donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Phir Altaash Ki Hai Sadad, Aye Karbala

پھرالعطش کی ہے صدا، اے کربلا!!


نایاب حسن


     مغربی شام کے شہر’’مضایا‘‘کی الم ناک صورتِ حال نے حزب اللہ کی قلعی کھول کررکھ دی ہے، بشارالاسدکی ناجائزحکومت کے ساتھ مل کروہاں کے لاکھوں شامیوں کوملک بدرکرنے اوران کاناحق خون بہانے کے بعد اب وہ بچے کھچے نہتے شہریوں کوبے بس ولاچارکرنے؛ بلکہ انھیں بے موت مارنے کے لیے تاریخِ انسانی کے اُس بدترین جرم کاارتکاب کررہاہے، جس کا پہلی صدی ہجری میں یزیدنے ارتکاب کیاتھااوراِس صدی میں اب تک اسرائیل کرتاآرہاتھا۔چنددنوں قبل انٹرنیٹ پر’’مضایا‘‘کے بچوں، بوڑھوں اورنوجوانوں کی ایسی تصاویروائرل ہوئی ہیں، جن سے پتہ چلتاہیکہ گزشتہ مسلسل سات ماہ سے محصور’’مضایا ‘‘کے لوگ ہولناک ترین انسانی بحران اورخوراک واغذیہ کی خطرناک نایابی کے شکارہیں، ان کے لیے نہ جاے ماندن ہے، نہ پاے رفتن، ایک طرف حزب اللہ و بشارِلعین کی افواج ان کے گردگھیراتنگ کیے ہوئے ہیں، تودوسری طرف بارودی سرنگیں اورگھات میں بیٹھے ہوئے شکاری ان کی تاک میں ہیں،اُنھیں کھانے پینے کی معمولی چیزیں بھی دستیاب نہیں، وہ اِس پندرہویں صدی میں بھی انسان ہوتے ہوئے درخت کے پتے،گھاس، حتی کہ کتے بلی کھاکرجی رہے ہیں، آپ کویہ جان کرحیرت ہوگی؛بلکہ ہوش اڑجائیں گے کہ ’’مضایا‘‘میں چاول 115ڈالریعنی تقریباآٹھ ہزارہندوستانی روپے فی کیلوکے حساب سے مل رہاہے۔بشارالاسداور حزب اللہ نے مل کر بے گناہ اور معصوم عوام کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے،باہرسے اگر کوئی انسانی حقوق کی تنظیم امدادی اشیاپہنچانابھی چاہے،تواس کی اجازت نہیں؛بلکہ ظالم نصیری حکومت نے تواس سلسلے میںاقوامِ متحدہ کی اپیل کوبھی ٹھکرادیاہے ۔

     ’’مضایا‘‘شہرکی موجودہ ہیبت ناک اوردل دوزتصویرنے اس شہرکے اُس حسن وجمال کاجنازہ نکال کررکھ دیاہے، جس کے حوالے سے مغربی دمشق کایہ شہرمشہورتھا اورجس کی وجہ سے دنیابھرکے سیاح یہاں کھنچے چلے آتے تھے،’’مضایا ‘‘2011سے پہلے نہایت ہی پرکشش ،قدرتی حسن وجمال اورفطری خزانوں سے مالامال شام کاایک مشہورشہرتھا، مگرآج یہ شہرفاقہ مستی، بیماری اورفقرومحتاجگی کی ضربوں تلے کراہ رہاہے، اس کی واحدوجہ یہ ہے کہ یہ شہرانقلابِ شام کے آغازہی سے وہاں کی اُس ناجائز، ظالم حکومت کے سامنے سینہ سپرہے، جواپنے شہریوں کوزیرکرنے کے لیے اُنھیں بھوکاپیاسارکھنے کوہتھیارکے طورپراستعمال کررھی ہے، شامی حکومت اوراس کے معاون حزب اللہ نے شامی شہریوں کوبے موت مارنے کے لیے صرف میزائل،بمبارطیارے اورہلاکت ناک بم وبارودہی استعمال نہیں کیے؛ بلکہ ان کے علاوہ بھی ہرگندااورانسانیت کُش حربہ وہ آزمارہے ہیں؛ چنانچہ اب انھوں نے شہریوں کوروٹی اوربچوں کودودھ سے بھی محروم کرنے کی ٹھان رکھی ہے’’مضایا ‘‘کے بچوں، بوڑھوں اورعورتوں کے پاس سوائے صبراورنصرتِ الٰہی کی امید کے اورکوئی ہتھیارنہیں، جس سے وہ حزب اللہ اوربشارالاسدکی چنگیزیت کامقابلہ کرسکیں، دنیابھرکی حقوقِ انسانی کی تنظیمیں اورعالمی برادری کسی بھی ملک کویہ اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اپنے مدِ مقابل کوزیرکرنے کے لیے اس کی غذائی ناکہ بندی کردے اور اس کے حقِ زیست کوغصب کرنے کی کوشش کرے، مگرساری دنیابچشمِ خویش دیکھ رہی ہے کہ شام میں یہی کچھ ہورہاہے،لاکھوں لوگ مارے جاچکے،اتنے ہی جلاوطن ہوئے اورملکوں ملکوں دربدرپھررہے ہیں،جبکہ ہزاروں لوگ بشارلعین اورحزب اللہ کے ظلم و جورسے تڑپ رہے ہیں۔

      حزب اللہ بڑے دعوے کرتاہے کہ وہ مظلوموں کاحامی ہے، وہ انسانیت نوازی کی دہائیاں دیتاپھرتاہے، وہ فلسطین اورفلسطینیوں کی نصرت وحمایت کادم بھرتاہے، ایسی جماعت کے لیے یہ کیسے مناسب ھوسکتاھے کہ وہ ’’مضایا‘‘کے شہریوں کوبھوکامارنے اورانھیں اپنے وطن سے بے دخل کرنے میں ایک ظالم حکومت کادست وبازوبنے؟؟ کیایہی وہ فریضئہ جہادہے، جس کے لیے لبنان کے نوجوان شام میں اپنی جانیں قربان کررہے ہیں؟؟ 2013میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے شامی جنگ میں کودنے کااعلان کیااوردلیل یہ دی کہ وہ لبنانیوں کی حمایت ودفاع کے لیے ایساکرنے جارہے ہیں، پھر انھوں نے کہاکہ وہ شامی جنگ میں مقاومتی گروپ کی حمایت کے لیے حصہ لے رہے ہیں اوربالآخراُنھوں نے اپنے اصل مقصدکا اعتراف کیاکہ شامی جنگ میں وہ اس لیے حصہ لے رہے ہیں؛ تاکہ اُن تکفیریوں (سنیوں) کوتہہِ تیغ کریں، جوخطے میں صہیونی منصوبے کی تنفیذمیں سرگرم ہیں۔یعنی مسئلہ صاف ہوگیاکہ حزب اللہ بشارالاسدکے ساتھ مل کر شام سے مسلمانوں کا صفایاکرناچاہتاہے۔

انقلاب پسندوں نے شام کے مختلف شہروں میں حکومتی افواج اورحزب اللہ کاجم کرمقابلہ کیا، ان میں ’’قصیر ‘‘اور’’زبدانی ‘‘کے معرکے نمایاں تھے، ’’قصیر ‘‘ میں لڑائی کے دوران حزب اللہ نے اپنے حامیوں اورشامی افواج کے ساتھ مل کربری طرح بمباری کی، جس کے نتیجے میں وہ شہرمکمل طورپرخاک ہوگیا، وہاں کے لوگ بے گھرہوگئے، سیکڑوں معصوم شہریوں کاناحق خون کیاگیااورحزب اللہ نے اِس ننگِ انسانیت عمل کواپنی فتح وکامرانی سے تعبیرکیا،اسی طرح’’زبدانی‘‘میں بھی حزب اللہ شامی افواج کے ظلم وستم میں برابرکاشریک رہا؛ بلکہ میڈیاکے ذریعے اس شہرکوفتح کرنے کے پروپیگنڈے کیے گئے، شیعہ عوام کوجوش دلایاگیا، مارے خوشی کے لوگوں نے پہلے ہی مٹھائیاں تقسیم کیں اور پٹاخے پھوڑے، مگرحقیقت میں وہ دن نہ آسکااورانقلاب پسندوںکی جرأت و ہمت اور بے باکانہ مقابلوںکی بدولت’’زبدانی‘‘کایہ معرکہ ایک امن معاہدے پراختتام پذیرہوا، جنگ کے دوران ہی ’’زبدانی‘‘کے بہت سے شہریوں نے

 ’’مضایا‘‘کی طرف ہجرت کرلی تھی، مگرانھیں وہاںعافیت نصیب ہونے کی بجاے سخت ترین مظالم کاسامناکرناپڑا، اس وقت وہاں کے لوگ سات ماہ سے حزب اللہ اورشامی افواج کے نرغے میں ہیں،زندگی وموت کے درمیان ہچکولے کھارہیہیں،بچے سوکھ کرہڈیوںکاڈھانچہ بن چکے ہیں،ان کی تصویریں دیکھ کرکلیجہ منہ کوآنے لگتاہے،اتنی بڑی دنیامیں ان کے لیے ایک لقمۂ خوراک بھی نہیں!

     حزب اللہ کادعویٰ ہے کہ وہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے طریقئہ کارکاپیروہے، جنھیں اپنے وقت کے ظالم ترین بادشاہ کے ہاتھوں وہی مظالم جھیلنے پڑے تھے، جنھیں آج ’’مضایا‘‘کے لوگ حزب اللہ کے ہاتھوں جھیل رہے ہیں، انسانیت اورحق کی حمایت کی علمبرداری کادعویٰ کرنے والے آخرعورتوں، بچوں اوربوڑھوں کوکیسے اپنی بہیمیت کانشانہ بناسکتے ہیں؟؟یاتوان کاعمل ان کے دعوے کے خلاف ہے یاوہ امام حسینؓ کی اتباع کامحض جھوٹانعرہ لگاتے ہیں اوران کی ساری سرگرمیاں بدترین مسلکی تعصب وجانب داری کے زیراثر انجام دی جارہی ہیں، انسانیت کسی خاص گروہ، فرقہ یامسلک سے وابستہ نھیں ہوسکتی اوریہ لوگ کسی طورحضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پیروکارنھیں ہوسکتے۔ شہریوں کوبھوکا مارنے، انھیں محصورکرنے،ان کاخون بہانے اورانھیں پوری طرح مفلوج وبے دست وپاکرنے کے ساتھ شامی عوام کوان کے گھروں سے جلاوطن اوربے گھرکرنے میں بھی حزب اللہ شامی حکومت کے پارٹنرکے طورپرسامنے آیاہے، لبنانی سرحدسے متصل شام کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزینوں پرحزب اللہ کے مظالم ناقابلِ بیان ہیں، قصیر،زبدانی اورحمص کے تمام شہری بے گھرہوچکے ہیں،جبکہ مضایا، یقین، دوبا، حجرِ اسوداورمعضمیہ کئی ماہ سے شامی افواج اورحزب اللہ کے محاصرے میں ہیں، ان شہروں کے لوگوں کوکھانااسی شرط پرمل سکتاہے کہ وہ ناجائزحکومت اوراس کے گرگوں کے سامنے گھٹنے ٹیکیں اورساتھ ہی اپنی زمین، جائیدادسے بھی دست بردارہوجائیں، شامی حکومت اورحزب اللہ دونوں مل کراسی طرح شام کے اصل شہریوں کوبے گھرکرکے اپنی نسلوںکوآبادکرنا چاہتے ہیں،جس طرح فلسطین میںاسرائیل نے وہاں کے اصل باشندوںکوہجرت و پناہ گزینی پر مجبورکرکے ساری دنیاکے یہودیوںکولالاکرآباد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔

    حیرت تو اس بات پر ہے کہ بشارالاسداور حزب اللہ کی تمام تر شیطانی حرکتیں عالمی سطح پرمسئلۂ شام کو حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے اداروںاور ان کی کوششوںکے ہوتے ہوئے جاری ہیں اورجس قدراس معاملے میں تیزی دکھائی جارہی ہے،شامی حکومت اور اس کے حلیفوںکے مظالم کی نئی نئی پرتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔دراصل اسلامی ممالک آپسی بکھراؤکا شکارہیںاور انھوں نے اپنامستقبل جن ملکوں،اداروںکوسونپ رکھاہے،وہ سب مسلمانوںکی ذلت و خواری،بے بسی و لاچاری،خانماںبربادی و دربدری سے فائدہ اٹھاکراپنے مفادات کوحاصل کرنا چاہتے ہیں،اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مقصدنہیں۔اگر ایسا نہ ہوتاتوشامی خانہ جنگی کا مسئلہ پانچ سال تک درازنہ ہوتا،جبکہ ابھی بھی مستقبل کے حوالے سے کوئی جہت صاف نہیں ہے۔حزب اللہ اوربشارالاسدخطرناک نوآبادیاتی منصوبے کے تحت وہاںکے اصل باشندوںکویاتوتڑپاتڑپاکرماردیناچاہتے ہیںیاانھیںان کے اپنے گھر،زمین،جائیداداوراموال سے بے دخل کرکے دنیابھرمیںدربدرپھرنے پرمجبورکررہے ہیں،روے زمین پرپھر حادثۂ کربلابرپاہے،وقت کے یزیدپھرحسینیوںکوایک ایک بوندپانی کے لیے ترسا رہے ہیں،تڑپارہے ہیں،العطش کی صدائیں ہیںکہ گونجتی ہی جارہی ہیں،مگرمعلوم نہیں ان کی پپڑی پڑی ہوئی زبانوںکوکب قطرۂ آب میسرہوگااورکب یزیدانِ وقت کے ناپاک سرحوالۂ تیغ ہوںگے،کب ان کا روزِجزا آئے گااورکب ان کا حساب بے باق کیاجائے؟!

(یواین این)


****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 448