donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Na Qatra AasteeN Pe Hai Na Dhabba Zar Daman Me


نہ قطرہ آستیں پہ ہے ،  نہ دھبہ زیر دامن میں

 

زبیر حسن شیخ


 
بیسویں صدی  کے اہل خلیج کی کرشمہ سازیوں کے ساتھ ساتھ  انکی  حشرسامانیوں کا ذکر دنیا کی ایسی کون سی محفل ہے جہاں نہیں ہوتا ہوگا-   ان کی دانش پر جہاں اپنے اور پرایوں نے ملکر طنز کے تیر برسائے ونہیں فرنگی آج بھی انکی فراست اور حکمت عملی پرانگشت بدنداں ہیں، گرچہ ظاہر نہیں کرتے، کہ اہل بر صغیر اور دیگر مسلم ممالک  کے مقابلے  اہل خلیج  ،    خاص کر اہل حجاز،  کس سلیقے اور خوش خلقی سے مغربی سامراجی  قوتوں  اور انکی  سازشوں سے  بر سر پیکار رہے ، مغربی نظم و ضبط، تجربات اور مشاہدات سے ایک عرصہ تک فیض  بھی حاصل 

 کرتے رہے اور  بہترین صلہ اور معاوضہ بھی ادا کرتے رہے ،   کسقدر صبر و تحمل سے مغربی خارزاروں سے گل چینی کی  مگر کبھی انکے نظام چمن کو اپنی زندگی  کا  عنوان  بننے  نہیں دیا ، گرچہ ا ن مراحل میں انکی انگلیاں فگار بھی ہوئیں، قلوب زخم زخم ہوئے، اذہان متزلزل ہوئے، گریباں کبھی  اشکوں سے تر ہوئے تو کبھی خون آلود لیکن..... نہ قطرہ آستیں پہ ہے،  نہ دھبہ زیر دامن میں– اسکے برعکس دیگر مسلم ممالک نے جو کچھ کیا  وہ اہل علم و نظر سے پوشیدہ نہیں ہے  اور تاریخ میں مسلسل رقم بھی  ہوا ہے، اور جس کا خمیازہ آج بھی تمام مسلم ممالک بھگت رہے ہیں- بیسویں صدی کے وسط میں مغربی سامراج سے اکثر ممالک نے چھٹکارا پانے کا جو دعوی کیا تھا وہ جھوٹا ثابت ہوا.....  فی الحقیقت انہوں نے اہل مغرب سے چھٹکارا پایا تھا نا کہ انکے نظام سے، اور جس کا منہ بولتا ثبوت برصغیر اور مختلف مسلم ممالک کی موجودہ صورت حال ہے، جہاں آزادی کے نام پر فرنگیوں کو تو مار بھگایا گیا لیکن فرنگیت کو اور انکے نظام کو گلے لگایا گیا، بلکہ انکے نظام کو اپنی زندگی کا عنوان ہی بنا دیا گیا –  پھر ایک وقت ایسا   بھی آیا   کہ انکی   زندگی  خود  انکے  اپنے  ہاتھوں اجیرن کر دی گئی –

ہمارے ایک مغربی دوست پروفیسر تھامس کہا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کے اہل فکر و نظر دانش مندی سے کام لیتے تو آزادی حاصل کرنے کے بعد اہل برطانیہ کو انتظامیہ سے بے دخل نہیں کرتے، کم از کم نصف صدی تک، اور طوائف الملوکی کو نظام جمہوریت سے تدریجا تبدیل کرتے- بجا فرمایا تھا انہوں نے، لیکن وہ اس حقیقت کو قبول کرنے تیار نہیں ہوئے کہ اہل ہند کے پاس سینکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں پر مشتمل کامیاب نظام حیات موجود تھا جو تعصب کا شکار ہوگیا، گرچہ وہ نظام اصل نظام فطرت کی مسخ شدہ صورت تھی لیکن   وہ  موجودہ تمام  نظام مملکت    سے   زیادہ قابل ترجیح  تھا  اور آج بھی ہے،   کیونکہ دنیا کے موجودہ  تمام   نظام  ملکی ،    سیاسی اور شہری نظام  ہونے کا دعوی  تو کرسکتے ہیں لیکن نظام  حیات ہونے کا نہیں،  جبکہ  یہ   دعوی  نظام فطرت   ازل سے کرتا آیا  ہے -  اس  نظام  کی صورت  مسخ   کرنے کے  ذمہ دار بھی  کوئی اورنہیں بلکہ اس نظام کے رکھوالے ہی تھے-  الغرض  ایک منظم اور تجربہ کار مغربی انتظامیہ کے ذریعے  وہی نظام کامیابی کے ساتھ نافذ کیا جا سکتا تھا  جسے نظام فطرت کہا جائے تو شاید کوئی واویلا نہ مچے   اور اگر اسلامی  نظام حیات یا شرعی نظام کہا جا ئے تو مغرب زدہ اہل علم و نظرکے دماغوں میں دھماکے ہونے لگ جائیں- 

حجاز کے اہل دانش نے اس   حقیقت کو بیسویں صدی میں  ثابت کر دکھایا کہ نظام فطرت ہی قابل عمل و نفاذ  نظام حیات ہے جسے اسلا می نظام کہا جاتا ہے-  اس حقیقت کو بھی  جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ خلافت راشدہ کے بعد عموما اس نظام کو کما حقہ نافذ نہیں کیا گیا بلکہ صرف اس نظام حیات کے جسمانی اعضا کو بروئے کار لایا گیا ، اور اسکے روحانی لوازمات سے پہلو تہی کی گئی- با ایں ہمہ، اہل حجاز نے  نظام فطرت کو زندگی کے مختلف شعبوں میں نافذ کیا اور حکمت و فراست کا مظاہرہ کیا، مغربی تجربات  و مشا ہدات سے غیر متعصب ہوکر خوب فیض بھی حاصل کیا اور فراخد لی کا مظاہرہ کیا- اس حکمت و فراست میں انکے قوی ایمان و عقیدے کا ہات تھا – ورنہ یہی سب کچھ تو دیگر مسلم ممالک کے پاس بھی تھا اور اب بھی ہے، لیکن جو فرق ہے وہ اظہر من الشمس عیاں ہے- یہ اور بات کہ اپنی خفت مٹانے اور اپنی حماقتوں کے شہیتر پر پردہ ڈالنے 

کے لئے دنیا اہل حجاز کی تنکا  تنکا   حماقتوں سے پردہ اٹھاتی رہی –
 


ستر اسی کی دہائی سے ہی سعودی کے اخباروں میں کچھ ایسی سرخیاں نظر آتی تھی جیسے  "  good bye  expats..but you are ungrateful   ، جو بلکل بجا تھیں- واقعی غیر ملکیوں نے اہل حجاز کی اور سعودی مملکت   کی بدولت زندگی کی تمام آسائیشیں حاصل کیں، اپنی خدمات کے عوض ہی سہی ، لیکن اس بات سے کو ئی احسان فراموش ہی انکار کرے گا کہ انکے اپنے ملک میں روزگار کجا ضروریات زندگی کا حصول بھی مشکل تھا- آج بھی خلیج کی پروردہ بزرگ و جوان   غیر ملکی  نسلوں  کی خوش حالی انکے چہروں کی تابناکی سے عیاں ہے اور ان میں دنیا   کے مختلف ممالک کے   خاص  و عام  سب شامل ہیں  ........ ایسے  ہزاروں لوگ  ہونگے جنہوں نے اہل مغرب کو، چینی  نژاد حضرات کو ،  اہل برصغیر کو،  دنیا کے مختلف سیکولر ذہن کے حامل افراد کو، اور یہاں تک کہ سیکولر عربوں اور مغرب زدہ مسلمانوں کو خلیج میں فطرت کی نوازشوں سے مستفیض ہوتے دیکھا اور نظام فطرت پر اور اہل نظام فطرت پر طعنہ زنی بلکہ لاف زنی بھی کرتے دیکھا -  یہ سب انکے تعصب اور احسان فراموشی کی دلیل ہے ، اور ان میں  اکثریت مغرب زادوں   اور مغرب زدوں کی   رہی ہے - 
 
پچھلے پچاس ساٹھ برسوں میں سر زمین حجاز سے اس دنیا نے جومادی فیض حاصل کیا یہ کسی  کی   نظر سے پوشیدہ نہیں -  دنیا جب معاشی انحطاط  سے گزر رہی تھی تب یہی وہ ارض مقدس تھی جہاں سے خلیل الله کی دعاوں اور رحمت العالمین کی رحمتوں کے طفیل قدرتی وسائل کے سوتےپھوٹے، اور ساری دنیا خالق حقیقی کی بے شمار   رحمتوں اور نعمتوں سے شرابور کر دی گئی،  جو  آج بھی ہے -   یہ اور بات کہ دنیا ان نعمتوں کو اپنی خدمات کا صلا قرار دے یا اپنی قسمت کی مہربانیاں، یا اسے اہل مغرب کی دانش سے پیدا کردہ گنگا کا بہاو جس میں ہر کوئی ہاتھ دھونے اور اشنان کرنے بیٹھ گیا ہو،  یا پھر اپنے اپنے خداؤں کی، عقیدے کی اور آئیڈیولوجی کی کرم فرمائیاں- منہ ان کا نہیں ہے، شکر ورنہ....ہر بت کہتا کہ میں خدا ہوں -  الله تعالی   اپنے بندوں کو ہدایت دے.... یہ خدا اس وقت کہاں تھے جب ایڑیوں کی رگڑسے ایسے چشمے پھوٹے تھے کہ اہل علم آج تک ان چشموں  کی سائینسی توجیہات پیش کرنے سے قاصر ہیں،  اور حجاز معاشیات کا ایسا مرکز بنا دیا گیا تھا کہ ماہر معاشیات یہ عقدہ حل کرنے سے قاصر رہے -   الله والوں کی بے مثال بندگیوں کا صلہ تھا کہ خلق لبیک کہہ کہہ کر پروانوں کی طرح اس ارض مقدس پر واری نیاری جاتی رہی- ایک وقت وہ بھی تھا جب تیل کے کنویں وجود میں نہیں لائے گئے تھے، پھر بھی تجارتوں اور در آمدوں و برآمدوں کا سلسلہ جا ری تھا، اور آج بھی فی الحقیقت اہل حجاز کی اکثریت کی معاشی حالت کا دار و مدار اسی پر قائم ہے- ورنہ تیل کے کنوؤں سے خلیجی  شہزادوں کا غسل ماہ عسل   ہی کہاں تمام ہوپا تا ہے، نہ ان کنووں سے مغرب کی  نہ ختم ہونے والی  پیاس بجھ پا رہی ہے،  اور نہ ہی اجنبیوں کی خواہشات ان قطروں میں بھیگ پاتی ہے-    چند قطرے حرم کی تابناکی اور پاسبا نی   پر بھی  تبرکا چڑھا دیے جاتے ہیں اور  سمجھا جاتا ہے کہ  خالق حقیقی     کا حق ادا ہوگیا - کروڑوں حاجیوں کی مسلسل آمد و رفت سے اربوں کھربوں   کا لین 
دین ہوتا ہے جو دراصل  غریب عوام کی حاجات کی تکمیل کا با عث   بنتا ہے، اور یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے- جب دنیا جنگ و جدل، ظلم و جبر، جہل و قہر، استبداد او اسبتدال میں مبتلا تھی تب بھی اسی ارض مقدس سے عدل و انصاف اور علم و دانش کے سو تے پھوٹے تھے، جب انسا ن خود غرضی، قوم پرستی، عیاشی اور دیگر غیر اخلاقی برائیوں پر خود کو حق بجانب سمجھتا تھا  تب  فیاضی، سخاوت، خوش خلقی، بے غرضی اور خدا ترسی کے دریاوں  کا منبع بھی یہیں سے نکلا تھا-  ہاں اب وہ بات نہیں رہی لیکن پھر بھی کچھ بات تو ہے کہ نقش مٹتے نہیں انکے،  اور نہ ہی انکی  ہستی  - 

قرون خیر کے معاشرہ میں جس بہترین روحانی اور مادی توازن و تناسب کی بنیاد رکھی گئی تھیں اور جو مثالیں قائم کی گئیں تھیں وہ تدریجا انحطاط پذیر ہوتی گئیں،  اور ہرآنے والا دور اپنے پچھلے دور کے مقابلے روحانی زوال کی طرف گامزن رہا،  خطۂ حجاز  و خلیج بھی اس انحطاط سے مبرا نہیں رہا- اہل خلیج کے سلاطین و  امرا  و  رؤسا کی حشرسامانیوں کے تذکرے  پچھلی  صدی کے ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں سے کچھ محتلف بھی نہیں-  یہ اور بات کہ جہاں  "آداب فرزندگی"   اور" مکتب کی کرامتوں کا فیضان "  قائم رہا ونہیں "آیہ ان الملوک" کے رموز سے بے نیازی  برتی   گئی  -  لیکن یہ بھی  حقیقت ہے  کہ غلامی و محکومیت صرف خالق حقیقی کی رہی اور "سرمایہ داروں کی جنگ زر گری"،  "سکر کی لذت اور مکر کی چالوں " سے معاشرہ کی اکثریت ہمیشہ پاک رہی،  اہل ثروت غریبوں کو زکات ادا کرتے رہے،" کشت بنیاد کلیسا" کو " خاک حجاز " بننے نہیں دیا گیا،  "مومیائی کی گدائی " سے شکست کو بہتر جانا اور  ملک ہاتھوں سے جانے نہیں  دیا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ "خلافت راشدہ کی بنا"  ڈالنے سے قاصر رہے، "سطوت دریا " میں بہتے چلے گئے، "شکوہ ترکمانی"  کے طلسم سے آزاد نہ ہوسکے، زور حیدر، فقر بوذر  اور صدق سلمانی کے بجائے "تمیز بندہ  و آقا " اور کفالت و اجنبیت کے فساد میں الجھے رہے، "مصاف زندگی"  میں" سیرت فولاد"   پیدا نہیں کرسکے،   الغرض اپنے تمام اوصاف کے باوجود " اس عالم رنگ و بو میں خواہشات " کی طلب سے چھٹکارا نہ پا سکے، اسی  ایک "فسانۂ دنبالۂ محمل " کے سوا کو ئی نئی تاریخ رقم نہ کرسکے- وہ فقیر پیدا نہ کرسکے جن پر "اسرار سلطانی"   آشکار ہوتے اور نہ  ہی وہ  پرتو  فاروقی - الله تعالی اہل خلیج پر رحم فرمائے  اور انہیں بے انتہا نوازے، انہیں افرنگ کی زندیقی سے دور رکھے،  ان کے انداز ملوکانہ کو ردائے فاروقی عطا کرے،   انکی دلنوازیوں کو اہل ایمان کے حق میں اور تمام انسانیت کے حق میں فایدہ مند   کردے کہ اسی خطہ سے رحمتوں کے سوتے پھوٹے ہیں -


**********************************************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 554