donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> Women Page
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shazia Andleeb
Title :
   Hejab Jadeed Fashion


حجاب جدید فیشن 


تحریرشازیہ عندلیب


ہالی وڈمیں ہونے والے فیشن شو نے پوری دنیا کو اس وقت چونکا دیا جب ماڈلز کی اکثریت نے نہ صر ف مکمل لباس بلکہ مختلف اسٹائلز میں حجاب بھی پہن رکھے تھے۔حجاب کی وجہ سے لباس اور شخصیت کی دلکشی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔حجاب جسے آجکل اسلامی لباس اور مسلمانوں کی ثقافت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ایک غلط نظریہ ہے۔یہ صدیوں سے ہر تہذیب اور مذاہب عالم میں خواتین کے لباس کا لازمی جزو رہا ہے۔ بلکہ اگر حجاب کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو صرف آج سے نصف صدی پہلے جنگ عظیم دوئم سے کچھ پہلے تک پوری دنیا کی مسلمان اور غیر مسلم خواتین کسی نہ کسی شکل میں سر کو ڈھانپتی تھیں ۔بلکہ مرد حضرات بھی سر کو ڈھانپا کرتے تھے۔مغربی اقوام میں مختلف اسٹائل کے دلکش ہیٹ مر دو زن میں مقبول تھے تو مشرقی اقوام میں اسکارف دوپٹہ اور چادر خواتین میں مقبول تھی۔ جبکہ مرد حضرات سرکو مختلف ٹوپیوں سے ڈھانپا کرتے تھے۔اس وقت زیربحث عوامی سطح پر سر کو ڈھانپنے کا رواج ہے ورنہ اگرمذہبی سطح پردیکھا جائے تو وہاں آج بھی وہی قدیم رواج و رسوم پادریوں راہب اور رہباؤں میں موجود ہے۔اسکی تازہ مثال پوپ پال اور مدر ٹریسا ہیں۔

زمانہ ء قدیم سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں سر کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کیے جانے والی اشیاء میں ٹوپی،پگڑی ہیٹ رومال اور کملی مرد حضرات میں مقبول رہ چکے ہیں۔نبی پاک کی کالی کملی کا ذکر اکثر نعتوں اور قوالیوں میں ملتا ہے۔جبکہ زمانہء قدیم سے مختلف ادوار میں بادشاہوں کے جو تاج تیار کیے جاتے تھے وہ بھی ٹوپیوں پر ہی جڑے ہوتے تھے۔یعنی کہ سر کو ڈھانپنے والا کپڑا دراصل عزت تو توقیرکی علامت ہے۔غالباً اسی لیے پاکستان میں جب کسی کی منت کرنا یا منانا مقصود ہو تو پگڑی کا واسطہ دیا جاتا ہے۔پھر سر کو ڈھانپنے کی افادیت طبی نقطہ نظر سے بھی ثابت ہے۔عرب ممالک میں سرکو ڈھانپنے کے لیے جو کپڑا استعمال ہوتا ہے اس سے نہ صرف طوفانی ہواؤں گرم موسم کی تپش بلکہ تیز دھوپ سے بھی سر اور بالوں کو بچانا مقصود ہوتا ہے جبکہ مغربی اور برفانی ممالک میں یہ کام اونی مفلر اور ٹوپی سے لیا جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ذیادہ تیز دھوپ بالوں کو سفید کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔اس قدر ذیادہ فوائد کے حامل رواج کو یعنی سر ڈھانپنے کے کپڑے کو مغرب میں پابندی ،تنازع اور بحث مباحث کا موضوع بنانا اچنبھے کی بات ہے۔وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ مغرب میں اور بالخصوص ناروے میں اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔پھر آخر مسلمان خواتین کا حجاب اسکارف یا پھر بورکینی جیسے لباس پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔سر کو ڈھانپنے کے کپڑے صرف کسی ملک یا کسی خاص گروپ کے رسم و رواج کا سمبل نہیں بلکہ مختلف ممالک کے موسم اور آب و ہوا کے پیش نظربھی ضروری ہیں۔پھر اور نہیں تو اب اسے فیشن کے طور پر ہی قبول کر لیں۔وہ گروہ اور لوگ جو حجاب پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں یا اسکے حامی نہیں ہیں انہیں پھر باقی ایسی ہی ملتی جلتی چیزوں کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے مثلاً سکھوں کی پگڑی،پادریوں کی ٹوپی،موسم گرماء میں پہنے جانے والے ہیٹ ،موسم سرماء کی اونی ٹوپیاں اورمغربی دولہنوں کے سر کی آرائشی جالیوں پر بھی پابندی لگنی چاہیے۔آخر مسلمان خواتین کے سر پر اوڑھے جانے والے کپڑے پر ہی اعتراض کی وں؟؟وہ بھی آج کے آزاد دور میں ہے نا عجیب بات!!ادھر مذہب پرستوں نے اسے مسلہء بنا لیا تو ادھر میڈیا نے بھی اس مسلہء کو خوب اچھالا تو مختلف تنظیموں نے حجاب ڈے منا کر اس ایشو کو خوب ہلا شیری دی۔لیکن یہ مسلہء اس وقت ٹھنڈا پڑ گیا جب ہالی وڈ جیسے فلمی ادارے کی جاگیر میں ماڈلز نے ایک پر حجاب فیشن شو کرڈالا۔سب کا جوش ٹھنڈا ٹھار پڑ گیا کہ جنہیں چڑانے کے لیے یہ مسلہء اچھالا جاتا تھا انہوں نے ہی حجاب کو ایک روائیت اور ایک مزہبی حق کی حد سے نکال کر ماڈرن اور جدید لباس کا حصہ بنا دیا تو پھر احتجاج کرنے والوں اور مسلہء کو اچھالنے والوں کے پاس اعتراض کے لیے کچھ بھی نہ بچا۔اب نہ تو کسی نے ہالی وڈ کے اس اقدام کی تعریف کی نہ جیت کی خوشی منائی اور نہ ہی اسے سراہا۔اس موقع پر ایک تازہ بہ تازہ مثال یاد آ گئی۔اوسلو کے مرکزی علاقے میں ایک پاکستانی صاحب بہت جوش و خروش سے تقریر کر رہے تھے۔تقریر کا موضوع اسلام مسلمان اور غیر مسلم تھا۔مقرر نہائیت جوش و خروش سے دنیا میں اور بالخصوص ناروے میں اسلام اور پاکستانی روائیت کی جیت کا ذکر کر رہے تھے۔انکا کہنا تھا کہ دیکھیں اب غیر مسلم بھی مسلمانوں کے تہواروں کو مان گئے ہیں اور انکا ساتھ دینے کے لیے محرم کے روز اپنی دوکانیں اور دفاتر بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔کسی نے ان مقرر سے بعد از تقریرپوچھا کہ محترم کیا کل محرم کے روزآپکی دوکان کھلی رہے گی۔مقررنے بڑے زور شور سے تائید کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ہاں جی ہماری دوکان کھلی رہے گی۔خیر ہالی وڈ کی ماڈلز کا حجاب لینے کے بعد کسی نے حجاب ڈے بھی نہ منایا بلکہ اب اس سے بھی سخت مذہبی احکامات کو لاگو کرنے کی تگ و دو میں لوگ مصروف نظر آتے ہیں اس طرح حجاب کا مسلہء تو حباب کی طرح بیٹھ گیا۔جب یہ نیا مسلہء حل ہو گا تو کسی اور مسلہء کی تلاش میں نکلیں گے۔پھر اسلام میں بات حقوق و فرائض کی ہو تو ہر تان عورت پر ہی ٹوٹتی ہے،معاملہ فرائض و ادائیگی کا ہو تو نشانہ صرف عورت کی ذات ہوتی ہے۔زور دیا جاتا ہے تو خواتین کے فرائض پر مگر عملی زندگی میں وطن عزیزمیں جس قدر پامالی،درندگی ،ظلم و بر بریت و تذلیل عورت کے ساتھ کی جاتی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔اس وقت عورتوں پر تنقید کرنے والے اور حدود نافذ کرنے والے ادارے اور افراد تنظیمیں بالکل چپ سادھ لیتے ہیں عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ہمارے معاشرے میں ظلم تشدد اور ذیادتیوں کے اصل اعدادو شمار ہی نا پید ہیں تو کنٹرول کس طرح ہو۔آخر یہ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اسلام خواتین کے تحفظ کے لیے پردے کے علاوہ کچھ اور بھی مانگتا ہے۔دین کی سر بلندی اور سرفرازی صرف عورتوں کو قید کرنے ان پر بے جا پابندیاں لگانے اور ان کے حقوق غصب کر کے انہیں حجاب اوڑھا دینے سے نہیں ہو سکتی۔مذہب کے علمبر داروں کو اس سے آگے بھی کچھ کرنا ہو گا اور معاشرے کی مظلوم عورتوں اور بچیوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے جو دنیا کے بدلتے حالات سے مطابقت رکھتے ہوں۔عورتوں کو عملی زندگی میں آنے کی اجازت دینا ہو گی۔مثال کے لیے حجرت عمر کی زندگی پر لکھی گئی عمر تلمسانی کی تصنیف کردہ کتاب شہید المحراب عمر بن الخطاب کے اقتسابات ملاحظہ کریں۔۔

حجاب کے بارے میں واضع طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ حجاب کے مخالفین اسکا بڑا غلط تصور پیش کرتے ہیں۔حجاب محض عورت کا پردے میں چھپ جانا اور سر کی چوٹی سے لے کر پاؤں کی ایڑی تک ہی اپنے آپ کو ڈھانپ لیناہی نہیں۔ نہ حجاب یہ ہے کہ عورت کو گھر کے کسی کونے میں بند کر دیا جاء ے جہاں سے نکلنے کی اجازت نہ ہو۔۔نہیں بلکہ حجاب یہ ہے کہ عورت با عزت طریقے سے اپنا ستر ڈھانپے۔باوقار اور سنجیدہ لباس پہنے اور غیر مردوں سے اپنی زینت کو چھپائے۔اس پر کسی ایسے شخص کی نظر نہ پڑے جو باعث فطنہ ہو۔

اسلام نے مرد و عورت دونوں کو انسان ہونے کی حیثیت سے برابری کا درجہ دیا ہے اور حقوق و فرائض کا متوازن نظام قائم کیا ہے۔امالمو منین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا دستکاری و حرفت جانتی تھیں۔وہ چمڑے کے نقش اور دباغت سے پیسہ کماتی تھیں اور اپنی آمدنی کو راہ خدا میں خرچ کرتی تھیں۔حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ تجارت کرتی تھیں اور اپنی آمدن اپنے خاوند اور بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔

حضرت عمر نے مارکیٹ میں ایک حصہ عورتوں کے لیے مختص کر دیا تھا۔اور اس پر ایک عورت کو نگراں مقرر کیا تھا۔بعض فقہائے اسلام نے عورت کو کو عورتوں کے مقدمات میں جج اور نگراں مقرر کرنے کی اجازت دی ہے۔قرون اول میں عورتیں جنگ میں بھی جاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج بھی کرتی تھیں۔

ان اقتسابات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کس حد تک لبرل اور معتدل نظام زندگی ہے۔اب رہا سوال حجاب کا تو یہ مسلہء اتنا ذیادہ مذہبی نہیں جتنا تجارتی اور تہذیبی ہے۔اس لیے کہ اگر مغربی خواتین میں حجاب کا فیشن زور پکڑ گیا یعنی کہ اسکارف گلے میں ڈالنے کے بجائے سر پہ استعمال ہونے لگا تو اس سے سب سے ذیادہ کاری ضرب ہیر ڈریسرز کے پیشے پر پڑے گی جو کہ خواتین کے بال نت نئے اسٹائلز میں تراش کر اپنی روزی کماتے ہیں۔امریکہ اور یورپین ممالک میں ہیر ڈریسنگ سے وابستہ افراد کا شمار امیر لوگوں میں ہوتا ہے اور پاکستان کی طرح انہیں نائی یا کوئی کمتر ذات نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ایک باعزت پیشہ ہے۔لہٰذا اس دولتمند پیشے سے وابستہ افراد کبھی بھی حجاب کو نہیں آنے دیں گے اس سے انکی روزی وابستہ ہے۔بڑی بڑی ماڈلز اور ہیر ڈریسرز لاکھوں ڈالرز اپنے بالوں کی آرائش پر خرچ کرتی ہیں۔ہیر ڈریسرز کی تنظیمیں ہیں انکے حقوق کے تحفظ کے لیے ۔اس لیے اس لیے حجاب کا فیشن انکے حقوق پر ڈاکے کے مترادف ہے۔

اسکا آسان حل یہ ہے کہ حجاب کی صنعت کو فروغ دیا جائے اور تمام ہیر ڈریسرز کو حجاب کے ڈیزائن بنانے کے کورسز کرائے جائیں تو ہواؤں کا رخ موڑا جا سکتا ہے اب کون آگے بڑھے گاّ آگے؟؟آپ یا میں ؟؟

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 727