donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Saudi Arab Par Dahshat Gardi Ke Saye


سعودی عرب پر دہشت گردی کے سائے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    داعش کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کامیاب ہوگی یا داعش اپنے خالق کو نگلنے میں کامیاب ہوجا ئے گا؟کیا شام اور عراق کے لئے خطرہ بن چکا داعش اب سعودی عرب کو بھی تباہ کرے گا؟ آج اس قسم کے سوال ساری دنیا میں پوچھے جارہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کو سعودی عرب نے دوسروں کو تباہ کرنے کے لئے پیدا کیا تھا آج وہ خود سعودی عرب کے لئے ہی خطرہ بن چکا ہے۔داعش اعلان کرچکاہے کہ اس کا دائرہ کار شام اور عراق تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ سعودی عرب کو بھی اپنے قبضے میں لے گا اور اپنی حکومت کی راجدھانی مدینہ منورہ کو بنائے گا۔ اس اعلان کے بعد سعودی عرب پر لرزہ طاری ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ داعش، القاعدہ اور اس قسم کی دیگر دہشت گرد جماعتوں کو خود امریکہ نے اپنے دشمنوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑا کیا، انھیں ہتھیار دیا ، تربیت فراہم کیا اور سعودی عرب نے فنڈ مہیا کیا۔آج یہی ممالک اپنی پیدا کردہ جماعتوں کے نشانے پر ہیں۔ اب خطرناک دہشت گرد تنظیم آئی ایس کے خاتمے کے لئے امریکہ، روس سمیت دنیا کے کئی طاقتور ممالک نے اپنی طاقت جھونک دی ہے۔ اس دہشت گرد تنظیم کو انسانیت کا دشمن قرار دیتے ہوئے دنیا کے کئی طاقتور ملک اسے مٹانے میں مصروف ہیں۔ اس جنگ میں کئی عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں سب سے اہم نام سعودی عرب کا ہے۔ حال ہی میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق ISIS کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کو پیسہ سعودی عرب کی طرف سے دستیاب کرایا جا رہا ہے۔ اس جنگ میں امریکہ کو قطر اور ترکی جیسے ممالک کی بھی حمایت حاصل ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کی دوستی کئی دہائیوں پرانی ہے اور 80 کی دہائی میں افغانستان میں روس کے خلاف ’’مجاہدین‘‘ کی امریکی مدد کے پیچھے بھی سعودی عرب کے ہی ریال کی حمایت تھی لیکن اس کہانی کا دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک طرف تو سعودی عرب ISIS کے خلاف جنگ میں امریکہ کی حمایت کر رہا ہے تو وہیں دوسری طرف وہ خود اس خطرناک تنظیم کی مالی مدد کر تا رہاہے۔ مانا جاتا ہے کہ ISIS کی پیدائش کے لئے سعودی عرب ہی ذمہ دار ہے۔ اس قسم کاالزام امریکہ پر بھی لگتا رہا جو وسط ایشیا کے تیل والے علاقوں پر قبضہ جمانے کے لیے ڈبل گیم کھیلتا رہا ہے۔

سعودی عرب اور امریکہ کا ڈبل گیم؟

    اب بھلے ہی امریکہ، شام میں ISIS کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہے اور سعودی عرب نے بھی دہشت گردی کے خلاف مہم میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ملک اس خطرناک دہشت گرد تنظیم کے ابھر کر سامنے آنے کے لئے ذمہ دار ہیں۔ شام میں شیعہ حکمران بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے سعودی عرب نے بشار کے باغی سنی دھڑوں کو رقم اور ہتھیاروں سے جم کر مدد پہنچائی۔ اس کام میں امریکہ بھی شامل تھا، جس نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ان باغی دھڑوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ ساتھ ہی امریکہ نے عراق میں ISIS کے اثر کو بڑھانے میں بھی مدد کی تاکہ اس ملک کے اوپر بڑھتے ہوئے ایران کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ عراق اور شام میں امریکہ اور سعودی عرب سے ملی رقم اور ہتھیاروں کی مدد کے بل پر آہستہ آہستہ ISIS دنیا کا سب سے خطرناک دہشت گرد گروپ بن بیٹھا۔چند فوائد کے لئے کھڑا کیا گیا یہ دہشت کا عفریت اب امریکہ اور سعودی عرب کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ بن گیا ہے اور اپنے خالق کو ہی نگلنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ اسی لئے اب امریکہ اور سعودی عرب اس تنظیم کے خاتمے کے لئے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں یعنی کہ یہ دونوں ملک ایک طرف دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن پردے کے پیچھے خود ہی اسے پیدا بھی کرتے ہیں۔

پہلے دہشت گرد پیدا کرو اور پھر ان سے لڑو

    القاعدہ کو سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی فنڈنگ کی بات تو خود امریکہ نے بھی مانی تھی۔ القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن خود سعودی عرب کا شہری تھا۔9/11کے حملے میں سعودی شہری شامل تھے تو دسمبر 2015 میں امریکہ کے کیلی فورنیا میں فائرنگ کے واقعہ کو انجام دے کر 14 افراد کی جان لینے والے میاں بیوی کا کنکشن بھی سعودی عرب سے ہی تھا۔ پیسے اور فوجی طاقت کے معاملے میں دنیا کے دو مضبوط ممالک امریکہ اور سعودی عرب نے اپنے مفاد کے لئے پہلے دہشت گرد تنظیموں کو کھڑا کرنے اور پھر مٹانے کا کام بار بار کیا۔ اب یہ دونوں یہی کام ISIS کے معاملے میں بھی کر رہے ہیں۔افغانستان میں سویت یونین سے لڑنے کے لئے ان ممالک نے جن جماعتوں کو مسلح کیا تھا اور روپئے پیسے سے مدد کی تھی آج انہیں جماعتوں سے انھیں یہاں لڑنا پڑ رہاہے۔ افریقی ملکوں میں بھی دہشت گرد جماعتوں کو کھڑا کرنے کا کام انھیں ملکوں نے کیا تھا۔ یہ معاملہ ایک ناول کی کہانی جیسا ہے جس میں ڈاکٹرفنسطین دوسروں کے لئے ایک عفریت پیدا کرتا ہے مگر وجود پانے کے بعد وہ عفریت سب سے پہلے اپنے ہی خالق کونگلنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ سعودی عرب نے خود کو اچھا مسلمان ثابت کرنے کے چکر میں ایک انتہا پسندانہ مذہبی فکر کو پروان چڑھایا جو اسلام کے راہ اعتدال سے الگ تھی اور آج یہی دنیا کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ 

آئی ایس کو کیوں کھڑا کیا؟

    اس وقت سعودی عرب خود اپنے ہی پیداکردہ عفریت سے خوفزدہ ہے کیونکہ وہ پنے خالق کو نگلنے کے لئے منہ پھاڑے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔حالانکہ دنیا کے بعض ممالک مانتے ہیں کہ سعودی عرب نے آج بھی دہشت گردی کی حمایت روکی نہیں ہے۔ جرمنی کی ایک خفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی تیزی سے بدل رہی ہے۔ وہ ایک علاقائی سنی ملک کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے لہٰذا ایران کے اثرات کو کم کرنے کے لئے شام میں صدر بشار الاسد کو ہٹانے پر تلا ہوا ہے اور اسی مقصد سے اس نے آئی ایس آئی ایس کو کھڑا کیا تھا۔ سعودی عرب کی گھبراہٹ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ایران کے تعلقات ان دنوں امریکہ کے ساتھ اچھے ہوگئے ہیں جب کہ ماضی میں اس کی ایران سے نہیں بنتی تھی اور وہ جاوبے جا طور پر سعوی عرب کی کی حمایت کرتا تھا۔ اب ایران کے ساتھ تعلقات میں سدھار کے بعد امریکہ دونوں پہلو کو برابر کرکے چلے گا تاکہ دونوں ملکوں کو خوش رکھ سکے۔سعودی عرب کے تحفظ کی ذمہ داری پہلے اس کے بانی برطانیہ پر تھی مگر اس کے بعد یہ کام امریکہ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔اب جو حالات بن رہے ہیں اور جس طرح سے امریکہ کی معاشی حالت پتلی ہوتی جارہی ہے ،اسے دیکھتے ہوئے سعودی عرب محسوس کر رہا ہے کہ امریکہ اب طویل مدت تک مشرق وسطی میں فوجی تحفظ نہیں دے پائے گا۔یمن میں فوجی مداخلت کے ذریعے سعودی عرب یہی ثابت کرنے میں لگا ہے کہ علاقائی سیاست میں دبدبہ حاصل کرنے کیلئے وہ ہر طرح کی فوجی، مالی اور سیاسی خطرات اٹھانے کو تیار ہے۔

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

     سعودی وزیردفاع پرنس محمد بن سلمان اعلان کرچکے ہیں کہ اپنے آپ کو ’’اسلامی خلافت‘‘ کی دعویدار کہنے والی ’’آئی ایس‘‘ کی اب خیر نہیں۔بلکہ صرف آئی ایس ہی نہیں، ایسی ہر دہشت گرد تنظیم کی اب خیریت نہیں ہے جو ہمارے سامنے آئے گی۔ اپنے ملک کے وزیر دفاع کے طور پر انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ اسلامی دنیا کو بھاری نقصان پہنچا رہی ،دہشت گردی نام کی بیماری کوختم کرنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں 34 ملکوں کا ایک دہشت گردی مخالف اتحاد بنا ہے اور سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض اس کا ہیڈکوارٹر ہوگا۔ سعودی عرب کے علاوہ باقی 33 رکن ممالک میںبیشتر چھوٹے اور کمزور ممالک ہیں اس فہرست میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیااور شیعوں کی اکثریت والے ایران، عراق کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔اس میں پاکستان کا پڑوسی ملک افغانستان، ساحلی عرب ملک عمان اور شمالی افریقہ کے اہم عرب ملک الجزائر کا نام نہیں ہے۔اس وقت اہم سوال یہی ہے کہ جب لڑنا تھا تو ان جماعتوں کو پیدا کیوںکیا؟انھوں نے پہلے کیوں نہیں سوچا کہ کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں ہوتا ہے؟


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 475