donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Md. Abdul Rasheed Junaid
Title :
   Yamen Par Sayudi Qayadat Me Fazayi Karwayi - Aakhir Kiyon

یمن پر سعودی قیادت میں فضائی کارروائی۰۰۰ آخر کیوں۔؟


ڈاکٹر محمد عبدالرشید جنید

09949481933


یمن میں 25؍ مارچ سے سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک کی جانب سے فضائی کارروائی مسلسل جاری ہے اور یہ کارروائی کب تک جاری رہے گی اس کا اندازہ شائد ابھی کوئی نہیں کرپائے گا۔ یمن جہاں پر 30 فیصد شیعہ آبادی اور 70فیصد سنّی آبادی ہے ۔ شیعہ آبادی سے تعلق رکھنے والے حوثی قبائل کو سابق صدر علی عبداللہ الصالح کی حمایت و تعاون حاصل ہے جس کی وجہ سے حوثی قبائل  2012میں منتخبہ صدر عبد ربہ منصور ہادی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے انہیں دارالحکومت صنعا میں گھر پر نظر بند کردیا تھا وہاں سے صدر یمن منصور ہادی کسی طرح بچ بچا کر یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن چلے گئے تھے جہاں سے وہ صدارتی فرائض انجام دے رہے تھے لیکن مارچ میں حوثی باغیوں نے عدن کے اطراف و اکناف بھی قبضہ کرتے ہوئے ملک کے بڑے فضائی اڈے پر قبضہ جمالیا تھا جس کی اطلاع ملتے ہی صدرمنصور ہادی یمن سے فرار ہوکر سعودی عرب فرار ہوگئے  اور انہوں نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے مدد کی درخواست کی۔ سعودی عرب جو یمن کو پہلے ہی سے کئی مراعات دے رکھی ہے اور یمنیوں کے لئے سعودی عرب بے دریغ مالی مدد کرتا رہا ہے ۔ حوثی بغاوت کو اندازہ ہیکہ وہ سعودی عرب کی قیادت میں جاری فضائی کارروائی میں شکست سے دوچار ہونگے لیکن حوثی باغیوں کو ایک طرف ایران کا تعاون حاصل ہے تو دوسری جانب اسے سابق صدرعلی عبداللہ صالح کی ریپبلکن گارڈز اور فوج میں انکے حامی دستوں کا تعاون حاصل ہے جس کی وجہ سے حوثیوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نہیں چاہتے کہ یمن پر ایران کسی قسم کا رول ادا کرے۔ یمن میں حوثی بغاوت اور علی عبداللہ صالح کے کردار کو تقویت دینے کے لئے ایران پہلے ہی سے اندرونی طور پر تعاون کرتا رہا ہے ۔

یمن کی جنگ میں کون کس کے ساتھ:

یمن کی جنگ ایک طرف سعودی عرب کے جواں سالہ نئے وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کاامتحان بھی تصور کیا جارہا ہے۔ یمن میں شیعہ حوثی بغاوت کو کچلنے کے لئے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کا اتحاد اہم پیشرفت ہی نہیں بلکہ خطہ میں استحکام قائم کرنے اور مستقبل میں دوسرے ممالک میں کسی حکمراں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کے حوصلے پست کرنا بھی ہے۔ منگل کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرار دادمنظور کی گئی جس میں حوثی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس قرار داد سے قبل سمجھا جارہا تھاکہ روس اسے ویٹو کرے گا لیکن سلامتی کونسل میں 14ارکان نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ روس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اوراسکا حصہ نہ لینا بھی سعودی عرب کی تائید سمجھا جارہا ہے۔روس کے نمائندے ویتیلے چورکن قرار داد کی رائے شماری میں حصہ نہ لینے کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ روس کی طرف سے تجویز کردہ بعض نکات کو قرار داد کے متن میں شامل نہیں کیا گیاجس کی وجہ سے وہ رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔حوثی باغیوں کو ایران جس قسم کی بھی مدد کرتا رہا ہے اس کا علم امریکہ کو بھی ہے ۔ اب اگر ایران حوثی باغیوں کو کسی بھی قسم کا ہتھیار فراہم کرتا ہے تو ایران کے لئے نقصاندہ بات ہوگی۔ سعودی عرب نے پاکستان سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں برّی ، بحری اور فضائی تعاون اور مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی جس کے جواب میں 10؍ اپریل کو پاکستانی پارلیمنٹ نے متحدہ طور پر ایک قرار داد منظور کی جس میں یمن کے معاملہ میں پاکستان غیر جانبدارانہ رول ادا کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے فیصلہ پر ردّعمل کا اظہار کیا گیا ۔ پاکستانی اپنے غیر جانبدارانہ فیصلہ پر یہ سمجھ رہے تھے کہ ’’بھینس بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘جو ان پر صادق نہ آسکا۔ اور وہ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ غیر جانبدارانہ فیصلہ سے ایک طرف سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان بدظن ہونے سے بچ جائیں گے اور دوسری جانب ایران سے بھی اس کے روابط و تعلقات خوشگوار رہیں گے جو اس کی خام خیالی ثابت ہوئی ۔ پاکستان کے اس غیرجانبدارانہ فیصلہ پر سعودی فوجی ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اس کے فوجی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں جاری مہم پر اثر انداز نہیں ہوگا ، انہوں نے کہاکہ یمن میں باغیوں پر بمباری کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر پاکستانی فوج اس اتحاد میں شامل بھی ہوتی تو اس کا کردار مددگار کا ہی ہوتا،اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو جو اہمیت دی تھی اب اس کے پاس پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی ۔ جبکہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے پاکستان کے مبہم فیصلے پراپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس اہم مسئلے پر متضاد اور مبہم رائے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ سعودی عرب اور عرب امارات کی جانب سے پاکستانی فیصلہ کے جواب میں یہ جو ردّعمل آیا ہے اس سے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کئی سال تک سعودی عرب میں باوقار جلاوطنی کی زندگی گزرچکے ہیں اور جنکا وسیع تر کاروبار سعودی عرب میں ہے انہیں اندازہ ہوگیا کہ سعودی عرب اور عرب امارات و دیگر خلیجی ممالک اگر پاکستان پر سے شفقت بھری نگاہیں ہٹالیتے ہیں تو انہیں دوسرا در یعنی ایران کا منظورنظر بن کر کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا بلکہ اسکی اسے واقعی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے پیر کے روزاسلام آباد میں اپنے اہم وزراء ، عہدیداراور پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سے صلاح و مشورے کے لئے میٹنگ رکھی اور پھر نواز شریف نے یمن کے تنازع کے حل کو صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن قرار دیا۔ ویسے پاکستانی وزیر اعظم اور دیگر پاکستانی وزراء و عہدیدارجانتے ہیںکہ مذاکرات کا عمل صرف وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہاں ایک اور بات غور طلب ہے کہ پاکستان مذاکرات کی بات کرتا ہے اور یہ مذاکرات کس سے ہونے چاہیے اس کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اگرحوثی باغیوں سے مذاکرات ہے توکیا حوثی باغیوں سے سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک بات چیت کرنے کے عمل کو درست اقدام قرار دیتے ہوئے راضی ہوجائیں گے جبکہ سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی ممالک حوثی باغیوں کے ساتھ بات چیت کے عمل کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ سعودی اتحاد ایران کے ساتھ بات چیت کرے تو یہ مسئلہ مزید پیچیدہ نوعیت اختیار کرلے گا۔ پاکستانی حکمراں 10؍ اپریل کو متفقہ طور پر منظور کی گئی قرار داد کے ردّ عمل پر پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں اسی لئے پیر کے روز وزیر اعظم نے ایک میٹنگ منعقد کی اور اب چہارشنبہ کے روز وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کی  قیادت میں ایک اہم وفد سعودی عرب کا دورہ کررہا ہے اس وفد میں وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز اور سکریٹری خارجہ اعزاز چودھری شامل ہیں جو سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزداہ سعود الفیصل اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرکے اپنے موقف کی وضاحت کریں گے۔

سعودی عرب اور ایران

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم الحرمین الشریفین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم ایران کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔شاہ سلمان کے اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک ، ایران کے ساتھ تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتے اس کے باوجود اگر ایران حوثی باغیوں کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو یہ اسکے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی حوثی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔ یمن پر فضائی کارروائی میں حصہ لینے کیلئے اتحادی ممالک کا ساتھ دینے آزربائجان نے بھی اعلان کیا ہے۔ حوثی باغی اگر علی عبداللہ صالح کے بجائے عبد ربہ منصور ہادی کی صدارت کو قبول کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ یمن کے حالات بہتر ہونگے اور خطہ میں بھی اس کے اثرات مثبت نوعیت اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر ایران حوثی باغیوں کا ساتھ دیتے ہوئے خفیہ طریقہ سے مدد کرتا ہے تو اس سے حالات خطرناک موڑ اختیار کرسکتے ہیں اور اگر ایران علانیہ طور پر حوثی باغیوں کی تائید کرتے ہوئے میدان میں اترتا ہے تو اس سے حالات سنگین نوعیت اختیار کرسکتے ہیں، ایران جو کھل کر ابھی تک حوثی باغیوں کی تائید نہیں کیا ہے اس نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ سعودی عرب یمن میں نسل کشی کررہا ہے، ایران کا مطالبہ ہیکہ فوراً جنگ بندی ہونی چاہیے اور ایران نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ایران کی مدد سے یمن میں ایک نئی حکومت قائم کی جائے جس کے جواب میں ایک سعودی مشیر نے کہا کہ یہ تجویز ایسی ہے کہ اس پر کسی قسم کی گفتگو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سعودی عرب کسی صورت یمن کے معاملہ میں ایران کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا جبکہ ایران یمن میں اپنا اثر و رسوخ چاہتا ہے ۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک یمن میں امن و سلامتی بحال کرنا چاہتے ہیں اب اگر حوثی باغی ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو یہ یمن کے تمام عوام کے لئے بہتر ہوگا ورنہ یہ جنگ طویل بھی ہوسکتی ہے اور اس سے خطہ کے حالات شدید متاثر اور سنگین نوعیت اختیار کرلیں گے۔

عراق میں داعش کا انجام یا۰۰۰

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان کے مطابق گذشتہ آٹھ ماہ میں امریکی فضائی حملوں میں عراق کی سیکیوریٹی فورسسز کی کارروائیوں میں عراق میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے زیر قبضہ علاقوں میں سے چھ ہزار مربع میل کے علاقے خالی کروالئے گئے ہیں۔ داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی جوگذشتہ سال اپنی خلافت کا اعلان کرتے ہوئے شام اور عراق میں پیشقدمی کرتے ہوئے دہشت گرد سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ امریکی ترجمان کے مطابق شام میں دولت اسلامیہ کے قبضے میں علاقہ تقریباً اب بھی وہی ہے جو فضائی کارروائیاں شروع کرنے سے قبل تھا یعنی شام میں داعش ابھی مضبوط ہے۔ داعش نے جس طرح شام سے ہوتے ہوئے عراق میں اپنا قبضہ جمایا تھا اس میںاسے امریکی اتحادی فضائی حملوں کی وجہ سے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ داعش کے ساتھ یہ جنگ طویل مدتی ہوسکتی ہے۔ داعش کی خلافت کو تسلیم کرنے والوں میں اب بعض پاکستانی طالبان ، نائجریا کی بوکو حرام تنظیم اور دیگر تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

نائجریا میں طالبات کا اغوااور نئے صدر کا وعدہ

نائجریا میں گذشتہ سال 14؍ اپریل کو بوکوحرام کی جانب سے 219طالبات کا اغوا کیا گیا تھا ، ایک سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بوکو حرام نے ان لڑکیوں کو آزاد نہیں کیا جبکہ بوکو حرام کا کہنا ہے کہ ان طالبان نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ بوکو حرام کا مطلب ’’مغربی تعلیم حرام ہے ‘‘ہے بوکو حرام کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے نئے نائجریائی صدر محمد وبو ہاری نے وعدہ کیا ہے اب دیکھنا ہے کہ بوکو حرام کی سرگرمیوں کو وہ کس طرح ختم کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیںکیونکہ نائجریا میں بوکو حرام نے جس طرح دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ان سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لئے سخت آزمائشی دور سے گزر سکتی ہے اور اگر واقعی نئے صدر بوکو حرام کی سرگرمیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہیں تو یہ انکے لئے عالمی سطح پر اعزاز ہوگا۔

(یو این این)


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 563