناب محمد عبدالرحیم قریشی نے تحقیقاتی مطالعہ سے لکھی گئی اس کتاب میں الہ آباد ہائیکورٹ کے اس نقطہ نظر کی تروید کی ہے کہ زمانہ قدیم سے ہندوئوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ میں شری رام کی جائے پیدائش ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ۱۸۵۵ء میں ہنومان گڑھی میں واقع ایک مسجد کے بارے میں مسلمانوں اور سادھو بیراگیوں کے درمیان لڑائی ہوئی مسلمانوں پر سخت حملہ ہوا اوروہ پیچھے ہٹتے ہٹتے بابری مسجد میں آکر پناہ گیر ہوگئے یہاں بھی سادھوں نے حملہ کیا او رسینکڑوں مسلمانوں کوشہید کیا۔ بابری مسجد عملاََ سادھوئوں کے کنٹرول میںآگئیں لیکن لڑائی ختم ہونے کے بعد انھوں نے بابری مسجد کو چھوڑ دیا اور ہنومان گڑھی واپس ہوگئے مسجد میں نماز جاری رہی۔ اگر ہندوئوں کا عقیدہ ہوتا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ہے تو سادھوں نے بابری مسجد پر قبضہ کرلیا ہوتا او رمسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لئے نہ چھوڑ اہوتا جناب محمد عبدالرحیم قریشی کی یہ انگریزی کتاب چند ہفتوں میں شائع ہوکر منظر عام پرآئے گی۔

    اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے عوام سے بالخصوص ہندو برادران وطن سے اپیل کی ہے کہ وہ آر۔ایس۔ایس ‘وی ایچ پی اور بی جے پی کے جھوٹے دعوئوں کو مسترد کردیں اور بابری مسجد کی جگہ پر مسلمانوں کو حق کوتسلیم کرلیں۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 496