donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Ke Khushi Se Mar Na Jate Agar Aitbar Hota

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگراعتبارہوتا


نایاب حسن

9560188574

 

    مسئلۂ شام کے حل کے لیے جمعہ کے دن نیویارک میں سیکورٹی کونسل کی جوعالمی کانفرنس ہوئی اور کونسل نے اس تعلق سے جس قرارداد کااعلان کیا، وہ ’’کھوداپہاڑ،نکلی چوہیا‘‘کامصداق ہے،کانفرنس سے پہلے امریکہ واقوامِ متحدہ کی جانب سے بڑے بڑے وعدے کیے گئے اوریہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ گویا پانچ سال سے اُلجھے ہوئے شام کے مسئلے کاحل نکل ہی جائے گا، مگراس کانفرنس کے بعدجوکچھ باہرنکل کرسامنے آیاہے، وہ’’حسبِ معمول‘‘ہی ہے، عالمی میڈیاتالیاں پیٹ رہاہے کہ سیکورٹی کونسل نے پہلی بار شام کے تعلق سے ’’مؤثراورٹھوس قدم ‘‘اٹھایاہے؛ حالاں کہ وہ قدم کیاہے، وہ جان کیری کایہ کہناہے کہ شامی صدراپنے ملک کومتحدرکھنے اوراس پرحکومت کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں، وہ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کایہ کہناہے کہ بشارکے تعلق سے روس کاموقف پہلے والاہی ہے (یعنی وہ بدستورشامیوں کی زندگیاں حرام کیے رکھنے کے مجازہیں) اوریہ کہ شام کے مسئلے کاحل خودشامی عوام کونکالناچاہیے، یہ اختیارصرف اُنھیں حاصل ہے۔

    کمال ہوگیابھئی!!اس طرح بھی تودنیاوالوں کوبے وقوف مت بناؤ، امریکہ اب کہتاہے کہ بشارالاسدکی قائدانہ صلاحیت ختم ہوچکی ہے اوروہ ملک کوچلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، توگزشتہ پانچ سالوں میں ان کی ہٹلرونازی کی چیرہ دستیوں کومات دے دینے والی کارروائیوں کوتم کس خانے میں رکھتے ہو؟؟روس کہتاہے کہ شام کامسئلہ خودشامیوں کوحل کرناچاہیے، توکوئی اُس مردودسے پوچھے کہ گزشتہ دوتین مہینے سے روسی افواج وہاں کیاکررہی ہیں اورداعش کی آڑمیں بے گناہ شامی شہریوں کی زندگیاں نذرِ بم وبارود کرنے کاحق اسے کیسے مل گیا؟؟بخداایسادوغلاپن، منافقانہ روش اوردوہری چال انسانی تاریخ میں شایدکبھی دیکھنے کوملی ہوگی، جوہم مسئلۂ شام پرگذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل دیکھ رہے ہیں!

   آئیے ذراسیکورٹی کونسل کی تاریخی قرارداداوراس کی مختلف شقوں پرایک نظرڈالیں اورحقیقت سے ان کاموازنہ بھی کرتے چلیں:

    اِس قراردادمیں پہلے تو2012کے جینوااجلاس اورگزشتہ ماہ کے ویانااجلاس کی شام میں قیامِ امن سے متعلق قراردادوں کی توثیق کی گئی ہے، جن میں مسئلۂ شام کے حل میں بنیادی کرداراہلِ شام کا مانا گیا اور شام کامستقبل وہاں کے عوام کے سپردکیاگیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شق مضحکہ خیزہی کہی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ دنیاجانتی ہے کہ شام میں جتنی لڑائی وہاں کے لوگ اورحکومت لڑرہے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ امریکہ، فرانس، روس، ایران، حزب اللہ وغیرہ لڑرہے ہیں۔شام کے معاملے میں شامی شہریوںکا عمل دخل صرف کاغذات،اعلانات،بیانات تک محدود ہے،زمینی سطح پرانھیں کوئی حق حاصل نہیں،انھیں تواپنے گھروںمیں رہنے کابھی حق حاصل نہیں،جبھی تووہ بحیرۂ روم کی موجوںکے رحم و کرم پرمہاجرت و بے وطنی کی زندگی گزاررہے ہیں،ہردن یہ خبرآتی ہے کہ فلاںسمندرمیں اتنے شامی مہاجرین غرق ہوگئے،فلاںملک والوںنے انھیں اپنے یہاںقبول کرنے سے منع کردیاوغیرہ۔دراصل اس معاملے میں بشارالاسدکی ظالمانہ،چنگیزانہ سیاسی پالیسیوں اور اس کے حلیفوںکے مفادپرستانہ منصوبوںکاعمل دخل ہے،امریکہ و فرانس اوردیگرمغربی ممالک یا توروس ، ایران وغیرہ سے شام میں سیاسی انتقال پراپنے موقف کومنوانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یاوہ اس خونیں کھیل کومزید درازکرنا چاہتے ہیں۔

    ایک دوسری شق میں اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے شامی حکومت اورحزبِ معارض کوفوری مذاکرات (آنے والی جنوری میں) ،چھ ماہ کے اندرعبوری حکومت کے اور اگلے اٹھارہ ماہ میںصاف شفاف الیکشن منعقدکرواکرمعتدل ،غیرفرقہ وارانہ حکومت کے قیام کی ہدایت دی ہے... بات تو بظاہر ٹھیک سی ہے، مگریہ جان کرآپ کوحیرت ہوگی؛ بلکہ ہنسی بھی آسکتی ہے کہ نیویارک کایہ عالمی اجلاس جن دوگروپوں کے مابین صلح ومفاہمت کی راہ تلاش کرنے کے لیے منعقد کیا گیاتھا، ان میں سے ایک یعنی شامی اپوزیشن گروپ کوبلایاہی نہیں گیاتھا، صرف شامی حکومت کا نمایندہ بشارجعفری مدعوتھا،گویازبانی طورپرتوشامی اپوزیشن کوتسلیم کیاجارہاہے، مگرعملاً اس کی کوئی حیثیت نہیں،یہ عالمی برادری(سیکورٹی کونسل) کی کھلی منافقت ہے،ایسے میں کیاہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ شامی اپوزیشن سیکورٹی کونسل کی ہدایات پرعمل میں دل چسپی لے گا، جبکہ کونسل کی ہدایات اسے میڈیاکے ذریعے حاصل ہورہی ہیں؟

     ایک اورشق میں سیکورٹی کونسل کی جانب سے شامی حکومت اوراپوزیشن گروپ کوتمام ترشامی علاقوں میں لڑائیاں اور مسلح کارروائیاں بندکرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیاگیاہے کہ شامی شہریوں پرہونے والے ہرحملے کوفوری طورپربندکیاجائے؛ تاکہ مہاجرین ومتاثرین امن وسلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کولوٹ سکیں …… جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگروہ لوگ لوٹنابھی چاہیں گے، تواُنھیں ان کے گھروں کی بجاے خاک ورمادہی ملے گی اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف امن کے یہ ٹھیکیدار قیامِ امن کا جھوٹا پرچار کررہے ہیں اوردوسری طرف شام کاایک ایک گوشہ تاہنوزگولیوں کی ٹھائیں ٹھائیں اوربموں کی پُرہول آوازوں سے سراسیمہ ہے !

      سب سے زیادہ تعجب خیزبات یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل کے اس اجلاس میں شامی صدربشارالاسداور ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کی گئی؛بلکہ واضح طورپریہ کہاگیاہے کہ شام کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہاںکے عوام کریں گے (جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ طاقت ورممالک اپنے اپنے مفادکے مطابق کریںگے)حالاں کہ اجلاس سے پہلے امریکہ و فرانس اور دیگر مغربی ممالک بشارکی رخصتی پر مصر تھے،لیکن روس ، چین اورایران اس کے خلاف تھے،وہ بشارکی منتقلی نہیں چاہتے،اس کی دووجہیں ہوسکتی ہیں ،ایک تویہ کہ بشاران کے مطیع و فرماںبردارغلام کا رول اداکرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ چوںکہ امریکہ بشارکوشامی سیاست سے اوجھل کرناچاہتاہے؛اس لیے روس اور چین توان کی حمایت کریں گے ہی۔ایک چیزاورقابلِ توجہ یہ ہے کہ اِس بات کا اشارہ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے اجلاس سے دوروزقبل ہی اپنے بیان میں یہ کہہ کر دے دیاتھاکہ’’صرف ایک شخص کے انجام پرشام کے مستقبل کومنحصرنہیں مانا جاسکتا‘‘۔

     مجموعی طورپر سیکورٹی کونسل کی یہ قراردادبھی شامی عوام کی مظلومیت وبے چارگی کامذاق اورشام میں بشارِ لعین کی جابرانہ سیاست کی تاییدوحمایت کے علاوہ کچھ بھی نھیںہے، شامی نژادٹی وی جرنلسٹ، عالمی سطح پرمعروف و معتبر صحافی،الجزیرہ چینل کے خصوصی ٹاک شو ’’الاتجاہ المعاکس ‘‘کے ہوسٹ ڈاکٹرفیصل القاسم نے اِس قراردادپرنہایت ہی جامع اوربرحق تبصرہ کیاہے کہ:’’اگرشامی عوام، بالخصوص اُن لاکھوں لوگوں نے، جن کے رشتے دارواحباب اوراموال وجائیدادتاراج ہوئے، انھوں نے مسئلۂ شام کے حل کی اِس عالمی تجویزکومنظور کرلیا، تویہ ایسا ہی ہوگاگویا کسی نے ایک طویل مدت تک روزہ رکھااورافطاری میں اُسے صرف ایک پیازمیسرہوسکی ‘‘۔

(یو این این)


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 572