donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Qaroon Ke Khazane Par Musalmano Ka Bhi Haq Hai


قارون کے خزانے پر مسلمانوں کا بھی حق ہے


دولت کی نامنصفانہ تقسیم سے مسلم دنیا میں امیری اور غریبی کا فرق بڑھ رہا ہے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    دنیا بھر میں مسلمانوں کی معیشت عجیب وغریب صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف تو ارب پتیوں کی فہرست میں مسلمانوں کے نام بڑھتے جارہے ہیں اور ان میں بیشتر عرب ممالک کے شیخ ہیں تو دوسری طرف دنیا کے سب سے غریب اور بے روزگار بھی مسلمان ہیں۔ جن عرب ملکوں میں ساری دنیا کے لوگ روزگار کے لئے جاتے ہیں ،آج وہیں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ یہاں کے نوجوان بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔حالانکہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کہ عرب سے آتے ہیں اور مسلمان ہیں۔ یہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور عوام موافق پالیسی کی عدم موجودگی کے سبب ہورہا ہے۔جن لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہے وہ تیل کی دولت کو اپنی جیب میں ڈالتے جارہے ہیں جب کہ عام شہریوں کے ہاتھ کچھ نہیں لگ رہا ہے اور وہ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔مسلمانوں کے اندر بے روزگاری اور غربت صرف عرب ممالک تک محدود نہیں بلکہ وہ یوروپی ممالک میں بھی دوسروں سے پیچھے ہیں۔ حالانکہ ایک سچائی یہ بھی ہے کہ وہ عرب امراء جنھوں نے دوہری شہریت رکھی ہوئی ہے وہ موجودہ یوروپ وامریکہ کے قارون بنے بیٹھے ہیں۔

آج کے قارون

    امریکی بزنس جریدے’’فوربز‘‘ نے سال 2015ء  کے ارب پتیوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں گیارہ ممالک کے ایسے 45 مالدار لوگوں کو شامل کیا گیاہے ہیں جو عرب پس منظر کے ساتھ امریکا اور مغربی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ رواں سال کے کل 1826 ارب پتیوں میں سعودی عرب کے 10 ارب پتی بھی شامل ہیں جن کی مجموعی دولت 48 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔یہ دولت عرب ملکوں کے علاوہ مغرب میں بھی پڑی ہے۔لبنان کے نو ارب پتی پانچ خاندانوں کی اولاد ہیں جن میں سے ایک میکسیکو اور ایک برازیل میں مقیم ہے۔ ارب پتیوں کی فہرست میں مصر کے آٹھ دولت مند ہیں جن کا تعلق صرف تین خاندانوں سے ہے۔ ان میں سے ایک برطانیہ میں مقیم ہے۔ کویت کے پانچ دولت مند ایک ہی’’فیملی‘‘ کے افراد ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کے دو خاندانوں کے چار امراء بھی فہرست میں شامل ہیں۔عرب دولت مندوں میں مراکش کے تین، شام کے دو افراد بھی شامل ہیں جن میں سے ایک فرانس اور دوسرا برطانیہ کی شہریت بھی رکھتا ہے۔ الجزائر، عمان، سوڈان اور اردن کے ایک ایک ارب پتی بھی اس فہرست کا حصہ ہیں اور ان سب کی کل دولت 223 ارب 200 ملین ڈالر ہے۔عرب ممالک کے مغربی امراء کی فہرست میں اول10مقامات پانے والے ہر ایک فردکے پاس اوسطاً 150 ارب ڈالرکی دولت ہے جبکہ عرب ملکوں کی مجموعی دولت 158 ارب ڈالرہے۔ عرب امراء میں حسب معمول لبنانی کارلوس سلیم حلو سر فہرست ہے جولبنا ن اور میکسیکو کی شہریت رکھتا ہے۔ عرب ممالک کے امراء میں دوسرے نمبر پر59 سالہ سعودی ولید بن طلال ہیں جو 22 ارب 60 کروڑ ڈالر کی دولت کے ساتھ عالمی دولت مندوں میں 34 ویں نمبر پر ہیں۔چوتھے نمبر پرسعودی عرب کے محمد حسین العمودی ہیں۔ 68 سالہ العمودی کی کل دولت 10 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے جس نے انہیں عرب ممالک کا چوتھا اور پوری دنیا کا 116واں امیر ترین شخص بنادیا ہے۔عرب ممالک کے امراء میں متحدہ عرب امارات کے عبداللہ بن احمد الغریر بھی شامل ہیں۔وہ 6.4 ارب ڈالر دولت کے ساتھ عرب ممالک کے پانچویں امیر آدمی ہیں۔مصر کے چون سالہ نصیف ساویرس عرب ممالک میں چھٹے اور پوری دنیا میں 225 ویں دولت مند ہیں۔ ان کی مجموعی دولت 6.3 ارب ڈالر ہے۔متحدہ عرب امارات کے ماجد الفطیم 6.2 ارب ڈالر دولت کے ساتھ عرب ممالک کے ساتویں اور دنیا بھرکے 230 ویں دولت مند ہیں۔عرب ممالک کے ارب پتیوں میں سعودی عرب کے شہزادہ سلطان بن محمد بن سعود الکبیر آل سعود عرب ممالک کے آٹھویں دولت مند ہیں۔ 61 سالہ شہزادہ سلطان کی کل دولت 4.1 ارب ڈالر ہے اور عالمی امراء میں ان کا 405 واں نمبرہے۔مصر کے محمد منصور کی کل دولت چار ارب ڈالر ہے۔ اپنی دولت کے اعتبار سے وہ عرب ممالک کے نویں اور پوری دنیا کے 418 امیر آدمی ہیں۔عرب ملکوں کے 10 امراء میں محمد ابراہیم العیسیٰ بھی سعودی شہری ہیں۔ 90 سالہ العیسیٰ کی کل دولت 3.5 ارب ڈالر ہے۔ عرب ممالک میں ان کا دسواں اور پوری دنیا میں 497 واں نمبر ہے۔فوربز میگزین کی رپورٹ کے مطابق عرب ممالک کے 11 سے 20 تک دوسرے درجے کے امراء کی مجموعی دولت 39 ارب 700 ملین ڈالر ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سیف الغریر عرب دنیا کے گیارہویں امیر ترین ہیں۔ ان کی کل دولت 3.4 ارب ڈالر ہے۔لبنان کے سابق وزیراعظم 59 سالہ نجیب میقاتی عرب دنیا کے بارہویں امیر ترین ہیں اور ان کی کل دولت 3.3 ارب ڈالر ہے۔ متحدہ عرب امارات کے عبداللہ الفطیم 13ویں امیر ترین شہری ہیں جن کی مجموعی دولت 3.2 ارب ڈالر ہے۔ الجزائر کے اسعد ربراب کی دولت 3.1 ارب ڈالرہے، عرب دنیا میں ان کا نمبر14 واں ہے۔مصر کے یوسف منصور عرب ممالک کے 15 ویں امیر ترین آدمی ہیں جن کی کل دولت 2.9 ارب ڈالر ہے۔ سعودی شہری صالح عبداللہ کامل کی عمر73 سال، دولت 2.8 ارب ڈالر، عرب ممالک میں 16 واں نمبر ہے۔

سعودی عرب میں بڑھتی غربت

    سعودی عرب دنیا کے ا میر ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور اکثر لوگوں کے ذہن میں اس کا مطلب یہ آتا ہے کہ وہاں عوام بھی بہت امیر ہوں گے اور عیش کی زندگی گزار رہے ہونگے لیکن ایسا نہیں ہے۔سعودی عرب کے امیرترین ملک ہونے کے باوجود وہاں پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ غربت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ البتہ یہاں میڈیا پر پابندی ہونے کے سبب ملک کے سیاہ پہلو سامنے نہیں آپاتے ہیں۔دنیا کے دیگر غریب ملکوں کی طرح وہاں بھی کچی آبادیاں اور چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جن میں لوگ کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔یہاں بھی لوگ ایسے مکانات میں رہتے ہیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور وہ دوسروں کے خیرات وعطیات پر گزارہ کرتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے، جہاں عالی شان محلات ہیں اوران میں سے کچھ مکانات تو اربوں روپے مالیت کے ہیں لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کی بیس فیصد آبادی یا چالیس لاکھ کے قریب لوگ انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں لاکھوں افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ سعودی عرب کے مقررکردہ معیار کے مطابق جو افراد ساڑھے چار سو ڈالر مہینہ سے کم پر گذارہ کررہے ہیں ، وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گذارنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔دوسری جانب امدادی کارکنوں اور فلاح عامہ کے کام کرنے والے اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد وشمار یعنی بیس فیصد سے کہیں زیادہ ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، افراط زر ، کرایوں میں اضافے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ادھر حکومت کاکہنا ہے کہ ملک میںعوام کو صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات دی جاتی ہیںاور ایندھن پر سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔اس لئے یہاں غربت کا کوئی وجود نہیں ہے۔حالانکہ بوتل بند پانی 35 ریال فی لٹر ملتا ہے جو کہ ایندھن کے نرخوں سے بھی زیادہ ہے۔سعودی عرب میں دوتہائی نوکریاں بیرون ملک کے لوگوں کے پاس ہیں کیونکہ وہ کم اجرت پر بہتر خدمت انجام دیتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ یہاں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔

بھارت میں مسلمانوں کی معاشی حالت

    ہندوستان میں اکثر مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی حالت کو لے کر بحث ہوتی ہے۔مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو جاننے کے لئے بنی سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا ذکر کیا تھا۔اب مرکزی حکومت کے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا معیارزندگی سب سے نیچے ہے۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کے ایک مطالعہ ’’بھارت کے بڑے مذہبی گروہوں میں روزگار اور بے روزگاری کی حالت‘‘ میں پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کا معیارزندگی سب سے نیچے ہے۔ سروے کے مطابق مسلمانوں کا اوسط فی شخص روزانہ خرچ صرف 32.66 روپے ہے۔وہیں سکھ کمیونٹی کی حالت تقابلی طور پر بہتر ہے۔ سکھ برادری میں اوسط فی شخص یومیہ خرچ 55.30 روپے ہے۔ہندوؤں میں اوسط یومیہ ایک آدمی پر خرچ 37.50 روپے اور عیسائی کمیونٹی میں اوسط 51.43 روپے روزانہ ہے۔ اس سروے کے مطابق مسلمان دیہی اور شہری دونوں ہی علاقوں میں خرچ کے معاملے میںسب سے نیچے ہیں۔مسلمانوں کا دیہی علاقوں میں فی خاندان اوسط ماہانہ خرچ 833 روپے ہے جبکہ ہندوؤں کے لئے یہ اعداد و شمار 888، عیسائیوں کے لئے 1296 اور سکھوں کے لئے 1498 ہے۔وہیں شہری علاقوں میں بھی مسلمانوں کا فی خاندان اوسط ماہانہ خرچ سب سے کم 1272 روپے تھا جبکہ ہندوؤں کا 1797، عیسائیوں کا 2053 اور سکھوں کا 2180 روپے تھا۔حالانکہ بھارت میں بعض مسلمان مالدار بھی ہیں اور کثیر دولت کے مالک ہیں مگر ایسے لوگوں کا تناسب بہت کم ہے۔

مغرب میں مسلمانوں کی معاشی حالت

    مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے۔برطانیہ میں جو لوگ بے روزگار ہیں ان میں بیشتر مسلمان ہیں اور پاکستان وبنگلہ دیش سے آئے ہوئے ہیں۔حالانکہ بھارت سے آئے ہوئے ہندووں کے مقابلے یہ بے روزگاری زیادہ ہے۔یہاں اگر ۷فیصد سکھ اور ۵فیصد ہندو بے روزگار ہیں تو مسلمان ۱۳فیصد بے روزگار ہیں۔مسلم خواتین میں بے روزگاری کی شرح ۱۸فیصد ہے۔یہاں ۲۰فیصد لوگ کرایے کے مکانوں میں رہتے ہیں مگر مسلمان ۲۸فیصد کرایے کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اسپین میں رہنے والے مراکشی مسلمانوں میں ۴۲فیصد بے روزگار ہیں۔ ڈنمارک میں مسلمانوں کی آبادی ۵فیصد ہے مگر معاشی مدد کے خواستگاروں میں ان کا تناسب ۴۰فیصد ہے۔ یہاں کرسمس منانے کے لئے سرکار کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے اور اس کا مطالبہ کرنے والوں میں ۹۰فیصد مسلمان پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا میں غیرمسلموں کے اندر ۵فیصد سے بھی کم بے روزگاری ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر ۱۱فیصد ہے۔ان اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کی معاشی حالت نہ تو مشرق میں بہتر ہے اور نہ مغرب میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 572