donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Sajid Khakwani
Title :
   Aazar Baijan Ke Ilaqe Fazuli Par Armenica Ka Najayez Qabza


 آذربائجان کے علاقے ’’فضولی‘‘  پر آرمینیاکا ناجائزقبضہ

 

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

 

ڈھائی سوسے زائد ممالک پرمشتمل اس کرہ ارض پر’’عالمی برادری‘‘ سے مراد صرف امریکہ اور برطانیہ ہیں۔اور’’عالمی برادری‘‘ اس بات پر متفق ہے کہ دنیابھرمیں مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ان کاہر طرح سے استحصال کیاجائے۔پوری دنیامیں مشرق سے مغرب تک مسلمان اس ’’عالمی برادری‘‘کی چکی میں بری طرح پس کر اقوام متحدہ کے نام نہاد انسانی حقوق کاشکارہورہے ہیں۔ افریقہ، مشرق وسطی اورایشائے کوچک سمیت خود یورپی ممالک کے اندرسیکولر حکومتوں کی ناک کے نیچے جہاں دنیابھرکے تمام طبقات و مذاہب و اقوام کو مکمل تحفظ حاصل ہے وہاں زورزبردستی سے یابصورت دیگرقانون سازی سے مسلمانوں کو بری طرح دبائے رکھنے کی پالیسی پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کی دہلیزپرچکاچوندروشنیوں میں علوم معارف سے بھری دنیاؤں میں صرف مسلمان اقوام ہی سیکولرازم کے بدترین مظالم کا شکارہیں۔ ’’عالمی برادری‘‘نے بڑی چابکدستی سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کراقوام متحدہ کی قراردادوںکوکلیۃ مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کاایک طویل سلسلہ شروع کررکھاہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کے علاقوں پر فوج کشی کے ذریعے کشت و خون کو مباح سمجھ لیاجاتاہے اور کشتوں کے پشتے لگاکر نسلوں اور فصلوں کی تباہی انسانوں کامقدر بنادی جاتی ہے۔


کچھ اسی طرح کاکھیل مشرق بعید کی مسلمان ریاست ’’آذربائیجان ‘‘کے علاقے ’’فضولی‘‘ پرکھیلاجارہاہے۔اس علاقے کا نام آذربائیجان کی مقامی زبان ’’آذری‘‘ کے مشہور شاعر’’ محمدبن سلیمان فضولی (1494-1556)‘‘کے نام پر رکھا گیا۔ یہ بزرگ ہستی عربی،فارسی اور آذری زبان کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے بہت بڑے دانشور،محقق ،علم نجوم اور علم ہندسہ کے ماہر اور متعدد ترکی کتب کے مصنف بھی تھے۔ ’’فضولی‘‘کاعلاقہ آذربائیجان کے غرب نصف میں واقع ہے ۔اس کا صدر مقام بھی ’’فضولی‘‘نامی قصبے سے پہچاناجاتاہے۔کم و بیش 1400مربع کلومیٹررقبے پر محیط یہ علاقہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد نفوس انسانی پر مشتمل ہے۔اس آبادی کی اکثریت کاجرم یہ ہے کہ وہ کلمہ گوہیں اسی لیے ’’عالمی برادری ‘‘کی مجرمانہ غفلت کاشکارہیں۔1988ء میں آذربائیجان نے اس علاقے کے مکینوں کے تحفظ آزادی کے لیے آرمینیا سے جنگ مول لی۔یہ جنگ کسی نہ کسی نتیجہ پر ضرورپہنچ جاتی اگر یورپ کی فسادی تنظیمیں صلح جوئیوں کالبادہ اوڑھ کر درمیان میں نہ آتیں۔ ان کے بارے میں قرآن مجید نے صدیوں پہلے کہ دیاتھا کہ وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ{۲:۱۱} اَلآَ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ{۲:۱۲} ترجمہ:’’جب ان سے کہاجاتاہے کہ زمین میں فسادبرپانہ کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں، خبرداریہی اصل میں فسادی لوگ ہیں لیکن انہیں اس کا شعور ہی نہیں ہے‘‘۔ان صلح جو فسادی تنظیموں نے اپنا مکروہ اداکرنے میں پانچ سال لگادیے تاکہ مسلمان جنگ کی اس بھٹی میں بری طرح جلتے رہیں۔آخری اور فیصلہ کن کردار ماسکونے اداکیااور 1993 کے آخر میں ایک گرم جنگ ختم کرکے توسرد جنگ کا تنور سلگادیاگیاتاکہ مسلمانوں کے وسائل اس میں ایندھن کے طورپر کام آتے رہیں۔ اقوام متحدہ نے ’’عالمی برادری‘‘کے ہتھیار کے طورپر فضولی پر آرمینیاکے ناجائز قبضے کو قراردادنمبر874کے تحت تسلیم کر لیا۔ یہ تمام اقدامات اس حدیث نبویﷺکی تشریح ہیں جس میں کہاگیاہے کہ’’الکفر ملت واحدۃ‘‘کہ کل کفار ایک ہی ملت ہیں۔

’’فضولی‘‘کاضلع آذربائیجان کے خوشحال ترین علاقوں میں سے ایک تھا۔ 1959میں محمدبن سلیمان فضولی کی چارسوویں برسی کے موقع پر اس کا یہ نام تجویز کیاگیاتھا ۔زرعی پیداوار کے اعتبار سے اسے ریاست کے سب سے بڑے ضلعے کامقام حاصل تھا۔صنعتی اور تجارتی لحاظ سے بھی اس ضلعے کو آذربائیجان میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔فضولی میں ستر کتب خانے،بیس ثقافتی مراکز،تیرہ اسپتال دو عجائب گھر،کھیلوں کے اسٹیڈیمزاور کتنی کی سرکاری و نجی تعمیرات تھیں۔1968میں کھدائی کے دوران دریافت ہونے والی صدیوں قدیم نوادرات بھی اسی ضلعے کے ایک عجائب گھرکی زینت تھیں۔ہزاروں مربع میل کے وسیع و عریض علاقوں میں لائم اسٹون کے قیمتی میدان ہیں۔ سینکڑوں سالہ قدیم درختوں کے جنگلات اور زیرزمین میٹھے پانی کے بھرے ہوئے ذخیرے اس سرزمین کے سینے میں دفن ہیں۔ان سب کے علاوہ صدیوں قدیم مساجداور مسلماں کا چھوڑا ہواورثہ اس سرزمین کے سینے پر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کاامین تھا۔فضولی جیسی خوبصورت سرزمین کے کلمہ گو باسیوں پرپر 1988میں آرمینیانے فوج کشی شروع کردی جس کے نتیجے میں ہزارہالوگ مارے گئے یا ملک بدرہوئے یاگرفتارہوکر دشن کے قیدخانون میں سڑتے رہے یاپھر آج تک معذوری و محتاجی کی زندگی گزاررہے ہیں۔آرمینیاکی افواج نے سڑکوں کے کنارے لگے خوبصورت درختوں کو کاٹ کر اور سرسبزو شاداب فصلوں کو نذرآتش کر کے تو فضولی کے حسن کو گہنا دیا۔ اور 23اگست 1993کو اس خوبصورت علاقے پر اپنا تسلط مضبوط کرکے ناجائز قبضہ جمالیا۔اس قبضے کے کچھ ہی عرصہ بعدآرمینیانے ’’جبریلی‘‘نامی قصبے پر بھی فوج کشی کی اور اس پر بھی اپنے پنجے گاڑ دئیے اور حسب معمول’’عالمی برادری‘‘ اقوام متحدہ نے اس زورآوری کو بھی تسلیم کرلیا۔


بنی اسرائیل جب غلامی سے آزاد ہوئے تو انبیاء کی قیادت کے باوجودانہوں نے لڑنے سے اور جنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ دورغلامی کا یہ بہت بڑانقصان ہوتاہے کہ قوموں میں جذبہ حریت دم توڑ جاتاہے اور وہ لڑنے کے قابل نہیں رہتیں۔امت مسلمہ پر کم و بیش تین سوسالوں تک غلامی رہی اور آذربائیجان پر اس عرصہ غلامی میں ستر سال کامزید اضافہ اس پر مستزاد ہے۔ غلامی کے یہ اثرات کل امت مسلمہ میں دیکھے گئے ان کی افواج نے ہزیمت اٹھائی۔اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا کہ مسلمان حکمرانوں کے حرم کی تعداد ان کے رسالوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔دورغلامی کے اثرات شکست و ریخت کے عوامل کو اپنے ساتھ لاتے ہیں اورقوموں میں اتحادو یگانگت جیسے ناقابل تسخیرعناصرکو تعمیرہونے میں ایک وقت درکار ہوتاہے۔ابھی بھی وقت نہیں گزرا،جب تک امت مسلمہ اپنی دفاعی صلاحیت مضبوط نہیں کرتی اس کی بقا ہمیشہ خطرے میںہی رہے گی۔دشمن کبھی نہیں چاہے گا کہ ہم مضبوط ترہوجائیں کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔ہمیں تعلیم، روزگار، معاشی ترقی،معیارزندگی میںبڑھوتری اور آزادی نسواں جیسے کتنے ہی دلفریب نعروں کے ذریعے اپنے دفاع سے غافل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دشمن کو ہماری صفوں میں سے ہی ایسے متعدد افراد بھی میسر ہیں جن کے منہ میں دشمن کی زبان بولتی ہے۔ لیکن ہمارے نبی محسن انسانیتﷺنے پیٹ پر پتھر باندھ کراپنے دفاع کو مضبوط کیاتھا،حجرہ مبارک میں راشن نہیں تھا لیکن نو تلواریں دیوار کے ساتھ آویزاں تھیں،یہی سنت ہے اور یہی فطرت ہے اوراسی میں ہی مسلمانوں کی بقا ہے۔


مشرق و مغرب میں ’’فضولی‘‘جیسے تجربات کے بعد اب مسلمان ملکوں کی قیادت کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے خوبصورت نعرے اورجمہوریت کے دلفریب جال صرف مسلمانوںکو ہی شکارکرنے کے لیے بچھائے گئے ہیں۔ عثمانی ترک امیرالبحر ’’خیرالدین باربروسہ‘‘ کاقول ہے کہ جس کا سمندروں پر قبضہ ہوگادنیاپر اسی کی حکومت ہو گی۔ مذاکرات، صلح نامے، معاہدات، تعلقات باہمی کی یادداشتوں پردستخط اورعالمی و مقامی جمہوری وپارلیمانی اداروں میں ہونے والی لمبی لمبی تقریروںاور ان کے نتیجے میں اخباروں و نشریاتی اداروں میں واردہونے والے بیانات ،یہ سب دکھانے کے دانت ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی ایک ہی حقیقت ہے اور اس کا نام ’’طاقت ‘‘ہے،دنیامیں بلامبالغہ ہزارہا زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن صرف طاقت کی زبان سب قومیں سمجھتی ہیں۔آج اگر آذربائیجان طاقت کی زبان میں بات کرے تو اگلے ہی لمحے فضولی اور جبریلی سمیت تمام مقبوضہ علاقوں سے دشمن افواج ایسے غائب ہوں گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ سارے پورپ کی کرنسی ایک ہو سکتی ہے تو سب مسلمان ممالک کی ایک کرنسی کیوں نہیں ہو سکتی؟؟سارے یورپ کی خارجہ و دفاعی پالیسی ایک ہو سکتی ہے تومسلمان ایک ہی چھتری کے نیچے کیوں جمع نہیں ہوسکتے؟؟اور اگر ساری کفارمسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوکر لڑ سکتے ہیں تو آخر مسلمان ان کے خلاف کیوں نہیں اتحادکرسکتے؟؟۔غلامی سے آزادی کے بعد غلاموں سے آزادی کامرحلہ ابھی باقی ہے۔بہت جلد امت مسلمہ کی ایک جست ہی ان غلاموں کو ان کے آقاؤں کے پاس پہنچایاچاہتی ہے اور مشرق سے ابرنے والے سورج کی لالی سے افق روشن ہواچاہتاہے،انشاء اﷲ تعالی۔

(یو این این)


٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 464