donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Arshad Faizi Qasmi
Title :
   Nepal : Hukumat Aur Awam Ke Darmiyan badhte Faasle

 نیپال : حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے فاصلے


محمد ارشد فیضی قاسمی


آخر وہی ہوا جس کے خطرے نے پورے نیپال میں خونی جنگ کی صورت حال پیدا کر دی تھی ،آپ کو یاد دلادیں کہ گزشتہ دنوں نیپالی حکومت نے دستور سازی کے جدید مسودے کو پارلیامنٹ سے منظور کراکر نیپال کی حقیقی جمہوریت کا اعلان کر دیا ہے اوروہ  لمبے عرصے تک تذبذب اور عوامی دباو کا شکار رہنے کے باوجود مفاد عامہ اور عالمی برادری کے مشورے کو نظر انداز کر کے قانون سازی کے نئے مسودہ کے نفاذ کو حتمی شکل  دینے کے بعد پچھلے دو دنوں سے دیوالی کی طرح جشن منا نے اور تالیاں پیٹنے میں مصروف ہے اور بظاہردنیا کویہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اب نیپال مکمل جمہوریت کی چادر میں لپٹ کر مستقبل کے لئے رخت سفر باندھنے کے لئے تیار ہے ،لیکن اگر اس منظر نامے میں نیپال کی تازہ صورتحال کا جائزہ لیں تو وہیں دوسری طرف اپنے حقوق کے لئے نئے آئین کی مخالفت کو لے کر نیپال کے دو درجن سیزائد ضلعے میں جاری مظاہرے اور تشدد اب نہ صرف پہلے سے کہیں زیادہ  تشویشناک رخ اختیار کر تے جا رہے ہیں  ,بلکہ اب سے ایک ماہ قبل اپنے حقوق کی بقا کے لئے ملک کی اقلیتوں میں شمار کئے جا نے والے مدھیشیوں نے جس آئینی جنگ کی شروعات کی تھی آج دودرجن سے زائد لوگوں کی جا نیں چلی جانے اور ہزاروں لوگوں کے فاقہ کشی کا شکار ہو جانے کے باوجود ابھی تک اس کی لو کسی بھی طرح کمزور پڑتی دکھائی نہیں دیتی اور اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ اگر عالمی برادری نے اس معاملے میں مداخلت کر کے حکومت اور عوام کے بیچ مضبوط تال میل کا کوئی مناسب راستہ نہ اپنا یااور جمہوری قانون کی روشنی میں وہاں کی عوام کو یکساں حقوق دلانے کے لئے عملی پیش رفت نہ کی تو نیپال ایک بار پھربد ترین سیاسی بحران کا شکار ہوکر افرا تفری اور غیر یقینی حالات کے نرغے میں پھنس جائے گا ،ادھر ذرائع سے موصول ہوئی تازہ رپورٹ کے مطابق آئے دن نیپال کے اندر جاری رہنے والے مظاہروں اور ہڑتالوںکی وجہ سے ملک کے ترائی علاقوں کی صورت حال اس قدر بد سے بد تر ہوچکی ہے کہ اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا ،خبروں کے مطابق کل تک جو علاقے روشنی سے جگمگاتے تھے ان پر اندھیرے کی حکمرانی قائم ہے اور جن سڑکوں پر آمد ورفت کی کثرت سے نیپال کی زندگی کا احساس ہو تا تھا ان  پر ایسا خوفناک سنا ٹا چھا چکا ہے جو نیپال کی تباہ کن صورتحال کو ظاہر کر رہا ہے،آپ کو یاد دلادیں کہ ابھی کچھ دن پہلے نیپال کے اندر آئے زلزلے نے یہاں کی روز مرہ زندگی کے اندر بھیانک تباہی مچائی تھی اور اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زندگی کی جنگ ہار گئے تھے اور نہ جانے کتنے لوگوں کی خوشیاں چھین گئی تھی ،ابھی اس کے تکلیف دہ دور سے یہاں کی عوام نکل بھی نہیں پائے تھے بلکہ یہ کہ لیا جائے کہ عام انسانوں نے ذرا سنبھلنا شروع کیا تھا کہ ایک ماہ سے زائد عر صے سے جاری مظاہرے اور ہڑتال نیلوگوں کو ذہنی اور معاشی دونوں اعتبار سے مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے ،عالم یہ ہے کہ یہاں کے بیشتر لوگ فاقہ کشی کے شکار ہی نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر لوگ تو ایسے ہیں جن کو  دو وقت کی روٹی اور بدن پر کپڑے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے اور اپنی عزت و آبرو کا سودا کر نیپرمجبور ہو نا پڑ رہاہے ،ترائی علاقہ کے جو لوگ رکشا چلاکر یا یو میہ  مزدوری کر کے اپنیاہل خانہ کی کفالت کا فرض نبھاتے تھے نیپال کی تازہ صورت حال نے ان کی زندگی کو بر بادی کے دہا نے پر کھڑا کر دیاہے ،لوگوں کی کاروباری حالت بھی پوری طرح دم توڑچکی ہے ،زیادہ تر لوگ اپنی کھیتی چھوڑ کر اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر جمع ہیں،ہر طرف نہ صرف افرا تفری کا ماحول ہے ،بلکہ بدلتے و بگڑتے حالات کے خوف ودہشت سے ہر کوئی ڈرا سہما ہے ،غرض یہ کہ حکومت کی ان دیکھی اور گندی پالیسی کی وجہ پورے نیپال پر بے یقینی کے بادل چھائے جا رہے ہیں ،شاید یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال نیعالمی برادری کوبھی  نیپال کے مستقبل کے تعلق سے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور اگر چہ نیپال میں قانون کے نفاذ کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن عالمی برادری اب بھی نیپال کی حکومت کو عوام کے تئیں نرم رویہ  اپنانے اور ان کے دیرینہ حقوق کی بقا کے مطالبے کر رہی ہے  اور ان کا ماننا ہے کہ نیپال کی حکومت عوام کے تمام دیرینہ مسائل کو مزاکرات اور ممکنہ وسیع تر اتفاق رائے سے حل کر کے تمام طبقات کے حقوق کی بقائ￿  کو یقینی بنائے اور عوامی مطالباپ پر دھیان دیئے بغیر نیپال کے شاندار تعمیری مستقبل کا تصور بھی نہیں کر سکتی  ،اب نیپال کی حکومت کا ارادہ کیا ہے اور وہ کیا چاہتی ہے یہ تو اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا ،لیکن اتنا ضرور ہے کہ نیپال کی حکو مت جس روش پر خود کو چلنے کے لئے مجبور کر ہی ہے اس کے بھیانک نتائج ملک کو آئندہ اسی سیاسی بحران کا شکار بنادیں گے جس ،وہ ایک طویل زمانے تک جھوجتا رہا ہے ،غور طلب ہے کہ نیپال کی آئین سازی کا جو مسودہ پیش  ہوا ہے یایہ کہ لیجئے کہ جس پر ملک بھر میں بوال مچا ہوا ہے اس کے اعتبار سے دو کڑور 80 لاکھ کی آبادی والا یہ ملک سات وفاقی صوبے میں تقسیم ہو جا ئے گا ،لیکن چونکہ اس نئی تقسیم کی وجہ سے ترائی علاقوں کے ٹوٹ کر منتشر ہو جانے کا خطرہ ہے اسی لئے ترائی علاقے کے لوگ اس مسودہ کو تسلیم کر نے کے لئے تیار نہیں ،کیونکہ حکومت نے نیپال کی ان لاکھوں عوام کے ساتھ دھوکے کا سودا کیا ہے جس نے آج تک ہر موڑ پر نیپال کی تعمیر و ترقی اور اس کی آبرو کو بچانے کا فرض نبھا یاہے ویسے بھی اتنا ضرور یاد رکھا جانا چاہئے کہ حکومت کی اصل طاقت عوام ہی ہو تے ہیں اس لئے ان کے مفادات سے نظریں چرا کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔اس لئے اب بھی نیپالی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ  وہ کوئی بھی ایسا طرز عمل اختیار کر نے سے گریز کرے جس سے نیپال کے اندر کسی بھی طرح کی بحرانی کیفیت پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہو اس لئے کہ اگر ایسا ہوا تو اس کے بھیانک نتائج پوری عالمی برادری کو متاثر کریں گے اور اس کا منفی اثر کئی پڑوسی ممالک پر پڑے  گا ،خاص طور سے پڑوسی ملک ہندوستان پر اس کے غیر یقینی اثرات مرتب ہونگے اس لئے کہ ہند نیپال کے درمیان روٹی بیٹی کا پرانا رشتہ رہا ہے،سرحدی علاقے کی عوام کا آپسی کاروباری تعلق بھی کافی مستحکم رہا ہے جو اب شاید اس دستور کے نفاذ کے بعد کمزور ہو جائے گا ،واضح رہے کہ آج سے چند سال قبل جب نیپال نے راج شاہی دور سے نکل کر جمہوریت کے سائے میں اہنے سفر کی شروعات کی تھی تو ایسے نازک وقت میں جن لوگوں نے نیپال کی عزت و آبرو کو بچانے میں سب سے زیادہ قر بانی دی اور جنہوں نے اپنی جان و مال سے اس ملک کی شاندار تعمیر ترقی کا سپنا پوراکر نے میں نمایاں کر دار ادا کیا وہ یہی مدھیشی قوم تھی اور اگر نیپال کی مکمل معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حکومت کے اخراجات کی 80 فیصد ضرورتیں انہی مدھیشی لوگوں کی محنت سے پوری ہوتی ہیں لیکن یہ جان کر شاید آپ کو بھی بڑا تعجب ہو گا کہ جمہوری حکومت کے پہلے دن سے ہی نیپالی حکومت ترائی باشندوں کے ساتھ نہ صرف دوہری پالیسی کا معاملہ کر تی رہی یے بلکہ اس کے اس غیر جمہوری طرز عمل نے ان کی ترقی کے تمام راستے بھی مسدود کردئے ہیں ،اس کا لازمی نتیجہ حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتا فاصلہ ہے اور کبھی اور کسی بھی وقت نیپال کے شاندار مستقبل پر سوالیہ نشان لگا سکتا ہے۔

(یو این این)


*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 313