donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Umar Farahi
Title :
   Masoom Dahshatgard

معصوم دہشت گرد


عمر فراہی


۱۶؍دسمبر کو پشاور ملٹری اسکول دہشت گردانہ کارروائی سے ایک دن پہلے ۱۵؍دسمبر کو صرف چوبیس گھنٹہ کے اندر امریکہ ،بلجیم اور آسٹریلیا سے اغوا اور قتل کی تین خونی واردات کی خبر منظر عام پر آئیں ۔ان میں سے امریکہ اور بلجیم سے آنے والی اغوا کی خبرصرف چند سیکنڈ کے لئے ہی میڈیا کی زینت بن سکی ۔جبکہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ایک کیفے میں عوام کو یر غمال بنائے جانے کی خبر عالمی صہیونی میڈیا میں کچھ گھنٹوں تک اس لئے نشر ہوتی رہی کیوں کہ اغوا کار ایک ایرانی نژاد مسلمان تھا ۔مگر جیسے ہی آسٹریلیا کی پولس اور وزیر اعظم نے خلاصہ کیا کہ اس کا تعلق کسی اسلام پسند تحریک یا دہشت گرد تنظیم سے نہیں ہے ۔عالمی میڈیا نے اس خبر کو بھی زیادہ دیر تک نشر کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی انگلش اور اردو اخبارات میں بھی اس واقعے کی مذمت میں حق کے علمبردار صحافیوں اور دانشوروں نے اپنے قلم اور ذہن کو جنبش دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی ۔شاید ہم اردو صحافیوں کو بھی شاطر اور صہیونی میڈیا کی طرح ایسی ہی سنسنی خیز خبروں کی تلاش رہتی ہے جو ۱۶؍دسمبر کو پشاور کے ملٹری اسکول میں مشتبہ دہشت گرد وں نے انجام دیا اور ہم نے بغیر کسی تحقیق اور علم کے موقع پرستوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسلام کا محاصرہ کرنا شروع کردیا اور جیسا کہ پوری دنیا سوگ میں مبتلاء تھی ہر شخص اپنے طور پر آنسو بہا رہا تھا ایسا محسوس ہو اکہ آسمان بھی خون کے آنسورونے لگے گا ۔تعجب ہے کہ ان آنکھوں میں اس وقت آنسو خشک ہو جاتے ہیں اور ان کے جذبات میں کوئی آگ نہیں لگتی جب نکسل وادی اور بوڈو دہشت گرد عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کی تمیز کئے بغیر پوری کی پوری آبادی کو آگ لگادیتے ہیں یا پھر جب طاقتور حکومتوں اور سوپر پاوروں کی طرف سے ایک پورے کے پورے ملک اور بستی کو ٹینکوں میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے روند دیا جاتاہے تو کوئی انہیں کافر،خارجی ،جہنمی اور یہودی کے لقب سے اس لئے نہیں پکارتا کیوں کہ جو کسی مذہب اور اصول و ضوابط کے پابند نہیں ہوتے انہیں سند حاصل ہے کہ وہ عراق ،شام اور فلسطین کو جس طرح چاہیں جہنم میں تبدیل کردیں ۔

یہ فریب اور دجالیت نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستانی دوشیزہ ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام سے نوازنے والے ملالہ کے اصل کارنامے کو تو نہیں بتاسکے مگر انہوں نے اس تقریب میں لڑکی کے خون آلود لباس کو سجا کر رکھنا اس لئے ضروری سمجھاتاکہ لوگوں کے ذہن میں اسلامی دہشت گردی کا عنوان تازہ رہے ۔خود معصوم اور مظلوم ملالہ بھی اپنے اس خون آلود لباس کو دیکھ کر جذباتی ہو گئی ۔پتہ نہیں اس لڑکی کے آنسو جاہل پاکستانیوں کو عالم بنانے کے لئے ٹپک رہے تھے یا پھر اس کے آنسو میں بھی ڈالر کی چمک اور احسان مندی کے اثرات تھے ۔جیسے کہ پاکستان اپنی اسی ڈرامے بازی سے امریکہ اور یوروپ کے ڈالر پر ہاتھ صاف کرتا رہا ہے اور صرف پاکستان ہی کیوں اپنے اپنے طور پر دنیا کے ہر ملک کی خفیہ ایجنسیاں علاقائی شورش اور علیحدگی پسند تحریکوں کو بدنام کرنے کے لئے اغوا اور قتل جیسی خونی واردات انجام دیتی رہتی ہیں ۔۲۰۰۴ میں روس کے شہر بسلان میں اسکولی بچوں کو یر غمال بنا کر ہلاک کرنے کا معاملہ ہو یا ممبئی ۱۱/ ۲۶ کا سانحہ اور کشمیر میں الفاران تنظیم کے ذریعے پانچ غیر ملکی باشندوں کے اغوا اور قتل کی کہانی اس موضوع پر روسی خفیہ ایجنسی کے مرحوم افسر الیکزنڈر لیتیکوف کے انکشاف سے لے کر ایس ایم مشرف اور برطانوی صحافی انڈرین لیوی اور کیٹی اسکاٹ نے اپنی اپنی تخلیقات ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘اور ’’میڈوس(Meadows )‘‘ میں تصویر کا الگ الگ رخ ہی بیان کیا ہے اور ان دہشت گردانہ واقعات میں حکومت کی اپنی ایجنسیوں کا کردار صاف نظر آرہا ہے
پشاور ملٹری اسکول میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد میں فرق ہو سکتا ہے انہیں شہید کئے جانے والے ہتھیار اور خنجر مختلف ہو سکتے ہیں مگر یہ کوئی پہلا خونی واقعہ تو نہیں ہے جس نے دہشت گردوں کی درندگی اور حیوانیت کو بے نقاب کیا ہو ۔ہماری آنکھوں نے اس وقت بھی آنسوبہائے تھے جب مصر کے تحریر اسکوائر پر احتجاج کررہے معصوم اور بے گناہ عورتوں ،بچوں اور ان کے باپوں کو رمضان المبارک کے مہینہ میں حالت نمازمیں شہید کیا ۔ظلم اور جبر کی یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،مصر کے فوجی حکمراں نے مردوں کے ساتھ ساتھ تقریباً چالیس کے قریب خواتین کو بھی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا بعد میں مصری عدالت نے گرفتار خواتین کو بھی دس دس سال قید کی سزا سنادی ۔ ان کی خطا یہ تھی کہ وہ مصر میں جمہوریت کی بحالی کے لئے احتجاج میں شامل تھیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے حالت جنگ میں بھی عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور معذوروں پر حملہ کرنے سے منع کیا ہے اور یہ خاص مرتبہ اسلام کو ہی حاصل ہے ورنہ اسلام سے پہلے دور جہالت کی جنگوں میں قومیں کسی اصول و اخلاق کی پابند نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کی تعلیمی اور سماج بیداری کے بعد مغرب نے اسلامی نظام سے ہی متاثر ہو کر تنظیم حقوق انسانی اور سلامتی کونسل جیسے باقاعدہ ادارے قائم کئے ۔ اس کے باوجود خود مغربی حکمراں اپنے ہی بنائے ہوئے اصول پر قائم نہیں رہ سکے تو کیوں؟ویتنام سے لے کر افغانستان،لیبیا ،عراق،اور فلسطین وغیرہ میں یہ تنظیمیں خاموش رہیں تو کیوں؟ آخر کتنی بار اور کن کن واقعات پر ہم اپنی پارلیمنٹوں اور اسکولوں میں سوگ منانے کا ڈرامہ کرتے رہیں گے ۔ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکومتی جبر اور تشدد سے دنیا میں ہر روز سینکڑوں بے گناہ اور معصوم افراد شہید ہو رہے ہیں ۔مگر ہم اسی وقت نیند سے بیدار ہوتے ہیں یا میڈیا اسی وقت حرکت میں آتا ہے جب امریکہ سے لے کر اسرائیل ایران پاکستان اور عرب حکمرانوں کا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگتا ہے ۔اسی پاکستان اور پشاور کے قریب فوجی ڈکٹیٹر مشرف نے لال مسجد کے مدرسہ جامعہ حفصہ پر حملہ کرکے سینکڑوں طالبات اور خواتین اساتذہ کو ٹینکوں اور میزائلوں سے شہید کر ڈالا تھا ۔ جبکہ اس مدرسے میں اگر کچھ ہتھیار بھی چھپاکر رکھے گئے تھے تو اسے محاصرے کے ذریعے بھی اپنے قبضے میں لیا جاسکتا تھا۔مگر مشرف کو امریکی حکمرانوں کے سامنے اپنی یہ تصویر بھی تو پیش کرنی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ ہے ۔اس کے بعد خود امریکہ نے پاکستان کی شہہ پر ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۶ کو خیبر پختونخوا کے ایک مدرسے پر ڈرون حملہ کرکے تقریباً سات سے سترہ سال کے اسی بچوں کو شہید کردیا ۔شہید ہونے والے بچوں میں تحریک طالبان کے موجودہ سربراہ مولانا فضل اللہ کا چھوٹا بھائی لیاقت بھی شامل تھا اور ادھر نومبر کے مہینے میں پاکستانی فوج ضرب عضب کے نام سے تقریباًپندرہ سو پاکستانی طالبانوں کو شہید کر چکی ہے ۔جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔اگر پشاور ملٹری اسکول کا سانحہ نہ پیش آیا ہوتا تو شاید ہم امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ دہشت گردی سے نہ واقف ہوئے ہوتے ،مگر خیبر پختونخواہ اور شمالی وزیرستان کے بچوں کی شہادت پر پوری دنیا میں کوئی سوگ نہیں منایا گیا تو اس لئے کہ یہ مدرسوں کے طالب علم اور دہشت گردوں کے بچے تھے ۔بچے بہر حال بچے ہوتے ہیں ۔ظلم چاہے بچوں پر ہو یا بچوں کے والدین پر متاثر تو بہر حال بچے ہی ہوتے ہیں ۔اسی طرح امریکہ نے پاکستانی خاتون سائنسداں عافیہ صدیقی کو گرفتار کرکے ان کے دونوں بچوں کو یتیم اور لاوارث بنادیا تو بھی ہم نے کوئی سوگ نہیں منایا تو اس لئے کہ یہ ایک دہشت گرد خاتون کے بچے تھے !اور ملالہ کے درد میں مبتلاء بین الاقوامی تنظیموں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں رہا کہ وہ ان بچوں کی کفالت اور خیریت کے لئے تھوڑا سا وقت نکال سکے۔یہی درد تو افضل گرو کی بیوی اور اس کے بیٹے نے بھی اس وقت محسوس کیا ہوگا جب حکومت نے ایک بیٹے کو اپنے باپ اور ایک عورت کو اپنے شوہر کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیا ۔ذرا غور کیجئے کہ جب عافیہ صدیقی اور افضل گرو کے بیٹے اپنے اپنے اسکولوں میں پشاور ملٹری اسکول کے شہید بچوں کی یادمیں سوگ منانے کے لئے کھڑے رہے ہوں گے تو کیا ان کے ذہنوں میں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ آخر اسکول کے اساتذہ اور بچے ہمارے درد کو بانٹنے کے لئے بھی کیوں نہیں کھڑے ہوئے ؟مگر ان سے کون کہے کہ ان کے خون میں دہشت گردی کا زہر بھرا ہوا ہے !


پشاور ملٹری اسکول کے دہشت گردانہ کارروائی پر جہاں سب نے اپنے اپنے طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا فلمی دنیا کے ایک مشہور اداکار نے بہت صحیح بات کہی کہ نفرت اور بغض کی لعنت اور ذہنیت سے پہلے انفرادی یا پھر ہمارے اپنے اندر سے شروع ہوتی ہے اور اس فساد کی جڑ کہیں نہ کہیں ہمارے سماجی اور معاشرتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی سے بڑا فتنہ ہماری جہالت اور فرقہ پرستی ہے جہاں ہر شخص خود کو مہذب تعلیم یافتہ اور دوسرے کو جاہل اور دہشت گرد سمجھتا ہے ۔سلمان رشدی ،تسلیمہ نسرین ،وی ایس نائیپال،اشوک سنگھل،توگڑیا اور دنیا کی سیکولر لبرل جمہوری اور فوجی حکومتیں سب اسی قبیل میں شمار ہوتے ہیں اور طاقت کے ذریعے اپنی مخالف قوم اور شورش پر قابو پانا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کی اپنی قومی اور مسلکی عصبیت کا زہر بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔ہر مسلک کا عالم خود کو مومن اور دوسرے کو کافر وہابی،بدعتی،تکفیری اور یزیدی سمجھتا ہے ۔افسوس تو یہ بھی ہے کہ ہماری کچھ درسگاہوں اورمجالس سے بھی اسی طرح کا برہمنی عقیدہ پھیلایا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھنا لازمی نہیں ہے اور اسے صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس طرح کچھ لوگ جو صوم وصلوٰۃ،زکوٰۃ اور حج کے ارکان کو ادا کرنے کے لئے اپنے بزرگوں اور علماء کی سنت پر انجام دیتے ہیں ان کا یہ عمل تو گمراہی کا سبب ہو ہی سکتا ہے ۔غور کیجئے کہ اگر یہی نظریہ جہاد اور قتال کے تعلق سے فیشن اختیار کر جائے اور پھر جب یہ علماء اپنے پیروکاروں کو جنت کی تصویر بتاکر ان کے سینوں پر بم باندھیں گے تو اس کا انجام کیا ہوگا ۔پھر بھی یہاں پر یہ اخلاقی جواز موجود ہے ۔ عاشق بھی معشوق کے ساتھ جنت کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔اس طرح جو اپنی موت کا فیصلہ بھی خود کرکے آیا ہو اس کے لئے پھانسی کی سزا بھی کوئی حل نہیں ہے ۔حل تو یہ ہے کہ ان معصوم دہشت گردوں کی بستیوں کو ڈرون طیاروں سے جہنم نہ بنایا جائے جو ہر روز دنیا کی طاقتور فوجوں کی طرف سے ہورہے ہیں اور ان کے لئے بھی انصاف کا راستہ تلاش کیا جائے۔

(دی انڈین پریس)

عمر فراہی۔

موبائل۔09699353811

ای میل

umarfarrahi@gmail.com

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 533