donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shahnawaz Farooqui
Title :
   Woh Qatl Bhi Karte Hain To Charcha Nahi Hota

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا  نہیں ہوتا
 
شاہ نواز فاروقی
 
اکبر نے کہا تھا۔
 
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
 
اکبر کے اس شعر میں ہم سے مراد مسلمان اور وہ سے مراد انگریز ہیں۔ اکبر نے جب یہ شعر  کہا تھا تو اکبر کا ’’ہم‘‘ بھی مقامی تھا اور ’’وہ‘‘ بھی مقامی تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اکبر  کا ہم بھی آفاقی ہوگیا اور وہ بھی۔ اس سلسلے میں اکبر کے زمانے کی بھی قید نہ رہی۔ اکبر نےیہ شعر ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا مگر آج ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی مسلمانوں کا حال مختلف  نہیں۔ اکبر کے زمانے میں مسلمان آہ کرتے تھے تو غدار اور باغی کہلاتے تھے۔ اب انتہا پسند،  بنیاد پرست دہشت گرد اور ڈرون حملوں کے لائق قرار پاتے ہیں۔
 
انگریز برصغیر میں تاجر بن کر آئے تھے مگر اپنی سازشوں کے ذریعے دیکھتے ہی دیکھتے  پورے برصغیر پر قابض ہوگئے۔ انگریزوں کا قبضہ غاصبانہ تھا مگر برصغیر پر قابض ہوتے  ہی وہ مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑے جسے مجرم وہ نہ ہوں مسلمان ہوں۔ سازش انگریزوں
نے نہ کی ہو مسلمانوں نے کی ہو۔ انہوں نے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے عزت وتکریم اور مراعات کے وعدے کیے مگر انہوں نے موقع ملتے ہی مغل شہزادوں کے سر بوڑھے بہادر  شاہ ظفر کو تحفے میں پیش کیے۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر پر غداری کا مقدمہ چلایا اور اسے
ہندوستان میں مرنے اور دفن ہونے تک کی اجازت نہ دی۔ 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کا  ’’سیاسی حق‘‘ تھی مگر انگریزوں نے جنگ آزادی کو ’’غدر‘‘ کہا اور جنگ آزادی لڑنے والے  ان کی نظروں میں چور، ڈاکو، غنڈے، بدمعاش، غدار اور نمک حرام قرار پائے۔ جنگ آزادی ناکام ہوئی تو انگریز مسلمانوں پر بھوکے درندے کی طرح ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے آزادی کے  متوالوں پر ہاتھی  ھائے۔  انہیں توپوں سے اڑایا۔ دلّی میں مسلمانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا کہ دلّی کی کوئی گلی ایسی نہ رہی جہاں مسلمانوں کو شہید نہ کیا گیا ہو۔ لیکن انگریزوں کی یہ وحشت اور یہ درندگی تاریخ میں کبھی زیر بحث نہ آسکی اور انگریز آج تک ’’مہذب‘‘  چلے آتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انگریزوں نے برصغیر میں مسلمانوں کا خون بہایا  تھا۔ جلیا نوالہ باغ کا واقع بھی ظلم تھا مگر اس واقع میں چند سو افراد مارے گئے تھے ا سکے  باوجود یہ واقع آج بھی انگریزوں کے تعاقب میں ہے لیکن جن مسلمانوں سے انگریزوں نے  پوری سلطنت چھینی اور جن مسلمانوں کے خون سے انگریزوں نے پورے برصغیر کو سرخ کیا وہ کبھی جلیانوالہ باغ کی طرح بھی زیر بحث نہ آسکے۔ یہ صرف برصغیر کی کہانی نہیں۔
 
الجزائر میں فرانس نے سات آٹھ برسوں کی جنگ آزادی میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو  شہید کیا اور فرانس نے کبھی اس سلسلے میں معذرت کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
 
سوویت یونین ختم اور کمیونزم تحلیل ہوا تو یوگوسلاویہ بھی بکھر گیا۔ یوگو سلاویہ میں شامل  سربوں اور کرو شیائی باشندوں نے آزادی کا اعلان کردیا اور دنیا نے ان کے حق آزادی کو ایک  لمحے میں تسلیم کرلیا۔ لیکن یوگو سلاویہ میں بوسنیا ہرزیگوینا بھی موجود تھا جو مسلم اکثریت
علاقہ تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں نے آزادی کا اعلان کرنا چاہا تو سرب ان پر ٹوٹ پڑے اور  امریکا اور یورپ نے بوسنیا کے مسلمانوں کی آزادی کا نوٹس لینا بھی گوارہ نہ کیا۔ اس صورت حال سے سرپوں کو شہہ ملی اور انہوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی جنگ
چھیڑ دی جس کے لیے مسلمان کسی بھی اعتبار سے تیار نہ تھے۔ یہ یک طرفہ جنگ تین سال جاری رہی اور ان تین برسوں میں سربوں نے ڈھائی سے تین لاکھ مسلمان مار ڈالے۔ امریکا اور  یورپ تین سال تک یہ تماشا دیکھتے رہے۔ روس سربوں کے آرتھو ڈوکس عیسائی ہونے کی بنیاد  پر ہر ممکن مالی اور جنگی امداد فراہم کرتا رہا۔ جب امریکا اور یورپ کو یقین ہوگیا کہ اب مسلمان یورپ کے قلب میں اپنی ریاست قائم کرنے کے قابل نہیں رہے تو انہوں نے مداخلت کی  اور مسلمانوں کو ایک ایسی فیڈریشن کا حصہ بنا دیا جو کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کے حق  میں نہ تھی۔ مسلمانوں کے قتل عام کے اتنے بڑے واقعات ہوئے کہ صرف ایک علاقے  سربرنیکا میں دو تین دنوں میں آٹھ ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ مسلمانوں کو قتل کرنے اور میں  ان کے وہ عیسائی پڑوسی بھی شامل تھے جو کہیں 20 اور کہیں40 سال سے مسلمانوں کے قرب میں آباد تھے۔ امریکی اور یورپی اپنے ایک فوجی پر فلم بنا ڈالتے ہیں مگر یورپ کے تین لاکھ مسلمانوں کے قتل پر امریکا اور یورپ نے کوئی فلم اور کوئی ذراما تخلیق نہ کیا۔ انجلینا جولی نے حال ہی میں مسلمانوں کے قتل عام پر ایک فلم بنائی مگر یہ فلم امریکا اور یورپ میں ’’قابل ذکر‘‘ بھی نہ ٹھیری۔
 
مسلم خون کی ارزانی کا یہ قصہ تاریخ کے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا میانمار تک آپہنچا ہے  جہاں مسلم کش فسادات کو ’’معمول‘‘ بنا دیا گیا ہے میانمار بدھ اکثریت کا ملک ہے اور بدھ ازم میں ’’جیوہتیّہ‘‘ یا جاندار کی ہلاکت ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ لیکن میانمار میں مسلمانوں کی
حیثیت کیڑے مکوڑوں سے بدتر بنادی گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نہ  صرف بدھ عوام اور سرکاری ادارے شعوری طور پر مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں بلکہ بدھ Monks یا بدھوں کے مذہبی رہنما جو ساری دنیا میں عدم تشدد اور امن کی علامت سمجھے جاتے ہیں کئی مقامات پر ان لوگوں کی قیادت کرتے دیکھے گئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو  قتل اور ان کی املاک یہاں تک کہ مساجد کو نذر آتش کیا۔ میانمار میں حزب اختلاف کی رہنما  آنگ سوچی مسلمانوں کی بڑی امید تھیں۔ آنگ سوچی کو امن کا نوبل انعام ملے عرصہ ہوچکا  ہے اور مغربی دنیا میں انہیں انسانی حقوق کا علمبردار قرار دیا جاتا ہے۔ مگر جب ان سے کہا  گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے کچھ کریں تو انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی جادوئی  صلاحیت نہیں ہے۔ سیاسی رہنمائوں کا جادو ان کی فکر اور عمل ہوتا ہے لیکن آنگ سوچی کو معلوم ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کی حمایت کریں گی تو بدھسٹوں کو ناراض کریں گی چنانچہ  انہوں نے کئی مہینوں سے جاری مسلمانوں کا قتل عام روکنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا  نہیں کیا۔ البتہ میانمار کی حکومت نے مسلمانوں پر دو بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے  حوالے سے پابندی عائد کی ہے تو آنگ سوچی نے اس پابندی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی  قرار دیا ہے۔ آنگ سوچی کے اس بیان کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی  ناپسندیدہ صورت حال کو دیکھے۔ ایک لمحے کو ٹھیرے کھنکارے اور آگے بڑھ جائے۔ اہم بات  یہ ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی نہ امریکا اور یورپ میں کوئی مسئلہ ہے نہ اقوام  متحدہ کو اس سلسلے میں کوئی تکلیف ہے۔ چند روز پیشتر برطانیہ میں ایک برطانوی فوجی  مبینہ طور پر ایک نو مسلم کے غصے کا نشانہ بن گیا۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے  لیکن اس واقعہ نے برطانیہ ہی نہیں پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا اور یورپی ذرائع ابلاغ دو  ہفتے تک اس واقعہ پر توجہ مرکوز کیے رہے۔ لیکن میانمار کے ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت  ایک دن بھی یورپ میں شہہ سرخی تخلیق نہ کرسکی۔ مسلمانوں کی اس صورت حال کا سبب  مسلمان خود نہیں ہیں۔ امریکا ہو یا یورپ، بھارت ہو یا اسرائیل، روس ہو یا میانمار اصل مسئلہ  اسلام اور اس کے خلاف باطل کا بغض ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا پر مسلط حکمراںطبقے نے مسلمانوں کے قتل عام پر صرف شور مچانے کی صلاحیت بھی پیدا کرکے نہیں
دکھائی۔
 
*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 635