donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Modi Jee Ka Ghati Vision - Modi Bhagat Jawab Dein


 مودی جی کا گھٹیا ویژن: مودی بھگت جواب دیں

 

مسلمانوں کے ساتھ ساتھ برہمنوں کو بھی سکاری خرچ سے ذلیل کیا

 

 -ریاض عظیم آبادی

 

    ہندستان کے معروف صحافی خشو نت سنگھ نے اپنی کتاب Absolute Khushwant میں ’فرقہ واریت ‘  موضوع پر صفحہ ۱۲۴ اور ۱۲۵ پر صاف گوئی کے ساتھ لکھا ہے…


The carnage in Gujrat,the Mahatma's home state ,in early 2002, and the subsequent landslide victory for Narendra Modi,spelt disaster for our country.The fascist agenda of hindu fanatics is unlike anything India has experienced in its modern history.The saffron tide was rising and was very afraid that it would distroy the nation.For the first time , I was seriously concerned for the country's future.Modi is murderer.And Advani and he have a symbiotic relationship-they help each other.Modi helps Advani win election from Gandhinagar and Advani in turn exonerates him from charge of the 2002 Gujrat riots. and Advani in turn exonerates him from charge of the 2002 Gujrat riots.یہ کسی مسلمان کی کتاب یا کسی اخبار سے یا کسی اوویسی کی تقریر سے نہیں لیاگیا ہے

بلکہ ہندستان   کے جانے مانے صحافی کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔
نریندر مودی قاتل ہے،اڈوانی اور مودی ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں۔مودی نے اڈوانی کی مدد کی گاندھی نگر سے انتخاب جیتنے میں اور بدلے میں اڈوانی  نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے گجرات قتل عام سے مودی کو بچانے میں مدد کی…یہ ہے مودی اور اڈوانی کا سچ۔اگر یہ بات اپنی طرف سے لکھتا تو کوئی خان صاحب فون کرتے اور مودی کے خلاف لکھنے کے لیے مجھے برا بھلا کہتے۔یا کوئی صاحب وزیراظم کے خلاف لکھنے کو مصلحت کے خلاف بتاتے۔

میں ایک صحافی ہوں اور ایک صحافی جذبات سے نہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں دیکھتا ہے۔مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ نریندر مودی مجھے نام اور چہرے سے پہچانتے ہیں۔ ۲۰۱۲ مجھے صحافی کی حیثیت سے اعزاز دینے کے لیے سورت بلایا گیا تھا۔سرکٹ ہاؤس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے متعارف کرایا گیا تھا اور نصف گھنٹے تک میں نے ان سے بحث کی تھی۔میں ان سے متاثر نہیں ہو سکا تھا۔میں نے چونکہ ہٹلر کی بایو گرافی کا مطالعہ کر لیا تھا اسلیے نریندر مودی میں اجڈ ضدی اور اپنی دھن پر رقص کرنے والا آدمی دکھائی دیا۔میں خشونت سنگھ سے مل چکا ہوں۔میری نظر میں وہ ایک ایماندار اور اپنی بات بے خوف ہو کر کہنے اور لکھنے والے صحافی تھے۔ہندی کے پربھاش جو شی اور خشونت سنگھ  میرے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہیں۔


یقین کیجیے اگر مودی کو قاتل اگر ہندی یا اردو کے صحافی نے لکھا ہوتا  تو اب تک ایک زبردست ہنگامہ ہو چکا ہوتا۔لیکن خشونت سنگھ اول تو انگریزی کے صحافی اور دوئم کہ سکھ تھے اسلیے کسی کی ہمت نہی ہوئی کہ انپر انگلی اٹھائیں یا ان کتاب کو جھوٹ کا پلندہ کہیں۔سکھ قوم کی اہمیت  کا اندازہ مجھے ہے۔سکھ خیرات کے لیے ہا تھ نہیں پھیلاتے اور اپنا حق لینا جانتے ہیں۔وہ مسلمانوں کی طرح کشکول لیے کھڑے نظر نہیں آتے۔ سکھ اپنے قاتلوں کو سزا دینا جانتے ہیں نہ کہ چند نا عاقبت اندیش مسلمانون کی طرح انکی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔وہ ضمیر رکھتے ہیں اور ہم ضمیر کا سودا کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔المیہ تویہ بھی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو تعظیم بھی دیتے ہیں اور ووٹ دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

۱۵اگست کو بہار کے سبھی ہندی انگریزی اخباروں میںآدھے صفحہ کا اشتہارشائع ہوا ہے جس پر مودی کے علاوہ دس رہنماؤں کی تصاویر شائع کی گئی ہیں۔اوپر  کی لائن میں شیواجی، راجندرپرساد،جئے پرکاش نرائن،جگجیون رام اور کرپوری ٹھاکر کی تصویریں ہیں اور نیچے کی لائن میں رام دھاری سنگھ دنکر،شری بابو،بھولا پاسبان شاستری،گولال سنگھ نیپالی اور دشرتھ مانجھی(گیا کا پتھر توڑ کر راستہ بنانے والا) کی تصویریں ہیں۔ اشتہار پر مودی جی کے دستخط بھی ہیں۔یعنی اشتہار مودی جی کی منظوری کے بعد شائع کیا گیا ہے۔یہ ہے مودی جی کا ویژن!انہیں ملک میں خاص طور پر بہار میں ایک بھی مسلمان یا برہمن رہنما نہیںملے۔

ملک کے وزیر اعظم کا ویژن اتنا گھٹیا ہوگا اور۱۶ فیصد مسلمانوں کو اور ۴ فیصد برہمن کو نظر انداز کر دیگا اسکا تصور بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا۔

یہ اشتہاران مسلمانوں کے تازیانہ ہے جو مودی بھکتی میں گجرات کے معصوم مسلمانوں کے قاتلوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔اس بات کا جواب مودی ہی دیںگے کہ انہیں مولانا ابولکلام آزاد ،رفیع احمد قدوائی،بہار کے عظیم مجاہد آزادی مولانا مظہرالحق اور ڈاکٹر سید محمود کے ناموں کی یاد نہیں آئی؟ وہ اتنی جلدی اے پی جے عبدالکلام کو بھی فراموش کر بیٹھے؟ برہمنوںمیں اندرا گاندھی،راجیو گاندھی اور بہار کے للت بابو کی قربانیوںکو بھی سیاست کا شکار بنا دیا؟

مودی جی شاید بھول گئے کہ وہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم ہیں جو گنگا جمنی تہذیب کا امین ہے۔مودی جی در اصل من موہن سنگھ سے زیادہ مونی بابا بنے ہوئے ہیں ۔بھاجپا کے نصف درجن ممبر پارلیا منٹ اور وزرا مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور وزیر اعظم مونی بابا کی نقل کر رہے ہیں۔نتیش کمار نے مودی جی کو ’جملہ‘جڑنے والا بتایا ہے۔بہار میں مودی جی نتیش کمار گالی دیکر مہا گٹھ جوڑ کو ایک نکتہ فراہم کر دیا ہے۔نتیش کے ڈی این اے کے گڑبڑ ہونے جیسی گھٹیا بات کہ کر وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔

اگرہندستان کا وزیر عظم سرکاری خرچ پر شائع ہونے والے اشتہار کے ذریعہ گھٹیا سیاست کرے گا  تو ملک کا کیا ہوگا؟۲۲ فیصد آبادی کو نظر اندازکر خود کوآر ایس ایس کا پرچارک ثابت کر مودی جی ملک کو کون سا پیغام دینا چاہ رہے ہیں اور بھاجپائی مودی کو قاتل لکھے جانے پر خاموش کیوں ہیں؟

دراصل بھاجپا کی سیاست صرف مسلم مخالفت اور نفرت کی کھیتی کرنے پر مبنی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو لوگ مودی بھگتی میں ملت فروشی،قوم فروشی اور ضمیر فروشی کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے قاتلوں کی مدد کر اپنی نظر سے خود کو گرا رہے ہیں ہوش میں آجائیں اور قوم سے معافی مانگ لیں۔٭٭


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 438