donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mumtaz Meer
Title :
   Turki Ka Sabaq

 ترکی کا سبق 


ممتاز میر 


 ترکی کی فوجی بغاوت اور عوامی انقلاب کو اب ۱۸؍۲۰ دن ہو چکے ہیں ۔دل یہ چاہتا رہا کہ کچھ لکھیں مگر جانتے تھے کہ اب مضامین کا سیلاب آجائے گا  اسلئے کچھ صبر کر لیا۔حسب توقع لکھاریوں نے خوب خوب لکھا ۔اس انقلاب پر علماء نے دانشوروں نے خوب خوب بغلیں بجائیں۔مگر اپنے لئے یقین ہے کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہوگا۔یہاں یاروں کا حال ایسا ہے ’’بیٹھے ہر محفل میں لیکن؍جھاڑ کے اٹھے اپنا دامن۔خیر،کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا کا انمول ترین انقلاب ہے۔مسلمانوں کے کیا دنیا کے انقلابات میں اس کی مثال ملنا قریب قریب ناممکن ہے۔مگر کم وبیش تمام مضمون نگار حضرات نے اس عوامی انقلاب کا تمام تر کریڈٹ ہمارے مطالعے کی حد تک رجب طیب اردگان کو دیا ہے جبکہ ترکی یا رجب طیب اردگان آج جو فصل کاٹ رہے ہیںاس کے بیج کم و بیش سو سال پہلے بدیع الزماں سعید نورسیؒنے بوئے تھے۔مصطفیٰ کمال اتاترک کے سامنے بدیع الزماں سعید نورسیؒپوری ہمت پورے استقلال کے ساتھ کھڑے رہے اگر وہ پیچھے ہٹ جاتے تو ترکی کو یہاں پہونچتے پہونچتے شاید ایک آدھ صدی اور لگ جاتی۔انھوں نے اپنی پوری عمر یا تو جیل میں گزاری یا جلا وطنی میں کاٹی مگر کسی حالت میں اپنے فرض سے غافل نہیں رہے۔۱۸۷۷ میں ترکی کے دور دراز مقام نورس میں کرد خاندان میں ان کا جنم ہواتھا ۔

وہ جہاں بھی رہے جس حالت میں بھی رہے قرآن کی تفسیر لکھ کر اپنے متبعین تک پہونچاتے رہے جو ان تعلیمات کو اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دوسروں تک پھیلاتے رہے ۔یہی وہ اقساط تھیں جو رسالہء نور کے نام سے مشہور ہوئی تھیں۔کمال اتاترک نے سعید نورسی کو وزارت مذہبی امور کی بھی پیش کش کی تھی جسے انھوں نے پائے حقارت سے ٹھکرادیا تھا ۔۱۹۵۸ میں جب ملٹی پارٹی سسٹم کے تحت انتخابات ہوئے تو انھوں نے عدنان مندریس کی حمایت کا اعلان کیا جنھوں نے منتخب ہو کر کافی مذہبی آزادیا ں فراہم کی۔مگر پھر عربی میں اذان کی اجازت کی بنا پر فوجی جنتا نے عدنان مندریس کو پھانسی پر چڑھا دیا ۔پھر استاد اور انجینئرنجم الدین اربکان سیاست میں آئے۔نجم الدین اربکان سعید نورسی کے شاگرد تھے ۔نجم الدین اربکان نے کئی سیاسی پارٹیاں بنائیں۔بالآخر ۹۷؍۱۹۹۶ میں وزیر اعظم بنے ۔نجم الدین اربکان کا سب سے بڑا کارنامہ D8 تنظیم کا قیام تھا ۔یہ معاشی تعاون تنظیم ۸ ممالک پر مشتمل تھی جسمیں بنگلہ دیش ،مصر ایران انڈونیشیا،ملیشیا،نائیجیریا،پاکستان اور ترکی شامل تھے۔بالآخر نجم الدین اربکان کو بھی فوج نے ۱۹۹۷ میں اسلام کی جانب جھکاؤ کی بنا پر معزول کرکے داخل زنداں کر دیا ۔اربکان کے دور وزارت عظمیٰ میں جب ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ان کی پارٹی نے ترکی کی اکثر بلدیات پر فتح کا پرچم لہرایا ۔رجب طیب اردگان استنبول شہر کے میئر بنائے گئے۔اس وقت استنبول شہر کے تین مسائل سب سے نمایاں تھے (۱)آلودگی (۲)ٹریفک (۳)تقسیم آب،اردگان نے میئر بنتے ہی ان تینوں مسائل کو ٹارگٹ کیا اور دو سال کے اندر ہی ان تینوں مسائل کو بحسن و خوبی حل کر دیا۔مگر اتنا سب کچھ کرنے کے بعد یا یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب ہو جانے کی وجہ سے ہی ایک معمولی نظم کو بنیاد بنا کر انھیں بھی حوالہء زنداں کر دیا گیا۔پھر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی وجود میں آئی جس کے سربراہ رجب طیب ارودگان تھے اور وہ جیل سے تو چھوٹ گئے تھے ۔مگر انھیں عمر بھر کے لئے سیاست سے تڑی پار کردیا گیا اسی حالت میں نیا انتخاب لڑاگیا جس میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اکثریت میں آئی۔اور تخت اقتدار پر براجمان ہوئی۔اپوزیشن پیوپلز ریپبلیکن پارٹی کی مدد سے قانون میں ترمیم کرکے ارودگان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ۔ادھر انتخابی عدالت نے ترکی کے ایک انتخابی حلقے کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا ۔اس حلقے میں دوبارہ انتخاب ہوا اور وہاں سے ارودگان فتحیاب ہوئے ۔عبداللہ گل جو ارودگان کے نا ہونے سے وزارت عظمیٰ سنبھالے ہوئے تھے انھوں نے رجب طیب ارودگان کے لئے جگہ خالی کردی۔تب سے لے کر آج تک گو کہ آج وہ ترکی کے صدر بن چکے ہیں،ان کی کارکردگی کیسی رہی کیا رہی اس کی مختصر روداد درج ذیل ہے۔(۱)ترکی میں ارودگان کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۲تک جی ڈی پی میں ۶۴فی صدی per capita incom میں ۳۴ فی صدی کا اضافہ ہوا۔(۲) ارودگان سے قبل IMF کا ترکی پر قرض۵ئ۲۳بلین ڈالر کا تھا جو ۲۰۱۲ میں ۹ء بلین ڈالر رہ گیا۔پھر کچھ عرصے بعد یہ قرض بھی ختم ہو گیا ۔کچھ عرصے بعد رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ IMF کو ضرورت ہو تو ہم سے ْقرض لے(۳)ترکی حکومت یورپی یونین کے ۹ممالک اور روس سے بھی کم ریکارڈ ۱۷ئ۱پر ٹریڈنگ کر رہی ہے(۴)۲۰۰۲ میں ٹرکش سنٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے ۵ئ۲۶ارب ڈالر تھے جو ارودگان کی معاشی پالیسیوں کی بنا پر ۲۰۱۱ میں ۲ئ۹۲ارب ڈالر تک پہونچ گئے ۔ارودگان کی پالیسیوں کی بنا پر افراط زر کی شرح صرف دو سالوں میں یعنی ۲۰۰۲ اور ۲۰۰۴ کے درمیان ۲۳ فی صدی سے کم ہو کر ۹ فیصدی رہ گئی ۔اب یقینا اور کم ہو گئی ہوگی ۔(۵)ارودگان کے دور حکومت میں ترکی میں ۲۴ نئے ایئر پورٹ بنائے گئے۔جو پہلے ۲۶ تھے اب ۵۰ ہوگئے ہیں۔(۶) ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۱ کے درمیان ترکی میں ۱۳۵۰۰کلو میٹر ایکپریس وے (موٹر وے )بنائے گئے جس سے ذرائع نقل حمل میں کافی ترقی دیکھنے کو ملی(۷)۲۰۰۹ میں ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ہائی اسپیڈ ٹرینوں کے لئے ہائی اسپیڈ ریلوے ٹریک بنائے گئے اور اس پر ۲۵۰ کلومیٹر کی اسپیڈ سے ٹرینیں چلائی گئیں۔صرف۸ٌ سالوں میں ۱۰۷۶ کلومیٹر نئی ریلوے لائینس ڈالی گئیں ۔اور ۵۴۴۹کلو میٹر ریلوے لائینوں کی جدید کاری کی گئی(۸)ملکی تاریخ میں پہلی بار محکمہء صحت میں اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور عوام کے مفت علاج معالجے کے لئے گرین کارڈ اسکیم کا اجراء کیا گیا(۹) ۲۰۰۲ میں تعلیم کا بجٹ۵ئ۷ بلین لیرارکھا جاتا تھا ۲۰۱۱ تک اسے رفتہ رفتہ ۳۴ بلین لیرا تک پہونچایا گیا ۔ ۲۰۰۲ کی ۹۸ یونیورسٹیوں کی تعداد کو بڑھا کر اکتوبر ۲۰۱۲تک ۱۸۶ کردی گئیں (۱۰)۱۹۹۶ میں ڈالر کے بدلے ترکی لیرا ۔۲۲۲ملتے تھے ۔آج وہی لیرا ایک ڈالر میں صرف تین آتے ہیں ۔لیرا کی قدر قیمت میں یہ اضافہ اتنا بڑا ہے کہ جس نے عالمی سامراج کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑا رکھا ہے اور یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر مغرب رجب طیب اردگان کے پیچھے پڑا ہے ۔مگر یہ سمجھنا کہ یہ صرف رجب طیب اردگان کا ذاتی یا تنہا Achievment ہے غلط ہوگا۔یہ پورا سو سالہ عمل ہے جس کے آخری سرے پر اردگان کھڑے ہیں ورنہ ان سے زیادہ قربانیاں سعید نورسی ؒ اور اربکان کی ہیں۔بلا شبہ ارودگان نے بھی فوج اور سیکولرسٹوں کا ظلم و ستم سہا ہے اور حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق اس راہ سے گزرے بغیر اسلام کی نشاۃالثانیہ ہو بھی نہیں سکتی ۔یہ بر صغیر کے ہمارے ان لیڈروں کے لئے سبق ہے جو ٹھنڈے ٹھار ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر جلسے جلوسوں کے اسٹیج سجا کرانقلاب لانا چاہتے ہیں۔بر صغیر کا شاید ہی کوئی لیڈر ہو جو جیل جانا پسند کرتا ہو ۔جیل یہ بھی جاتے ہیں مگر اپنے کالے کارناموں کے لئے ،دین و ملت کے لئے نہیں ۔  ایک بات اور کہہ دین کہ یہ جو رجب طیب ارودگان کی ایک کال پر ترکی عوام رات کے اندھیروں میں گرم بستر چھوڑکر فوج سے نبرد آزم ہو گئی تھی تو ان کے دماغوں میں صرف اسلام نہیں تھا ۔ساری رپورٹس یہ بتلاتی ہیں کہ فوج کے سامنے کھڑے ہونے والوں میں صرف اسلام پسند نہیں تھے بلکہ لادین عناصر بھی تھے ۔کیوں ؟ اسلئے کہ ایک اسلام پسند نے ان کے پیٹ کے مسائل کو اس طرح حل کیا تھا کہ گذشہ ۱۰۰ سالوں میں کسی کمیونسٹ یا سیکولرسٹ نے حل نہیں کیا تھا ۔ان کی معاشی حالت کو صرف چند سالوں میں کئی گنا بلند کر دیا تھا۔ہاں بلا شبہ یہ کام کوئی اسلام پسند یا خدا ترس حکمراں ہی کر سکتا تھا ۔مگر آج رجب طیب ارودگان کی عوام پر گرفت کا یہ عالم ہے کہ اگر ارودگان عوام سے پیٹ پر پتھر باندھنے کے لئے کہہ دے توعوام پیچھے نہیں ہٹے گی۔اس کی سب سے بڑی مثال افغانستان کے طالبان تھے جو صرف ۵ سال اقتدار میں رہے مگر صرف ۵ سالوں میں جنھوں نے افغانستان کے چپے چپے سے پوست کی کاشت بند کروادی تھی۔جب کے دنیا کے سپر پاور دہائیوں افغانستان پر قابض رہے اور ہیں مگر طالبان کے بعد کوئی اسے بند نہ کروا سکا ۔ایسا کیوں ہوا؟اسلئے کہ جتنے ننگے بھوکے عوام تھے اتنے ہی ننگے بھوکے وہاں کے حکراں بھی تھے ۔ملا عمر اور ان کے رفقاء ویسے ہی رہتے تھے جیسے عوام رہتی تھی۔پھر یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ جیساراجہ ویسی پرجا۔

 دسمبر ۲۰۱۳ میں ارودگان اور ان کے وزراء پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے۔صرف تین مہینے بعد پورے ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو پچھلے ۳۹ کے مقابلے ساڑھ چار فی صدی ووٹ زائد ملے تھے ۔یعنی عوام نے کرپشن کے الزامات کو جھوٹا سمجھا تھا ۔یہ اعتماد یونہی نہیں مل جاتا ۔امید تو یہی ہے کہ اب داخلی عناصر قریب قریب تمام ہی ارودگان کے قابو میں آچکے ہونگے۔اب بیرونی عناصر کو داخلہ میں کالی بھیڑوں کا ملنا مزید مشکل ہو جا ئے گا ۔امید ہے کہ وہ ملکی تعمیر و ترقی پر مزید توجہ دیں گے۔آج معاشی لحاظ سے ملک جہاں کھڑا ہے دفاعی لحاظ سے بھی اس کو وہاں پہونچا دیں گے۔ آخری بات یہ کہ آج ترکی اس مقام پر ہے کہ وہ IMF کو قرض دے سکتا ہے ۔اس کے بجائے ترکی یہ کرے کہ غریب اور کمزور ممالک کو بلا سودی قرض فراہم کرے ۔یہ اس کی شرعی ذمے داری ہے ۔ہاں قرض وصولی کی گارنٹی پہلے ہونا چاہئے۔


 07697376137

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 521