donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   RSS Aur BJP Godse Se Kinara Kashi Ikhtiyar Nahi Kar Sakti Hai


آرایس ایس اور بھاجپا گوڈسے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتیں


 ریاض عظیم آبادی

 

فیصلے کی گھڑی آچکی ہے ملک کو دو ٹوک فیصلہ لینا ہوگا۔ اس ملک میں راشٹرپتا مہاتما گاندھی کی اہمیت رہے گی یا ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو قوم کا رہبر اور شہید قرار دیا جائے گا۔ڈھکے چھپے انداز میں ناتھورام گوڈسے کی حمایت ایک عرصے سے کی جارہی ہے۔ لیکن نریندرمودی کے وزیراعظم بننے کے بعد فسطائی طاقتیں صرف سرگرم ہی نہیں ہوئی ہیں بلکہ دبنگئی کا مظاہرہ کرنے کا کوئی موقع گنوانے کیلئے تیار نظر نہیں آرہی ہیں۔ غورطلب ہے کہ بجرنگ دل، وشوہندو پریشد یا پھر ہندو مہاسبھا آرایس ایس کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔

گذشتہ سال اکتوبر میں آرایس ایس کے رسالے’ کیسری‘ کے ملیالم ایڈیشن میں گوپال کرشنن کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں ناتھورام گوڈسے کو ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو سے عظیم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے بعد تو دسمبر آتے آتے گوڈسے کی’ مہیما منڈن ‘ہونے لگی۔بھاجپا ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے گوڈسے کو دیش بھکت قرار دے دیا۔ مہاراشٹر میں گوڈسے کیلئے یوم شہید منایا گیا۔ ہندومہاسبھا نے گوڈسے کا مندر بنانے اور اس کی مورتی نصب کرنے کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہوا تو بھاجپا میں ساکشی مہاراج کے بیان سے خود کو الگ کرلیا۔ بعد میں ساکشی مہاراج کو بھی معافی مانگنی پڑی لیکن ہندو مہاسبھا نے گوڈسے کی مہیما منڈن کی مہم اور تیز کردی۔ بے شرمی کی انتہا تو تب ہوگئی جب گاندھی جی کو راشٹرپتا کہے جانے پر سوال اٹھایا جانے لگا،نصابی کتابوں سے گاندھی جی کے چیپٹر کو ختم کرنے اور کرنسی نوٹوں سے گاندھی جی کی تصویر کو ہٹائے جانے کا مطالبہ شروع ہوگیا۔25؍دسمبر کو میرٹھ میں گوڈسے کی مورتی نصب کرنے کیلئے زمین کی پوجا کی گئی اور سیتاپور میں گوڈسے کا مندر بنانے کا اعلان کیا گیا جسے یو پی حکومت نے ناکام بنادیا۔ ہندو مہاسبھا کے ورکنگ صدر کملیش تیواری نے اعلان کیا کہ کسی بھی قیمت پر ناتھورام گوڈسے کا مندر بنایا جائے گا۔بازار میں ناتھورام گوڈسے کی کتابیں لائی جارہی ہیں اور ناتھورام گوڈسے کی تعریف میں بنی فلم کو ریلیز کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

ہمیں یہ لکھنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ناتھورام گوڈسے کی تعریف کرنیوالے گوڈسے بھکت ملک کے غدار ہیں اور اس کی مورتی نصب کرنیوالے ملک سے غداری کررہے ہیں۔ یہ جئے چند ہیں یا پھر میر جعفر اور میر صادق ہیں۔ہماری تشویش اس بات پر ہے کہ منظم طریقے سے گنگا جمنی تہذیب کو مجروح کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے، ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کا فرضی اعدادوشمار میڈیا کے ذریعہ اچھالا جارہا ہے اور حکام مسلم مخالف کردار میں رنگتے نظر آرہے ہیں اور اس ملک کا مکھیا خاموش تماشائی بن کر ایسی تمام کوششوں کو ہوا دے رہا ہے۔نریندرمودی کے کردار کو سمجھنا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ ان کی شخصیت کا ایک رخ تو وزیراعظم کا ہے تو دوسرا آج بھی آرایس ایس کے پرچارک والا ہے۔وزیراعظم مودی نے28؍ستمبر2014کو امریکہ کے میڈیسن اسکوائر میں گاندھی جی پر بولتے ہوئے کہا کہ ’گاندھی جی نے وطن پرستی کو عوامی تحریک میں تبدیل کردیا تھا۔ہر فرد جو بھی کام کرتا ہے اس سے ملک کا کام کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ صفائی کرنیوالا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی یہ مان کر صفائی کرتا ہے کہ وہ ملک کا کام کررہا ہے۔ اساتذہ درس تدریس کو ملک کا کام تصور کرتے تھے، سوت کات کر کھدر کے کپڑے بنانے والا بھی خود کو ملک کے کام سے جڑا محسوس کرتا تھا۔اسطرح جب ملک کے عوام میںملک کا کام کرنے کا جذبہ مضبوط ہوتا ہے تو ملک کی ترقی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔‘

7؍جنوری2015کو مہاتما مندر گجرات میں 13واں یوم این آر آئی منایا گیا۔ایک صدی قبل اسی روز مہاتما گاندھی افریقہ سے لوٹے تھے۔نریندرمودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے گاندھی جی کے تصورات کو عملی شکل دینے کے عزائم کا اظہار کیا۔ہم یہاں پر تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتے لیکن جو المناک صورتحال ملک میں پیدا کی جارہی ہے اور تمام کاروائیوں میں مسلمانوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس سے یقینا ملک کا نقصان ہوگا۔ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دہلی پر کس کی فتح ہوگی اور بہار میں کس کی حکومت بنے گی لیکن ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے اس سے یہ فکر ضرور ہوتی ہے کہ ملک کے عوام نے ترقی اور بہترین حکومت کے نعرے پر یقین کرکے جس شخص کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچایا وہ ایک طرف تو مہاتما گاندھی کے آدرشوں کا سہارا لے کر بین الاقوامی پلیٹ فارم پرنیا مقام دلانے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف خود اس کی پارٹی، اس کے ممبر پارلیمنٹ، وزراء اور ان کی دوست تنظیمیں ہندوتوا کی آڑ میںاپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کا کام کررہی ہیں۔وہ دن دور نہیں جب وزیراعظم نریندرمودی کو عوام کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سوالوں کے جواب دینے ہوں گے اور معافی مانگنے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔


حکومت نے اپنی نیت صاف طور پرظاہر کردی ہے۔جو شخص جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کا مخبر رہا اور جنگ آزادی کے دوران کبھی جیل نہیں گیا ہو اسے بھارت رتن کے اعزاز سے نواز دیا گیا اور جس شخص نے بابری مسجد شہید کرنے والے غنڈے موالیوں کی قیادت کی اسے پدم ویبھوشن کے اعزاز سے سرفراز کردیا۔حکومت کو کانشی رام ، کرپوری ٹھاکراور سر سیداحمد خاں نظر نہیں آئے۔ہر وہ کام جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو اور مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہو کہ ملک میں دوسرے درجے کے شہری بنتے جارہے ہیں اسے اولیت دی جارہی ہے۔بہار کے عزیز پور میں جس طرح سے بھاجپائیوں نے منظم حملہ کر مسلم بستی کا تاراج کیا، 46مکانوں کا نذرآتش کردیا اور چار مسلمانوں کو زندہ جلادیا… اس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ عزیز پور دراصل صرف ایک ٹریلر تھا کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کے سہارے تمام ریاستوں میں کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر راجیہ سبھا میں اکثریت لانا چاہ رہی ہے تاکہ آئین کو بدلنے کے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔اس منشاء کا اظہار26؍جنوری کو شائع اس بینر سے ہوگیا جس میں سیکولرزم اور سوشلزم کے الفاظ کو ہذف کردیا گیا تھا۔یہی حرکت راجیہ سبھا کے چینل پر بھی کی گئی۔گاندھی جی پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے55کروڑ روپئے پاکستان کو دے دینے کی وکالت کی تھی لیکن 4؍جون1947کو تقریر کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا… ’ہم دباؤ میں پاکستان کیلئے ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے، تشدد کے خوف سے ہم پاکستان بننا منظور کرلیں ایسا نہیں ہوگا۔ اگر وہ پرامن دلائل سے ہمیں سمجھا سکیں اور ہماری عقل کو یہ موزوں لگے گا تبھی ہم پاکستان بنانے کے مطالبے کو ہم تسلیم کریں گے۔‘ گوڈسے جیسے لوگوں کو گاندھی جی کے جذبات کا احساس نہیں ہو سکا۔

ہمارے ایک صحافی دوست ارملیش نے2004میں ناتھورام کے بھائی گوپال گوڈسے کا انٹر ویو شائع کیا تھا جس میں گوپال گوڈسے نے اعتراف کیا تھا کہ نا تھورا م سا ورکر سے متاثر تھا اورآر ایس ایس سے گہرا تعلق تھا۔خود گوپال گوڈسے بھی 1931سے39تک آر ایس ایس میں شامل تھے۔ارملیش سے فرقہ وارانہ نفرت پر اپنے افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔

سوال یہاں پر یہ ہے کہ نریندرمودی کی حکومت بنتے ہی اچانک بھگوا بریگیڈ کیوں سرگرم ہوگیا؟ کیوں ملک کی سیاست میں محاورے بدلے جارہے ہیں؟ نفرت کی آندھی کیوں چلائی جارہی ہے؟ کبھی لو جہاد تو کبھی تبدیلی مذاہب تو کبھی گوڈسے کے بہانے سماج میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی جارہی ہے؟ ایک طرف وزیراعظم آسٹریلیا میں گاندھی جی کی مورتی کی نقاب کشائی کرتے ہیں اور گاندھی جی سے سبق حاصل کر ملک میں صفائی کی مہم شروع کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے لوگ ملک میں ہر روز ایک نیا تماشہ کھڑا کررہے ہیں۔ ایسی کوشش باجپئی جی کی حکومت میں بھی شروع کی گئی تھی لیکن وہ توازن کی سیاست میں یقین رکھتے تھے۔آج مسلمانوں کو کھلے عام حرام زادہ یا رام زادہ کی بات کہی جارہی تو مسلمانوں کو گھرواپسی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ وی ٹی راجیشور نے ’وائی گوڈسے کِل گاندھی‘ میں لکھا ہے کہ… ’آرایس ایس کو اس بات کی جانکاری تھی کہ گاندھی جی کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس سے آرایس ایس انکار کرتی رہی ہے۔ساکشی مہاراج کے ذریعہ گوڈسے کو وطن پرست بتانے پر گاندھی جی کے پوتے تشار گاندھی نے ایک بار پھر سنگھ کے نظریات پر سوال کھڑے کئے۔ تشار گاندھی نے کہا جو ساکشی مہاراج نے کہا وہ آرایس ایس کا نظریہ ہے۔ اگر آپ کے دل و دماغ میں ناتھورام گوڈسے ہے تو وہ نام سامنے آئے گا ہی۔‘

بہار کے سابق وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے مودی سرکار کی ایک وزیر کا مذاق اڑاتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ جس عورت نے شادی نہیں کی وہ ہندوؤں سے دس بچہ پیدا کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ ایک ہندی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ہندو مہاسبھا کے قومی جنرل سکریٹری مدن سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ ہندو مہاسبھا آرایس ایس کی قریبی تنظیم ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ملک کو گاندھی ازم کی نہیں بلکہ سبھاش چندربوس اور ویرساورکر جیسے انقلابی لیڈروں کے آدرشوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کے جھوٹے وعدے کی وجہ سے 11لاکھ ہندوؤں کے قتل کا سوال اٹھایا ہے اور کانگریسی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ’پنڈت‘ گوڈسے کے عدالت میں دیئے گئے بیان کو منظرعام پر نہیں آنے دیا گیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ آرایس ایس کی تشکیل ہندومہاسبھا کے Front Organisationکی شکل میں ہوئی تھی۔ ہندو مہاسبھا کے اس وقت کے صدر شیاما پرساد مکھرجی نے ہندو مہاسبھا سے استعفیٰ دے کر سنگھ کے کچھ رضاکاروں کو ملاکر جن سنگھ کی تشکیل کی تھی پھر بعد میں آرایس ایس نے بھاجپا کی بنیاد ڈالی۔غورطلب ہے کہ انقلابی رہنما ویردامودر ساورکر کو کالا پانی کی سزا ہوئی تھی لیکن انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے اور انگریزوں سے انہیں اسی شرط پر معافی ملی تھی کہ ملک میں ہندوؤں کو شدت پسند بنانے کا کام کریں گے۔ اسی کے بعد ہندو مہاسبھا کا قیام عمل میں آیا تھا۔ہندومہاسبھا کے قومی صدر چندرپرکاش کوشک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھاجپا ترقی کے ایجنڈے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی وجہ سے کامیاب رہی ہے۔کیا آرایس ایس اور بھاجپا خود کو گوڈسے کی قصیدہ خوانی کی مذموم سازشوں  سے الگ کر پائے گی؟ ّآرایس ایس نے بھی گاندھی جی کی تعظیم نہیں کی!گوڈسے کی قصیدہ خوانی دراصل آرایس ایس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے،وہ عوام کے ذہن سے گاندھی نہرو کے اثرات کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ملک پر ہٹلر کے نظریات کو تھوپنا چاہتی ہے۔

ملک کے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ کیا حکومت شدت پسند ہندولیڈروں کی ریشہ دوانیوں پر لگام لگا پائے گی؟ ملک میں جو ماحول بنایا جا رہا ہے کیا اس کی ذمہ داری سے نرندر مودی خود کو الگ دکھا پا ئیں گے؟ملک کوجواب چاہیے کہ خرافاتی عناصر کے خلاف کون سی کاروائی کی گئی؟جس طرح سے گرجا گھروں پر حملہ کیا گیا ہے اور احتجاج کرنے والوں پر پولسیا حملہ کیا گیا ہے یعنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگ اقلیت بھی نشانے پر لیے جا رہے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے، اور عوام کو بیدار اور خبردار کرنے کی بجائے اپنے اپنے بلوں میں دبکے ہوئے ہیں۔سیکولر پارٹیوں نے سیکولرزم کا استعمال اپنے سیاسی فائدے کے لیے یا پھر مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کیا،کانگریس ہو یا بائیں بازو کی جماعتیں کسی نے بھی سنگھی نظریات کا مقابلہ عوامی سطح پر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بند کمروں میں یا سیمینار کے غازی بننے سے آگے وہ کبھی آگے بڑھتے نظر نہیں آئے جسکی وجہہ سے آج ملک کا اقتدار گوڈسے حامیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ ٭


 رابطہ:r.azimabadi@gmail.com, Mob:9431421821

   

********************************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 547