donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Umar Farahi
Title :
   Ilahi Bhej De Sir Syed Koyi

الہٰی بھیج دے سر سید کوئی


عمر فراہی


    آج کل پاکستانی اخبارات میں اسی ملک کی ایک نو عمر دو شیزہ ملالہ یوسف زئی کے حق میں جو تعریف کے پل باندھے جارہے ہیں اور کہاجارہا ہے کہ تحریک طالبان کے حملے نے ایک چنگاری کو شعلہ میں تبدیل کردیا ہے اور یہ لڑکی سر سید سے بھی چار قدم آگے نکل چکی ہے ۔ممکن ہے کہ ملالہ کی اس تحریک سے پوری دنیا کے مسلمان بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوجائیں اور پاکستان سے لے کر یوروپ کی تمام یونیورسیٹیوں میں مسلمان سائنسدانوں ڈاکٹروں اور انجینئروں کی قطار نظر آنے لگے ۔یعنی جو کام سر سید نے ادھورا چھوڑدیا تھا ،ملالہ کے ذریعے انجام تک پہنچادیا جائے گا۔تعجب ہے کہ جس پاکستان سے ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اسی پاکستان کی حقیقی خاتون سائنسداں عافیہ صدیقی کو امریکی حکمرانوں نے پابند سلاسل کر رکھا ہے اور خود ملالہ اور ملالہ کو تحریک دینے والی تنظیموں میں اتنی غیرت اور اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ اس مظلوم کی رہائی کے لئے آواز بھی اٹھاسکیں ۔عافیہ صدیقی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم اورترقی کے عروج اور بلندی تک پہنچ کر اقبال کی طرح شاخ نازک پر بنے آشیانے کو پہچان لیا تھا۔شاید اسی لئے عافیہ صدیقی کو سر جیسے کسی ’پروقار‘خطاب دینے کی بجائے دہشت گرد کا خطاب دے دیا گیا ۔پاکستان کے تعلق سے یہ بھی مشہور ہے کہ بٹوارے کے بعد سارے تعلیم یافتہ اور ترقی پسند مسلمان وہاں منتقل ہو گئے اور جو مولوی اور شدت پسند تھے انہوں نے ہندوستان کا انتخاب کر لیا ۔اسی وجہ سے پاکستان میں عورتوں کے اندر دیگر مسلم ممالک کی بنسبت کچھ زیادہ ہی تعلیمی اور سیاسی بیداری پائی جاتی ہے ۔اس کی مثال بے نظیر بھٹو کا سیاسی عروج ہے۔خود بے نظیر بھی بے نظیر کیسے بنیں ۔انہوں نے اپنے قتل سے پہلے اپنے کچھ دوستوں سے اس کا ذکر کیا تھا کہ’’ جب وہ امریکہ میں تھیں تو اس وقت امریکی وزارت خارجہ کا ایک نمائندہ اور امریکی خفیہ ایجنسی کا ایک کمانڈر دونوں اس سے ملے اور کہا کہ ہم نے آپ کو پاکستان کا صدر بنانے کا منصوبہ بنالیا ہے ،آپ تیار رہیں‘‘ ۔اس بات پر بے نظیر ہنس پڑیں اور بڑی معصومیت سے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ میرے پاس سیاسی پارٹی ہے اور نہ ہی میرے اعوان و انصار ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ’’ آپ صرف اپنی منظوری دیجئے باقی ذمہ داری ہماری ہے۔آپ اپنے ملک کے ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی خود دیکھ لیں گی کہ لوگ آپ کے نام سے نعرہ لگا رہے ہوں گے‘‘ ۔ بے نظیر نے کہا کہ’’ جب میں نے پاکستانی ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھا تو دیکھا کہ حقیقت میں لاکھوں کی بھیڑ میرا نام لے کر نعرے لگارہی تھی۔اس وقت پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ سیاست کے اسرار و رموز کیا ہیں‘‘ ۔(آزادی سے فرار

    ملالہ کے بارے میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا تیرہ سال کی عمر میں واقعی ملالہ اپنی تعلیم کے بارے میں اتنی باشعور تھی یا بی بی سی لندن کے پروگرام میں جو گل مکئی کے نام سے اس کی ڈائری پیش کی جارہی تھی یہ الفاظ اسی کے تھے ؟جبکہ ہماری قوم کا المیہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کے تعلق سے ہزاروں علماء دین کا شعور ایک سر سید نے بیدار کیا اور ملالہ نے تیرہ سال کی عمر میں ہی یہ مقام حاصل کرلیا ۔کیا یقین کیا جاسکتا ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں اپنی سوانح حیات لکھ کر اس نے سر سید کو ہی نہیں علامہ اقبال اور مولانا مودودی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔تعجب ہے کہ کھلونوں سے کھیلنے والی اس بچی نے اپنی اس ضخیم کتاب میں پاکستان کے سیاسی حالات پر سنجیدہ بحث کی ہے ۔اس طرح سیاست کے اسرار رموز کو سمجھنے میں اس نے بے نظیر کو بھی پچھاڑ دیا ہے ۔جبکہ بے نظیر ایک سیاست داں کی اولاد اور بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ بیرون ملک کا دورہ کرنے کے بعد بھی پاکستانی سیاست سے مات کھا گئیں اور وقت سے پہلے ہی زندگی کو الوداع کہنا پڑا ۔ملالہ کے اس فتنے کو سمجھنے کے لئے بے نظیر کے انکشاف پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صہیونی تنظیمیں کس طرح فلاح و بہبود اور تعلیمی مراکز ،اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اقوام عالم پر یلغار کر رہی ہیں اور ان کے زیر اثر سیکڑوں غیر سرکاری ادارے پورا پورا ملک اور ملکوں کے سربراہان کام کررہے ہیں اور یہ لوگ جب اور جس طرح چاہیں ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ اکٹھی کرکے کسی السیسی کو مصر کا صدر بھی بنادیں اور ایک جائز اور عوامی طور پر منتخب اور مقبول صدر کو مجرم قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے قید کردیں ۔یہ لوگ اپنی فحش تجارت کو فروغ دینے اور موجود ہ سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کے لئے ہر روز ملالائوں کا فتنہ تخلیق کرتے رہتے ہیں تاکہ عورت ذات بے پردہ ہو کر زیادہ سے زیادہ بازار کی زینت بنے اور ان کے شوق و شنگھار اور تفریح کی صنعت کو فروغ حاصل ہوتا رہے ۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی پاکستان میں صہیونی میڈیا اور ان کے زیر اثر غیر سرکاری تنظیموں نے مختارن مائی کی آبرو ریزی کو لے کر کتنا واویلا مچایا اور ملالہ ہی کی طرح اسے پاکستان کی ہیروئن بنادیا گیا۔تقریباً تین سال کے عرصے میں مختارن مائی کوتین بار امریکہ سیر کے لئے بلایا گیا اور اس کے بعد اسے اسپین ،سعودی عربیہ،ہندوستان،اور فرانس میں بلا کر انعامات سے نوازا گیا اور وہ پاکستان کی امیر ترین عورت اور سوشل ورکر میں شمار ہونے لگی۔پرویز مشرف نے اپنی کتاب In The Line Of Fire میں لکھا ہے کہ پاکستان میں مختارن مائی کو مشہور و معروف چہرے میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ انہوں نے Celebrity of Sorts ’’ہر طرح سے مشہور ‘‘ کا جملہ استعمال کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ’’مجھے اس کے بارے میں لفظوں کا استعمال کرنے میں اس لئے احتیاط برتنا پڑرہی ہے کیوں کہ اس کے ساتھ بہر حال ظلم ہو اہے اور وہ اب پہلے جیسی کمزور نہیں رہی ۔اس نے اپنی مدد اور رہنمائی کے لئے باقاعدہ سکریٹری مقرر کر رکھاہے ۔اس کی ذاتی ویب سائٹ ہے ۔عورتوں کے مسائل اور حقوق کی بازیابی کے لئے اس نے غیر سرکاری ادارہ اور اسکول قائم کر لئے ہیں اور وہ اپنے خلاف معمولی سی بد تمیزی کے خلاف کئی عالمی سرکاری تنظیموں اور ٹی وی چینلوں کو تحریک دینے کی بھی اہل ہے ‘‘۔
    سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی ملالہ ہو یا ایران کی شیریں عبادی جو نوبل انعام کی مستحق ہو چکی ہیں یا مختارن مائی اب پاکستان میں ایک طاقتور سوشل ورکر کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں ۔انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے جو خود حکومتیں نہیں دے سکیں یا حکومتی ادارے اس کام کو نہیں پورا کرسکتے ۔مگر اس کے باوجود اگر دنیا میں تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو اس لئے کہ کسی بھی ملک میں بغاوت ،فساد اور انتشار پھیلانے کے لئے صہیونی تنظیموں کو ایسے اداروں یا افراد کی ضرورت پڑتی ہے جو وقت مقررہ پر مناسب تعداد میں بھیڑ اکٹھی کرسکیں ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ جب کسی جمہوری ملک میں وہاں کی عدلیہ اور آئین ساز اداروں کی طرف سے فحاشی اور بد کاری کے خلاف کوئی فیصلہ یا قانون صادر کیا جاتا ہے تو یہ تنظیمیں اور ان کے افراد احتجاج اور مظاہرہ شروع کردیتے ہیں ۔بظاہر ان کا مقصد کسی کے ساتھ ہو رہے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوتا ہے مگر اس احتجاج کی آڑ میں یہ لوگ فحاشی اور بد کاری کو ہی فروغ دینا چاہتے ہیں اور اکثر اس احتجاج کے دوران بھی بد تمیزی کے واقعات پیش آجاتے ہیں ۔جیسا کہ مصر میں ڈاکٹر مرسی کے خلاف احتجاج کرنے والے خود اپنی ساتھی لڑکیوں کے ساتھ جنسی دست درازی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحیح ذہن رکھنے والے افراد اور ادارے بھی حالات کا اندازہ نہیں کرپاتے اور ان تنظیموں اور اداروں کی بحث میں ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مشرف نے اپنے اسی عنوان میں لکھا ہے کہ اکثر عورتوں کی آبرو ریزی کے معاملات میں حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور سرکاری اہل کاروں کو بھی پتہ ہوتا ہے مگر حزب اختلاف اور میڈیا اور غیر سرکاری اداروں کے دبائو میں انہیں بھی وہی کرنا اور کہنا پڑتا ہے جو بظاہر دکھائی دیتا ہے۔دراصل بہت سے عالمی ادارے جو صہیونی تنظیموں اور اداروں کے زیر اثر کام کرتے ہیں یہ خاص طور سے مسلم ممالک سے باغی اور بولڈ قسم کی عورتوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔جو کبھی کبھی حالات کا شکار ہو کر ان کے ہاتھ لگ جاتی ہیں اور کبھی یہ لوگ خود اقتدار اور سرمائے کی لالچ سے تیار کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ انہیں اپنے مقصد اور مفاد کے لئے استعمال کرسکیں ۔دنیا کی یہ وہی تنظیمیں ہیں جو صہیونی سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ سے وقت کے صحافیوں اور دانشوروں اور مشہور ومعروف شخصیتوں کو ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کرتی ہیں تاکہ ان کی اس پزیرائی کے بدلے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ان کی ذہن سازی کی جاسکے۔کسی وقت میں یہ خطاب مسلمانوں کی عبقری شخصیات سید احمد اور اقبال کو دیا گیا تھا ۔آج وہی خطاب اسلام دشمن سلمان رشدی اور وی ایس نائپال کو دیا گیا ہے ۔اس کا مطلب کیا ہے ؟کیا مغرب کی جانب سے سید احمد اور اقبال کو دیا گیا خطاب یا ان کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی وجہ سے تھی ؟اقبال نے تو بہر حال اسے قبول نہیں کیا اور مغرب ان کو قائل بھی نہ کرسکا ۔مگر سر سید جس طرح انگریزوں کی تعریف اور احترام میں غرق تھے اس رویہ کے تئیں وقت کے علماء کی مخالفت بالکل جائز اور درست تھی ۔اس کی وجہ بھی تھی کہ جس وقت سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو جہالت سے علم کی طرف موڑنے کی تحریک شروع کی اس وقت مسلمان منجملہ اقتصادی ،معاشی،تہذیبی،ثقافتی اور سیاسی طور پر پسماندہ با لکل نہیں تھا۔اور مسلمانوں کے اندر ہزاروں عالم دین اور قوم کی قیادت کرنے والے پر مغز سیاسی بیداری رکھنے والے مخلص افراد اور علماء موجود تھے اور یہی لوگ انگریزی حکومت کے لئے اصل اڑچن بنے ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا سر سید واحد عالم تھے جو علم کی اہمیت کو سمجھ رہے تھے اور جو عالم تھے وہ سارے جاہل تھے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ مسلمانوں کے لئے جدید علم اور فلسفے کی تعلیم بھی ضروری ہے ۔جبکہ خود مسلم سائنسدانوں اور علماء نے یوروپ کو اپنی تحقیق اور علم کا ذخیرہ نہ دیا ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔خیر سر سید کی علی گڑھ تحریک سے مسلم لبرلسٹوں ،کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں کی جو فوج باہر نکلی اس نے نہ صرف تعلیم کا رخ موڑدیا بلکہ علماء دین کی تحقیر اور تضحیک کا محاذ کھل گیا ۔دھیرے دھیرے لوگوں کے اندر سے علماء دین کے تئیں عزت و احترام کا جذبہ بھی ناپید ہو گیا ۔نتیجتاً مسلمان نہ صرف علماء کی قیادت سے محروم ہو گئے بلکہ اب نام نہاد سیاسی قیادت بھی نصیب نہیں ہے۔شاید انگریز بھی یہی چاہتے تھے ۔مسلمانوں نے سر سید کی علی گڑھ تحریک سے کیا کھویا ،کیا پایا ہمیں نہیں پتہ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ قیادت کے ساتھ ساتھ بصیرت سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور وہ اتنی تباہی کے بعد بھی دعا گو ہیں کہ الہٰی بھیج دے سر سید کوئی ۔اقبال کے لفظوں میں  

   ؎   وائے  ناکامی  متاع  کارواں  جاتا  رہا
     کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

عمر فراہی،231۔آدرش نگر،نیو لنک روڈ

،جوگیشوری(مغرب)ممبئی۔

4001020

9699353811 موبائل۔

ای میل 

umarfarrahi@gmail.com


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 630