donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zaheeruddin Siddiqui
Title :
   Wazeer Azam Ki Lab Kushayi : Kufr TooTa Khuda Khuda Karke

وزیر اعظم کی لب کشائی  :کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے


ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد 9890000552   

 

    گذشتہ سال پارلیمانی عام انتخابات کے دوران جب وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی اپنی دھواں دھار تقریروں سے ملک کی عوام کو متاثر کررہے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے ایک نئے مودی نے جنم لیا ہے جس کا گجرات فسادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو صرف ترقی ، خوشحالی اور ایک ایسے بھارت کی تمنا رکھتا ہے جہاں مذہبی منافرت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔ ان کی تقریروں سے لگتا تھا کہ واقعی ہندوستانی عوام کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ۔ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ اس نعرے سے اس بات کا اشارہ مل رہا تھا کہ مودی جی ہندوستان کی ۱۲۵ کروڑ جنتا کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک کا غریب ،مزدور، کسان ، ملک کی ترقی میں برابر کا شریک ہو، اس کو بھی ترقی کے بھر پور مواقع میسر ہوں، ملک سے بد عنوانی کا خاتمہ ہو، مہنگائی پر قابو پایا جائے۔وہ نظام حکومت میں تبدیلی اور ہنر مندی کو فروغ دیکر اس ملک کی شبیہ کو ’’ اسکام انڈیا‘‘کے بجائے’’ اِسکِل انڈیا‘‘ میں تبدیل کر نا چاہتے ہیں۔ سیاست کو جرائم سے پاک کرنا چاہتے ہیں، ملک میں مائوں بہنوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ملک کا ایک اہم حصہ تسلیم کرتے ہیں،اور یہ سمجھتے ہیں کہ جسم کا کوئی عضو معذور ہو تو پورے جسم کو صحت مند نہیںکہا جاسکتا۔غرض یہ کہ مودی ایک ’وکاس پُرش‘ کے روپ میں اس ملک کو صحیح معنی میں ’سوراج‘ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ شائد اسی لئے ملک کی جنتا نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے فرقہ پرستی کے لئے نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لئے نہ صرف یہ کہ نریندر مودی کو کامیاب کیا بلکہ بی جے پی کو ایسی زبردست کامیابی عطاء کی جو گذشتہ دو دہائیوں سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو حاصل نہیں ہوئی۔ ورنہ اس سے قبل مخلوط حکومتوں کا سلسلہ تھا کہ تھمتا ہی نہیں تھا کسی ایک پارٹی کی اکثریت والی حکومت ایک خواب بن کر رہ گئی تھی۔ چونکہ پورے انتخابات صرف مودی کے نام پر ہی لڑے گئے، مودی ہی سب کی توجہہ کا مرکز تھے، پرنٹ میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک صرف مودی ہی مودی چھائے ہوئے تھے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وکاس اور ترقی کے نام پر بی جے پی کو مرکز میں مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت سازی کا موقع بھی ملا اور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بالاخر مودی جی کی حلف برداری ہو گئی۔


    لیکن مودی جی کی اصل آزمائش کی شروعات بھی وہیں سے ہوئی۔ اب عوام کو انتظار تھا کہ مودی اپنی کہنی کو کرنی میں کیسے تبدیل کرتے ہیں؟ کیسے اس ملک کو ترقی کی راہ پر لیجاتے ہیں؟کیسے اس ملک کو سوراج عطا کرتے ہیں؟ عوام کو دکھائے گئے سنہرے خوابوں کی تکمیل کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں؟ وغیرہ وغیر۔ عوام انتظار کرتے رہیں اور وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا،  ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ فرقہ پرستوں کی جیسے بن آئی ہو۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا جیسے وہ خود اقتدار پرقابض ہو گئے ہیں اور اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ چنانچہ ایک طرف سے آواز آئی کہ ۸۰۰ سالوں کے بعد اس ملک پرکسی ہندو کو اقتدار ملا ہے، اب ہندوستا ن ایک ہندو راشٹر بن جائے گا۔ کسی نے مہاتما گاندھی کے قاتل کو اس ملک کا ہیروں بنانے کی بات کی تو کسی نے نتھو رام گوڈسے کا مندر بنانے کا شوشہ چھوڑا،۔ کسی نے اپنی ہندو بہنوں کو پانچ پانچ تو کسی نے دس دس بچے پیدا کرنے کا حکم جاری کردیا۔کسی نے دھرم پریورتن کو لازمی قرار دیا تو کسی نے اسے گھر واپسی قرار دے کر عوام کو مطمئین کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے عیسائی کلیسائوں پر حملے کرنے کو جائز تصور کرلیا تو کسی نے مسجدوں کو دوبارہ مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔کسی نے دستور ہند کو بدلنے کی بات کی تو کسی نے دستور کی تمہید سے ’سیکولر اور سوشلسٹ‘ جیسے الفاظ ہدف کرنے کی اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ کہیں وندے ماترم پر اسرار تو کہیں سرسوتی وندنا کو لازمی قرار دیا گیا۔کوئی مہاتما گاندھی کے قتل کا کھلے عام اعتراف کر رہا ہے تو کوئی دہلی کے نو منتخب وزیر اعلی کو قتل کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ عوام جانتی ہے کہ ان سب باتوں کے لئے ملک کے چند فرقہ پرستوںکو ہی مورود الزام ٹھرایا جا سکتا ہے حکومت پر اس کی راست ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔ لیکن عوام اب اتنی بیوقوف بھی نہیں ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکے کہ ان باتوں پر حکومت کی خاموشی فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو کس قدر بلند کر رہی ہے۔ جس کے رہتے انہیں اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ وہ ہندوستان کی تکثیری وحدت کو خانوں میں بانٹ دیں اور سماج میں بین الفرقہ دوریاں پیدا کریں۔ فرقہ پرستوں کے ان عوامل کی طرف سے وزیر اعظم کا تجاہل عارفانہ ، اور اس کے خلاف لب کشائی سے پر ہیز ملک کی ترقی کے لئے سم قاتل ہے۔خود بی جے پی کے لئے بھی یہ دوہری پالیسی کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔ کانگریس کی اسی دوہری پالیسی والے میٹھے زہر کو پرکھنے میں ہندوستانی عوام کو ۶۰ برس لگ گئے لیکن اب حالات بدل گئے ہیںفرقہ پرستی کے اس کڑوے زہر کا اثر شائد ۶۰ مہینوں میں ہی عوام کو حکومت اوربی جے پی سے بد ظن کر دیگا۔ دہلی کے نتائج شائد اسی کی ایک جھلک ہیں۔ عوام کو ذات پات کی سیاست اور انتخابی وعدے نہیں بلکہ اپنے روز مرہ کے مسائل کا حل چاہیئے ۔
    ایک لمبے عرصہ کے بعد گذشتہ روز وزیر اعظم نریندرجی مودی نے اپنی زبان کھولی اور کہا کہ ’’ میری حکومت اس بات کو یقینی بنائیگی کہ ملک کے تمام مذاہب کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہو اور بغیر کسی دبائو کے ملک کے ہر ایک شہری کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کی پوری آزادی دی جائے،انہوں نے کہا کہ کسی بھی مذہب کے کسی بھی گروہ کو مذہب کی بنیاد پرتشدد کی اجازت نہیں دی جائیگی اور جو ایسا کرنے کی کوشش کریں گے انہیں سخت کاروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ میری حکومت مذہبی گروہ کو سر عام یا چھپ کر کسی بھی طرح کا تشدد برپا کرنے کی اجازت نہیں دیگی۔‘‘کاش مودی جی کا یہ بیان بہت پہلے آجاتا تو امریکی صدر کو یوم جمہوریہ کے موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کے ’ہندوستان اسی وقت تک ترقی کرتا رہیگا جب تک اس کی مذہبی رواداری کی شناخت باقی رہیگی‘۔ اور نیویارک ٹائمز کو یہ لکھنے کی نوبت نہیں آتی کہ’ ہندوستان میں اقلیتیں مذہبی تشدد کا شکار ہیں‘۔ویسے بھی ہندوستان جیسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے لئے یہ شرم کی بات ہے کہ کسی دوسرے ملک کا سربراہ ہمیں یہ درس دے کہ ہمیں اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔چاہے وہ سوپر پاور امریکہ کا صدر ہو یا کسی غریب دیش کا وزیر اعظم۔ بین الاقوامی سطح کا کوئی اخبار ہو یا پڑوسی ملک کا کوئی چھوٹا سا اخبار، انہیں اس بات کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ہمیں اُخوت اور بھائی چارگی کا درس دیں۔خیر’ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ‘کے مصداق جب مودی جی نے مذہبی تشدد اور فرقہ پرستی کے خلاف لب کشائی کر ہی دی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ آج انہوں نے یہ بات کسی چرچ کی تقریب میں کہی ہے کل وہ یہ بات ملک کی پارلمنٹ سے بھی واضح کر دیں گے کہ اس ملک میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی۔اب ہمیں ملک کے سبھی باشندوں کو ساتھ لیکراپنے وطن عزیز کو ترقی کی نئی منزلوں تک پہنچانا ہیں۔ اور صحیح معنی میں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کرکے اس ملک کو حقیقی ’’سوراج ‘‘ عطاء کرنا ہے۔


    zaheer.siddiqui@yahoo.com      9890000552                        

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 606