donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Aalame Islam Barood Ki Dher Par


عالم اسلام بارود کی ڈھیر پر


مسلم ملکوں میں کیوں بڑھ رہی ہے دہشت گردی؟


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    عراق اور شام میں آگ لگی ہوئی ہے۔ یمن جل رہا ہے ۔ لیبیا سلگ رہا ہے۔مصر زندگی اورموت کے بیچ معلق ہے۔فلسطین کا مسئلہ ناسور بن چکا ہے۔افریقہ کے مسلم ممالک بارود کی ڈھیر پر ہیں اور نائیجیریا سے مالی تک کے حالات یکساں نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کراہ رہا ہے۔ پاکستان کے حالات غیریقینی ہیں۔بنگلہ دیش کسی بھی لمحے آگ لگ سکتی ہے۔ ترکی اور ایران میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور سازشی طاقتیں موقع کی تاک میں ہیں۔ الجزائر، چیچنیا اور بوسنیا کو ہم پوری طرح پرامن خطہ نہیں کہہ سکتے۔ دنیا کے بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں صورت حال انتہائی بدتر ہے اور یہاں رہنے والے ہرلمحے کسی انہونی کے احساس سے دوچار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ہی بدامنی کیوں ہے؟ یہیں سب سے زیادہ سیاسی مسائل کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ انھیں ملکوں میں بیرونی مداخلت کیوں ہوتی ہے؟ مسلم مالک میں جمہوریت کو فروغ کیوں نہیں ملتا اور یہاں کے شہریوں کو سیاسی آزادی کیوں نہیں ملتی ہے؟ آخر کون ذمہ دار ہے ،ان حالات کے لئے؟ خود یہاں کے مسلمان جمہوریت کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے یا پھربیرونی مداخلت اس کے لئے قصوروار ہے؟ آخر مسلم ملکوں میں ہی ڈکٹیٹرشپ کو فروغ کیوں حاصل ہوتا ہے اور شہریوں کے جمہوری حقوق کیوں پامال ہوتے ہیں؟ ایسی صورت حال یوروپی ممالک میں کیوں نہیں پیدا ہوتی؟برطانیہ میں صدام حسین، کرنل قذافی اور حسنی مبارک کیوں نہیں پیدا ہوتا؟ امریکہ میں سعودی عرب جیسی بادشاہت کیوں نہیں قائم ہوتی؟ فرانس اور جرمنی میںشام،یمن جیسے حالات کیوں نہیں بنتے؟ آخر ایسے حالات مسلم ملکوں میں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ یہ حالات خود بنتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں؟اس قسم کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح داعش اور القاعدہ جیسی جماعتیں بھی ہیں جو مسلمانوں کے بیچ پرورش پاتی ہیں اور جن کے کارناموں سے خود اسلام اور مسلمانوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجا تا ہے۔ آخر اس قسم کی جماعتیں مسلمانوں کے بیچ ہی کیوں ابھرتی ہیں؟ کیا اس کے لئے خود مسلمانوں کے نظریات ذمہ دار ہیں؟

عالم اسلا م کی صورت حال

    اس وقت عالم اسلام کے حالات انتہائی دھماکہ خیز ہیں اور ایک آدھ ملک ہی ایسا ملے گا جہاں کے عوام چین وسکون کی زندگی جی رہے ہوں۔ مسلم ملکوں میں سیاسی طور پر بھی شدید افراتفری ہے۔ عالم عرب میں سب سے زیادہ بے چینی ہے اور تشدد کے واقعات یہاں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ حالانکہ عراق پراتحادیون کے حملے سے قبل تک یہاں اگرچہ جمہوریت نہیں تھی مگرحالات اس قدر دھماکہ خیز بھی نہیں تھے۔ سیاسی آزادی کا فقدان تھا مگر عوام کم از کم سکون سے زندگی جی تو سکتے تھے۔ عراق میں امریکی مداخلت نے یہاں تشدد کی ابتدا کی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ روزبروز دراز ہوتا جارہا ہے۔ عراق کو امریکہ مخالف صدام حسین سے آزاد کرانے کے بعد مغربی طاقتوں کا مزید حوصلہ بڑھا اور انھوں نے لیبیا کو کرنل معمر قذافی، شام کا اسد سے آزاد کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ سازشیں تو انھوں نے ترکی اور ایران کے خلاف بھی کیں اور چاہا کہ یہاں بھی وہی بے چینی وبدامنی پیدا کریں مگر یہاں کے عوام اور جمہوری حکمرانوں کی حکمت نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ظاہر ہے کہ عرب اور سنٹرل ایشیا کے ممالک میں جو بے چینی ہے ، اس کے لئے مغرب ذمہ دار ہے جو چاہتا ہے کہ ان ممالک میں ان کا کوئی پٹھو حکومت کرے۔ یہاں سب کھیل تیل کا ہے اور شاید جب تک یہاں ’’سیال سونا‘‘ابلتا رہے گا،مداخلت کا کھیل بھی چلتا رہے گا۔ اس پورے خطے میں سعودی عرب محفوظ ملک اس لئے ہے کہ اس کے بادشاہوں نے مغرب کے اشارے پر چلنا سیکھ لیا ہے۔ سعودی عرب کا قیام ہی برطانیہ کے تعاون سے ہوا تھا اور اس کے بعد سے امریکہ ومغرب اس کی سرپرستی اور حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔ جو مغرب جمہوریت کی دہائی دیتے نہیں تھکتاوہی سعودی عرب کی بادشاہت کا سب سے بڑا سرپرست بن کر سامنے آیا ہے۔ حالانکہ جس قسم کے ڈکٹیٹر صدام، قذافی تھے یا حافظ الاسد ہیں ان سے بھی بڑے ڈکٹیٹر سعودی بادشاہ ہیں۔ مگر مغرب کا دوہرا پیمانہ یہاں کام کرتا رہا کیونکہ سعودی حکمراں مغرب کے وفادار ہیں لہٰذا اچھے ہیں اور جو ڈکٹیٹر مغرب کے مخالف تھے اور اس کی نہیں چلنے دیتے تھے، وہ اس کی نظر میںبرے رہے۔ظاہر ہے کہ یہاں تشدد اور دہشت گردی کی جڑ امریکہ اور مغرب کی مداخلت ہے۔ عوام کے جمہوری حقوق کو یہاں کے حکمرانوں نے ہمیشہ دبایا۔ عوام کی سوچ امریکہ اور مغرب کے خلاف ہے اور وہ اگر کسی حکومت کا چنائو کریں گے تو اس کی پالیسی بھی ان کے خلاف ہوگی۔ یہی سبب ہے کہ یہاں جمہوریت ہمیشہ سے مغرب کی نظر کا کانٹا رہی ہے۔ اس نے کبھی یہاں کسی جمہوری حکومت کو کام نہیں کرنے دیا۔ اس کی تازہ مثال مصر کے عوام کے ذریعے منتخب اخوان کی حکومت تھی جس کو ختم کرنے اور اس کی جگہ ایک ڈکٹیٹر کو لانے میں مغربی قوتوں نے انتہائی شرمناک رول ادا کیا۔ اس حکومت کے طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کے لئے بھی کئی خدشات تھے۔ دیکھا جائے تو یہاں کا سیاسی آزادی کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے لئے مغرب ذمہ دار ہے۔ اگر ان ملکوں میں جمہوری اور عوامی حکومتیں قائم ہوجائیں تو مسائل کے حل نکل سکتے ہیں اور تشدد کو روکا جاسکتا ہے۔ جن جن ملکوں میں بدامنی اور تشدد ہے وہاں غیرجمہوری حکومتیں ہیں یا بیرونی مداخلت نے حالات خراب کئے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال افریقی ملکوں میں بھی سامنے آرہی ہے جہاں تیل نکلنے لگا ہے۔ مغرب قوتوں کی قزاقانہ فطرت کا مظاہرہ ان سبھی ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں پٹرول نکلتا ہے۔ ان ممالک کے عوام خود اپنی پیداوار پر حق نہیں رکھتے جب کہ مغرب اسے لوٹ لے جاتا ہے۔

دہشت گرد تنظیموں کا ظہور   

    مغرب ان جماعتوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو اپنے ملک میں سیاسی آزادی کے لئے جدوجہد کرتی ہیں یا جو مغربی کٹھ پتلیوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ کچھ تنظیموں کے قیام اور مسلح کرنے میں بھی اس کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ جماعتیں جب تک اس کی وفادار رہیں،اچھی رہیں اور اس کی سرپرستی کی حقدار رہیں مگر جیسے ہی انھوں نے اس کے مفاد کے خلاف کام کیا، دہشت گرد قرار دی گئیں۔ آج داعش، القاعدہ اور طالبان کو مغرب کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعتیں قرار دیتا ہے اور ان کے خلاف جنگ پر ایک خطیر رقم خرچ کرتا ہے، مگر ان کی پیدائش مغرب کی ہی مرہون منت ہے۔ طالبان کو سویت روس کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ نے ہی مسلح کیا اور اس کی ہرقسم کی مدد کی مگر وہی جماعت آج اس کی ہٹ لسٹ میں ہے کیونکہ وہ آج افغانستان کی آزادی کے لئے لڑرہی ہے۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو پروان چڑھانے کا کام بھی امریکہ نے کیا تھا اور جب بوتل کا یہ جن باہر آگیا تو سب سے زیادہ خوف بھی اسی پر چھایا۔ افریقی ملکوں میں جو دہشگت جماعتیں فروغ پارہی ہیں وہ القاعدہ کی ہی شاخیں ہیں۔ اسی طرح داعش کو اس لئے مغرب نے پھلنے پھولنے میں مدددیا تاکہ حافظ الاسد کے خلاف اس کا استعمال کیا جائے اور اس خطے میںایران کے بڑھتے اثرات کو روکا جائے، مگر آج یہی اس کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ اسے سب سے دولت مند دہشت گردجماعت بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اس نے تیل کے کنووں پر قبضہ جمارکھا ہے۔   

مسلمان دہشت گرد یا دہشت کا شکار

    مسلمانوںکے خلاف دہشت گردی کا جس طرح سے پرچار کیا گیا،اس کا اثر آج عوام الناس کے ذہنوں پر صاف دکھائی دیتا ہے۔ مسلم ممالک میں جو حال ہے سو ہے ،مگر جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں بلکہ اقلیت میں ہیں وہاں بھی ان کی جانب شک وشبہے کے نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ بھارت سے لے کر امریکہ تک ہر جگہ مسلمانوں کے سروں پر دہشت گردی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ایئرپورٹوں پر ان کی سخت جانچ کی جاتی ہے۔ داڑھی اور ٹوپی کو دہشت گردی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کہیں بھی کسی قسم کے پرتشدد واقعے کو مسلمانوں کی جانب ہی منسوب کردیا جاتا ہے اور انھیں اس کے لئے ذمہ دار ٹھہراکر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔میڈیا ان کے جرائم کی جھوٹی داستانیں تیار کرتا ہے اور اسے اس طرح سے پیش کرتا ہت گویامسلمان پیدائشی دہشت گرد اور تشدد پسند ہوتے ہیں۔ حالانکہ جب یہی ’’فرضی مجرم‘‘عدالت سے بے قصور ثابت ہوتے ہیں تو میڈیا ان کی بے گناہی پر پندرہ سکنڈ کی خبر بھی نہیںدکھاتا۔میڈیا چونکہ ان کی ملکیت ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں پیش پیش ہوتے ہیں لہٰذا اگر ایک طرف داعش، القاعدہ، طالبان، الشباب اور بوکوحرام جیسی جماعتوں کی حرکتوں کو نمک مرچ لگاکر دکھاتا ہے تو وہیں مغرب کی ان تخریبی کارروائیوں کو نظر انداز کردیتا ہے جن کے سبب عراق،افغانستان، اور شام جیسے ممالک میں تباہی آتی ہے اور لاکھوں افراد موت کے کھات اتار دیئے جاتے ہیں۔  

ان حالات کے لئے مسلمان بھی ذمہ دار

    مسلم ملکوں میں جو کچھ ہورہا ہے اور مسلمانوں کی جو تصویر بن چکی ہے، اس کے لئے خود مسلمان کم قصوروار نہیں ہیں۔ اگر مغرب مسلم ملکوں میں ٹانگ اڑاتا ہے اور وہاں کے حالات خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا آلہ ٔ کار خود مسلمان بنتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کی جہالت کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنا فرض کیاہے مگر مسلمان دینی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس اور تیکنالوجی سے کافی دور ہیں۔ اگر مغرب ان پر حاوی ہے تو صرف اس لئے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے اور علم وحکمت میں دنیا کا پیشرو ہے۔ مسلمان فضول رسم ورواج میں پیسے ضائع کرنے میں کوئی قباحت نہیں جانتے مگر اسی پیسے کو قوم کی جہالت دور کرنے میں صرف نہیں کرتے۔ اگر وہ دانشمندی سے کام کرتے تو اپنے مسائل خود حل کرلیتے اور مغرب کو اپنے ملک میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے مگر ایسا نہیں ہوتاہے۔ مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے۔ خاص طور پر عرب ملکوں میں تو بے تحاشہ دولت ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ اس دولت کو تعلیمی اداروں کے قیام پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ آج تک مسلمان اپنا کوئی سلیقے کا میڈیا ہائوس نہیں قائم کرسکے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کا کاٹ کرسکے۔ اسلامی نام رکھ کر دہشت گرد تنظمیںجو کچھ کر رہی ہیں وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کی تصویر خراب کرنے میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔   

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 539