donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Irfan Shahid
Title :
   Greater Israel Ka Tasawwur Aur Alame Islam Ki Buzdili

گریٹر اسرائیل کا تصور اور عالم اسلام کی بزدلی 
 
پروفیسر عرفان شاہد، ممبئی (Mob:8080997775)
 
آج اسرائیل کی قیام کو تقریباً پینسٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہی ۔ہزاروں کی قریب کتابیں اور لاکھوں مضامین اس موضوع پر لکھی جاچکی ہیں لیکن حالت یہ ہی کہ امت مسلمہ کی ایک قلیل تعداد ہی فلسطین اور اسرائیل کی مکمل تاریخ سی واقفیت رکھتی ہی ۔ اسرائیل اپنا رقبہ دن بدن بڑھاتا چلا جارہا ہی لیکن امت کا جوان کیا اور کیا بوڑھی سب ہی کرکٹ دیکھنی، آپسی مقدمہ بازی میں یا پھر بینک کی قسط ادا کرنی میں اسقدر مصروف ہو گیا ہی کہ اسی کچھ بھی پتہ نہیں چل پارہا ہی کہ دنیا کہاں جارہی ہی ؟دنیا میں کیا ہو رہا ہی ؟ حالانکہ یہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہی ۔ ساری معلومات انگلیوں کی ٹپ پر موجود ہیں لیکن اس کی باوجود اس خواب خرگوش کا عالم یہ ہی کہ بی خبر بس۔ جبکہ اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اگر مغرب میں کسی مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچی تو اس کی تکلیف کا احساس مشرق میں رہنی والی بھائی کی دل میں ہونا چاہئی ۔
 
پچھلی پینسٹھ سالوں میں اسرائیل لاکھوں فلسطینی معصوموں کو درندگی کا شکار بنا چکا ہی لیکن افسوس کی ساتھ کہنا پڑتا ہی کہ اس دور میں شاید ہی کچھ ایسی اخبارات و رسائل ہونگی جو اس سنگین صورت حال پر کھل کر اظہار رائی کرتی ہونگی ۔آج اللہ نی جنہیں دولت سی نواز رکھا ہی اور جنہیں اللہ نی انرجی جیسی دولت دی رکھی ہی وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھی ہوئی بیٹھی ہوئی ہیں ۔ وہ یہ تہیہ کرلیں کہ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کو کسی ایسی ملک کو نہیں دیں جو فلسطین کی معصوم بچوں کو قتل کریں گی۔انرجی بند کرنی تو بڑی بات ہی لوگ چند پیسی کی ملازمت بھی قربان نہیں کر سکتی ۔ آج لوگ بڑی شان سی جانسن اینڈ جانسن میں کام کررہی ہیں اور لوگوں سی فخریہ طور پر بتاتی ہیں کہ میں اس کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ حالانکہ یہ اسرائیل کی کمپنی ہی جو اسرائیلی فوج کو سپورٹ کرتی ہی تاکہ وہ زیادہ سی زیادہ معصوم فلسطینیوں کو مارسکیں۔ شاید انہیں حالات کا مشاہدہ کرتی ہوئی علامہ اقبال نی کہا تھا کہ ’وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود ۔یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ‘۔یہ کیسی ممکن ہو سکتا ہی کہ جس کمپنی کاپیسہ اس مسلم ملک کو تباہ کرنی میں لگ رہا ہو اس میں ایک مسلمان بھائی بڑی شان وشوکت سی اس کی چاکری کری۔
 
یہ دور بالکل اس حدیث کی مفہوم کی مطابق ہی جس میں اللہ کی رسول ﷺ نی فرمایا کہ لوگو تم پر ایسا دور آئی گا لوگ تم پر ٹوٹ پڑیں گی جیسی بھوکی کھانی پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ ایک صحابی نی فی الفور اپنی تسلی کی لئی پوچھا کیا ہماری تعداد لوگوں کی مقابلی میں بہت کم ہوگی؟ اللہ کی رسول ﷺ نی جواب دیتی ہوئی فرمایا نہیں تعداد کم نہیں ہوگی۔ صحابی نی پھر سوال کیا پھر کیا وجہ ہوگی اس استحصال کی۔ آپ ﷺ نی جواب دیا کہ ہماری آپسی اخلاق پراگندہ ہونگی ۔ یعنی ہم ایک دوسری سی بغض اور حسد رکھ رہی ہونگی ۔ کیا ہی خوب کسی شاعر نی اسی مفہوم کی ترجمانی کی ہی :
ایک ہوجائیں تو بن سکتی ہیں خورشید مبین
 ورنہ ان بکھری ہوئی تاروں سی کیا بات بنی
آج دنیا میں مسلمانوںنی اپنی مسائل اور ضروریات کو اسقدر بڑا کر لیا ہی کہ وہ ہمیشہ اسی میں الجھا رہتا ہی ۔ اسی اپنی اطراف یا اپنی پڑوسی کی متعلق سوچنی کا موقع ہی نہیں مل پارہا ہی ۔ ہماری اسی عادت کا فائدہ اٹھاتی ہوئی باطل قوتیں ہم پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ کہیں برما میں ظلم ڈھایا جارہا ہی تو کہیں آسام میں خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ۔ یہ تو رہی غیر ملکوں کی باتیں جہاں مسلم اقلیت میں ہیں لیکن افسوس صد افسوس جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں انکی ساتھ کیا ہو رہا ہی۔ ہماری سامنی بی شمار زندہ مثالیں موجود 
ہیں۔ اخبارات کی صفحات پلٹتی ہی ہماری سامنی عرب دنیا سامنی آجاتی ہی ۔ ہم خود ہی ایک دوسری کی خون کی پیاسی ہیں۔ خود ہی اپنی بھائیوں کا گلا کاٹ رہی ہیں ۔ اپنی معمولی سی ذاتی مفاد کیلئی دوسروں کی جان لینی میں ذرہ برابر دریغ نہیں کرتی ۔
 
اسلامی تاریخ کی مطالعہ سی پتہ چلتا ہی کہ یہ قرب دجال کا زمانہ ہی ۔ دجال کی آمد سی متعلق بہت ساری نشانیاں رونما ہو رہی ہیں۔ دجال کی آمد کی سب سی بڑی نشانی یہ ہی کہ لوگ دجال کی متعلق لا علم ہو ں گی۔ اللہ کی رسول ﷺ نی دجال سی بچنی کی تلقین کی ہی اور اس سی بچنی کی تد ابیر بھی بتائی ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بہت قلیل تعداد دجالی فتنوں کی ظہور اور اس سی بچنی کی تدابیر سی واقف ہی ۔ آج دجالی نظام نی پوری انسانی تہذیب کا محاصرہ کر لیا ہی۔ آج کھانی پینی ،تعلیم تعلم اور بازار تک صرف دجال ہی کی پیروی کی جارہی ہی اور لوگ ہنسی خوشی دجالی نظام زندگی پر عمل کرنی کی لئی سرگرداں ہیں۔ حقیقت یہ ہی کہ جدید تہذیب و ثقافت موجودہ نظم بعثت دجال کا ہتھکنڈا ہی اور اس سی وہ لوگوں کا شکار کر رہا ہی ۔ دجال کی آنی سی پہلی لوگوں کو دجالی نظام کا عادی بنایا جارہا ہی تاکہ دجال کی آنی پر لوگوں کو اجنبیت نہ محسوس ہو ۔ جگہ جگہ انٹر نیشنل اسکول کھولی جارہی ہیں ۔چھٹویں کلاس کی لڑکوں کو بزنیس کمیو نیکیشن سکھایا جارہا ہی ۔ سیکس ایجو کیشن کی نام پر بچوں میںمانع حمل طریقوں کی ذریعہ فحاشی کی تبلیغ کی جارہی ہی تاکہ معصوم ذہن زنا کی گھناؤنی تصور سی عاری ہو جائی اور زنا کا عادی بن جائی ۔جگہ بجگہ فاسٹ فوڈ کا جال بچھایا جارہا ہی تاکہ ایک وقت ایسا ہو جائی کہ لوگ حرام و حلال کی تمیز کی بغیر جو بھی پائیں بس کھائیں۔ اور جب چاہیں جہاں چاہیں اور جیسی چاہیں اور جس سی چاہیں زنا بالجبر یا زنا بالر ضا شروع کردیں۔ اس طرح پوری خاندانی نظام کا جنازہ نکل جائی گا اور لوگ اجتماعت سی نکل جائیں گی ۔ موجودہ بینکنگ کا نظام بھی دجال کا ایک مضبوط ہتھکنڈہ ہی۔ اس چیز نی بھی کریڈٹ کارڈ اور ایزی لون کی ذریعہ پوری دنیا کی لوگوں کو قرض کی چنگل میں لی لیا اور یہ سلسلہ مزید تیزی کی ساتھ بڑھ رہا ہی ۔
 
یہودی دنیا بڑی شدت کی ساتھ اپنی مسیحا کا انتظار کررہی ہی ۔ یہ وہ مسیحا ہی جو ان کو دنیا میں عزت دلائی گا ۔ ظاہر سی بات ہی کہ حضرت عیسیٰ ان کی مسیحا نہیں ہو سکتی اور موجودہ ریسرچ اور تحقیق سی پتہ چل رہا ہی کہ یہودیوں میں سی ایک خاص طبقہ جنکو زائنسٹ کہتی ہیں وہ شیطان کی عبادت کررہی ہیں۔ یہ عظیم شیطانی شخصیت کوئی نئی مخلوق نہیں بلکہ دجال ہی جس کا ذکر حدیث کی کتابوں میں بڑی تفصیل سی آیا ہی ۔ یہ یہودی زائنسٹ اس مسیحا کا بڑی شدت سی انتظار کر رہی ہیں اور اسکی آنی سی پہلی گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کریں گی۔ اس کی کوشش شروع ہو گئی ہی۔لاکھوں لوگوں کو موت کی گھاٹ اتار کر عراق پر قبضہ کرلیا گیا ہی ۔ لیبیا میں بھی خون کی ندیا ں بہادی گئی ہیں ، وہ بھی بھی ان کی قبضی میں آچکا ہی۔ اس کی علاوہ جارڈن ،ایران، مصر ،کویت ،سیریا اور نصف کی قریب سعودی عرب بھی شامل ہی وہ دھیری دھیری ان ممالک پر ایک کی بعد ایک امریکہ یا کسی اور طاقتور ملک کی مدد سی قبضہ کرتی ہوئی چلی جائیں گی۔ وہ مدینہ میں نہیں داخل ہو پائیں گی کیوں کہ اہل مدینہ پر اللہ کی خاص رحمت ہی اور اللہ کی رسولﷺ کی پیش گوئی ہی کہ دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو پائی گا۔ مدینہ اہل علم کا شہر ہوگا لیکن اسکی علاوہ جن ملکوں کا تذکرہ اوپر ہوا ان سب پر اسرائیل اپنی شیطانی حکمت عملی سی قابض ہو جائی گا ۔
 
اب تک جتنی بھی خلیجی اور افریقی ممالک پر یوروپ اور امریکہ نی حملہ کیا ہی کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن چکی ہیں اور آنی والی دنوں میں بقیہ ممالک پر قبضہ کی لئی یہ کروڑوں انسان کو موت کی نیند سلادیں گی کیوں کہ انہیں اپنی مسیحا کی آنی سی پہلی گریٹر اسرائیل بنانا ہی ۔تخت داؤد ی جس پر حضرت داؤد علیہ السلام بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتی تھی وہ رومن امپائر کی قبضہ میں تھا جسکو برطانوی حکمراں اپنی یہاں اٹھاکر لی گئی ۔یہ تخت آج بھی ویسٹ منسٹر انگلینڈ میں موجود ہی۔ گریٹر اسرائیل بنانی کی بعد یہ تخت پھر سی یروشلم میں نصب کیا جائی گا جہاںپر دجال آکر اپنی مریدوں کو خطاب کری گا۔ آج اسرائیل لوگوں سی جھوٹی ہمدردی حاصل کرنی کیلئی جھوٹی داستان بیان کر رہا ہی۔ ابھی تو یہ لوگ اپنی حد کو بھی پار کر گئی ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سی اپنی یہاں سی طالب علموں کی وفود دنیا بھر کی انگریزی اسکول میں بھیجتی ہیں اور اسکولی بچوں کو بتاتی ہیں کہ ہم بہت مسکین ہیں۔ ہمیں مسلمان ستاتی ہیں۔ ہم پر ظلم کرتی ہیں۔ ہماری لئی اپنی خدا سی دعاءکرو۔ گزشتہ کچھ مہینوں سی ایک وفد مہاراشٹر کی مختلف انگریزی اسکول (Convent School )میں بھی دوری کررہا ہی ۔ یہ آنی والی نسل کو گمراہ کر نی کی ایک منصوبہ بند کوشش ہی ۔ ہماری نوجوان اور اسکول جانی والی بچی خارجی مطالعہ تو بہت کم ہی کرتی ہیں ، انہیں ٹی وی، کرکٹ اور فلم بینی اور اب موبائل پر گیم کھیلنی یا دوستوں سی بی سر پیر کی باتوں سی فرصت ہی کہاں ہی ۔ چنانچہ اسرائیل نی یہ منصوبہ بنایا۔ اگر کتاب اور اخبارات کی ذریعہ اس مشن کی تبلیغ کی جائی تو زیادہ موثر نہیں ہو گی لہٰذا گروپ کی شکل میں اسکولی بچوں کو دوسری ممالک کی اسکولوں میں بھیجو جو لوگوں سی اسرائیل سی متعلق بی بنیادباتیں کرکی ہمدردی حاصل کر سکیں ۔یہ سلسلہ بہت تیزی کی ساتھ چل رہا ہی ۔ہمیں اسرائیل کی اس مکرو فریب کی متعلق لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئی اور لوگوں کی درمیان اتحاد پیدا کرنی کی کوشش کرنی چاہئی تاکہ گریٹر اسرائیل کا ناپاک منصوبہ کامیاب نہ ہونی پائی ورنہ آنی والی دن مسلمانوں کیلئی مصیبتوں کا پہاڑ ثابت ہوں گی۔ جو لو گ اس کا ادراک رکھتی ہیں ان کا امت کو خبر دار نہ کرنا امت پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ 
********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 713