donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Phir Aik Titli Chaman Me Zakhmi Hai Aaj


پھر ایک تتلی چمن میں زخمی ہے آج


زبیر حسن شیخ


وہ اعلی ترین تعلیمی سند حاصل کر صحافت کے چمن میں نئی نئی وارد ہو ئی تھی-  وہ جدید صحافت کے تمام حربوں سے لیس تھی- وہ ساری باتیں جو تہذیب جدیدہ میں شخصیت سازی کا حصہ ہوا کرتی ہیں اسے سکھائی گئی تھیں- اسے گفتار کی رفتار,  حجت و تکرار اور چیخ پکار کے رموز و نکات سے بھی واقف کرایا گیا تھا- وہ دل میں انکار اور زبان پر اقرار کی لطافتوں کا راز دوران تعلیم ہی جان چکی تھی-  بے باک خرد مندی اور محتاط جنوں سازی کے نشیب و فراز بھی اسے بتائے گئے تھے-  جھوٹ کے قفس میں سچ کو کیسے اور کیوں قید کیا جاتا ہے یہ بھی اسے سمجھایا گیا تھا –- کب پلے پڑا جاتا ہے اور کب پلو جھاڑا جاتا ہے اسے یہ بھی بتادیا گیا تھا-  اسے آسائیش، آرائیش اور فہمائیش کے اسباق بھی پڑھائے گئے تھے-  جدید صحافت کی دنیا اسکے من بھاتی تھی جہاں گلفام قبا چاک کر تہمتیں تراشتے اور بلبلیں گریباں چاک کر ہزار داستان ہوجاتیں- اسے برگد کی گھنی چھاؤں میں تحفظ حاصل کر بھنوروں کے ساتھ ڈالیوں پر منڈلانے کے متعلق سب کچھ بتایا تھا- اسے گلوں کے ساتھ ہواؤں کی دست درازی کے قصے بھی سنائے گیے تھے-   اسے طوفان کا تخمینہ لگانے کا فن اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے تمام طریقہ بھی بتائے گئے تھے- اسے سیاست کے طوفان میں درختوں اور ٹہنیوں سے لپٹ کر تحفظ حاصل کرنا بھی سکھایا گیا تھا – لیکن اسکے با وجود وہ اپنے تحفظ میں ناکام ہو گئی، اور ایک طوفان سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی -

ایک روز وہ اسی چمن میں زخم زخم ہو کر گر پڑی-  کیا کرتی،  آخر کار وہ تھی تو ایک معصوم تتلی ہی- تمام تر اچھی بری تعلیمات کے باوجود برگد کی چھاؤں میں جھلس گئی - شکر ہے جان بچ گئی اور روح تار تار نہیں ہو ئی- ورنہ ایسے طوفانوں میں عموما کچھ بھی ہوتا ہے، بلکہ بہت کچھ ہوتا ہے-  اسے سچائی کو برہنہ کرنے کے تمام حربہ  تو بتائے گئے تھے لیکن برہنگی کے دیگر پہلووں سے اسے دھوکے میں رکھا گیا تھا، اثرات کے پہلووں سے، تضاد کے پہلوں سے کہ ہر ایک اچھی بری چیز کو سمجھنے کے لئے یہ از حد ضروری ہے -  اسے یہ تعلیم نہیں دی گئی تھے کہ ایک طوفان اندر سے بھی اٹھتا ہے، گھنے برگد کے اندر سے بھی آٹھ سکتا ہے اور وہ آگ بھی اگل سکتا ہے-  بس اسی طوفان کا وہ شکار ہو گئی- بچ تو گئی لیکن بقول اسکے اسکی عزت آبرو جل گئی- اسے یہ پتہ تھا کہ اس چمنستان میں روز کتنے ہی طوفان آتے ہیں اور کتنی ہی تتلیاں بھنوروں کے ہاتھوں زخمی ہوتی رہتی ہیں، بلکہ برگدوں کی چھاوں سے بھی مجروح ہوتی ہیں- اسے یہ بھی پتہ کہ تتلیوں اور بھنوروں کی آنکھ مچولی دیکھ دیکھ کر برگد بھی تپ کر آگ اگلنے لگتے ہیں-  اسکی تعلیم تو یہی سکھاتی تھی کہ بھنوروں کے دئے گئے زخم تو پھول ہوتے ہیں، ان سے ملی خراشیں  مسحورکن ہوتی ہیں اور روح کو زخمی نہیں کرتی-  روح جسے وہ صرف اپنی زندگی، اپنی ذات، اپنی رضا، اپنی انا، سے ہی تعبیر کرتی رہی- اسے دوران تعلیم روح کا صحیح مفہوم بھی نہیں بتایا گیا تھا- چمن صحافت ہو یا صحرائے سیاست، دھرم کے پجاری ہوں یا تجارت کے کھلاڑی،  گلشن حیات میں معصوم تتلیوں کو امان کہاں ہے؟ کہیں بھی نہیں، کسی سے بھی نہیں- اس کی سہیلیوں میں اکثر کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ سب لب بستہ رہیں- جبکہ چند سہلیاں تو ایسی بھی تھیں جنہیں گھر کی تربیت نے روح کا مفہوم سمجھا دیا تھا - تعلیم نے ان کی بھی شخصیت سازی کی تھی لیکن ساتھ ساتھ گھریلو تربیت سے انکی کردار سازی بھی ہوئی تھی- وہ اپنی روح اور جسم کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ ایک لبادہ اوڑھے رہتی تھیں- معصوم تتلیوں کو لبادوں کی ویسے بھی سخت ضرورت ہوتی ہے، جو انہیں ہر قسم کے ظاہری اثرات سے تحفظ فراہم کرسکے، بھنوروں پھولوں اور کانٹوں سے ہی نہیں بلکہ برگدوں اور انکی شاخوں سے بھی، اور اندر اور باہر سے اٹھتے ہوئے طوفانوں سے بھی  تحفظ میں رکھے-

الغرض چمن میں برگد کی گھنی چھاوں نے آگ اگلی تھی اور تہلکہ مچ گیا تھا، ایک تتلی زخمی ہوئی تھی، برگد جو تحفظ کی علامت اور چارہ گری کی صفات کا حامل ہے-  ویسے یہ کوئی انہونی نہیں تھی،  ایسے سینکڑوں واقعات روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، لیکن اتنا واویلا نہیں ہوتا- ذرائع ابلاغ میں تو آدم خور برگدوں کی بھی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں جو اپنی ہی شاخوں اور پھولوں کو اندر ہی اندر نگل لیتے ہیں-  الغرض، گلستان حیات کے اکثر باغبان اور انسانیت کی چارہ گری کے دعویدار حرکت میں آگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پردہ سیمیں و رنگیں پر نمودار بھی ہوگئے- جیسے انہیں برگد کے آگ اگلنے کا علم ہی نہ ہو، اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ آگ کب لگتی ہے اورکیسے لگتی ہے، یا یہ کہ یہ آگ ہوتی کیا ہے- جیسے انکے گھروں میں چولہے جلے ہی نہ ہوں، اور کبھی آگ لگائی ہی نہ گئی ہو- جیسے تتلیوں کو ایسے زخم پہلی بار لگے ہوں- عجب طرفہ تماشا ہوا-  اب زخموں کی نئی پرانی تعبیریں اور تعزیریں تلاش کی جارہی ہیں- زخموں کو پھر سے ناپا اور تولا جائے گا، انکی نئی نئی گہرائیاں اور گیرایاں تلاشی جائیں گی- معصوم تتلیوں کے زخموں کا موازنہ کیا جائے گا اور نئی تعریف لکھی جائیگی- سیاست کے بھگوان صحافت کے علمبردارن اور انسانیت کے قانون دان، سب ملکر اس واقع کی وجوہات تلاش کر مختلف نام دینگے اورتاویلیں پیش کریں گے- ورغلانا، لبھانا، کسمسانا، دست درازی، دلفریبی، والہانگی، بے ساختگی، از خود رفتگی، بے سبب وابستگی، بے وجہ دلبستگی، دور طفلگی، تمہید شوق، تحریص خاص، ترغیب عام، ترکیب خام، تقریب نا تمام، حظ لطیف، لمس خفیف، آبروئے نسواں، آرزوئے سوختہ جاں، التفات ناگہانی، زنا بالرضا، اقرار بالجبر، انکاربلحیا اور نہ جانے ایسے کتنے ہی لفظوں اور اصطلاحات کی نئی تعبیریں اور تعذیریں لکھ کر اب تفتیش کی جائینگی-  جدید رموز و نقاط پر تبادلہ خیال بھی کیاجائیگا تاکہ ایسے برگد کو اکھاڑ پھینکا جائے-  ایسے کتنے برگدوں کو اب تک اکھاڑا جا سکا ہے اور کتنے برگدوں کی بیخ کنی کی گئی ہے- کیوں نہیں صیاد و گلفروش اور ظالم باغبانوں کو بھی بلا امتیاز سخت سے سخت سزا دی جائے اور اسکے ساتھ ساتھ فطری طریقہ سے سارے چمن کی آبیاری  کی جائے؟ کیوں نہیں تہذیب کو مصفا بھی کیا جائے؟ کیوں نہیں تعلیم میں گھلی زہر آلود آب و ہوا میں تبدیلی بھی لائی جائے؟ کیوں نہیں تربیت میں شخصیت سازی کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی کی جائے؟ کیوں نہیں تتلیوں اور بھنوروں کی حد بندی بھی کی جائے؟  گلشن حیات کی مٹی تو ازل سے زرخیز ہے.خیر کے تخم بووگے تو خیر ہی خیر..... ورنہ شر ہی شر ہوگا اور جس کا سرا بھی نہیں ملے گا-  


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 505