donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nehal Sagheer
Title :
   Paris Hamla Aur Hamare Qayedeen Ki Ghabrahat

پیرس حملہ اور ہمارے قائدین کی گھبراہٹ


نہال صغیر


    حالیہ پیرس حملہ میں ہلاک ہونے والوں کے غم میں دنیا نے جتنے آنسو بہائے ۔اگر اس کا ایک فیصد بھی وہ ظالمانہ آمرانہ حکومتوں کے ذریعے قتل کئے گئے افراد کے لئے بہاتے اور انہیں انصاف دلاتے ۔ظالموں کو تخت دینے کے بجائے تختہ دیتے تو شاید آج پیرس میں چند بچے یتیم نہ ہوتے اور نہ ہی عورتیں بیوہ ہوتیں ۔لیکن آج حالت یہ ہے کہ رد عمل پر سب ہی اپنے رد عمل کا اظہار کررہے ہیں لیکن کوئی بھی اس رد عمل کا محرک کیا تھا اس پر غور کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ریاستی دہشت گردی پر کوئی ایک لفظ نہیں نکالتا ۔لیکن نجی دہشت گردی پر پوری قوم کو تباہ کرنے اور اسے مجرم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں سب پیش پیش ہیں ۔داعش کا وجود پچھلے ڈیڑھ سال سے ہے ۔ڈیڑھ سال میں ان لوگوں نے ہزار لوگوں کو بھی نہیں مارا ہوگا لیکن اردن کے شاہ عبد اللہ کہتے ہیں کہ داعش نے ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کردیا ہے ۔داعش نے اتنے لوگوں کو کہاں اور کب مارا یہ خبر کب آئی ہمیں تو پتہ ہی نہیں ۔شاہ عبداللہ اردن کے بادشاہ ہیں اور شاہان عرب کو بہار عرب سے بڑا خطرہ ہے ۔ان کی حکومت کبھی بھی عوامی بے چینی کی نظر ہو سکتی ہے ۔اس لئے یہ لوگ بے سر پیر کی اڑاتے ہیں ۔کوئی ان سے اس کی تحقیق تو کرتا نہیں ہے کہ بھائی یہ گنتی آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی ۔ ایسی تنظیم کے بارے میں جو زیر زمین ہو اس کے تعلق سے تو کوئی بھی کچھ کہہ دے ۔کہیں کوئی بم دھماکہ کردے اور فون یا ای میل سے یہ قبول کرلے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے یہ ہم نے کیا ہے ہم فلاں تنظیم کے فلاں ہیں ۔بس بھائی اتنا ہی کافی ہے ۔ نہ اس کی تفتیش ہوگی نہ ہی تحقیق ۔ اب ان زیر زمین تنظیموں کا کوئی صدر دفتر کوئی ترجمان عوام کے سامنے تو ہے نہیں کہ وہ اس کی تردید کرے ۔اور اگر انہوں نے تردید کربھی دی تو میڈیا اسے کوئی جگہ دینے کو راضی کب ہے ۔ یہاں تو بڑے بڑے جغادریوں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ بس یہ کام اس نے کیا ہے تو اسی نے کیا ہے ۔مجال ہے جو کوئی اس پر کوئی آوازاٹھائے ۔

    آج سے تقریباًچالیس سال قبل بچپن میں گائوں کی اندھیری فضا اور اکثر جاڑے کی سرد راتوں میں جب کہیں کوئی آہٹ کوئی آواز نہیں ہوتی تھی ۔ہر طرف سناٹا ہو اکرتا تھا تب شاید سردی سے مجبور ہو کر کوئی گیدڑ کہیں ایک آواز نکالتا تو ان سناٹی راتوں میں گیدڑوں کی آواز سے آواز ملانے کی مقابلہ آرائی کی وجہ سے ایک عجب شور سا اٹھتا تھا جس سے ہم بچے خوفزدہ ہو کر بستروں میں اور زیادہ گھس جاتے ۔ کچھ ایسا ہی نظارہ ابھی پیرس حملہ کے بعد دیکھنے کو ملا ۔جہاں گیدڑوں نے تو شور مچایا ہی لیکن ان کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے دوسری مخلوق نے بھی ان سے ہم آہنگ ہونے کی  کوشش کی۔ فرانس کے شہر پیرس میں چند فدائین نے گولیوں کی برسات کرکے سو سے کچھ زیادہ لوگوں کو کیا قتل کردیا کہ پوری دنیا میں بھونچال آگیا ۔مذمت ،برات اور نصیحت کا ایک سیلاب سا آگیا ۔غیروں نے تو جو کچھ کیا سو کیا ۔لیکن مسلمانوں کے قائدین کی جانب سے بھی یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟کیا ہم نے ایسا کبھی کیا ہے جو ہم اپنی صفائی پیش کریں ؟ہندی کے ایک نوجوان صحافی وسیم اکرم تیاگی کا بھی یہی سوال ہے کہ کیا ہم نے کبھی بابری مسجد کی شہادت پر پوری ہندو قوم کو مورود الزام ٹھہرایا اور کیا اس کے جواب میں ان میں سے کسی نے ہندو قوم کی جانب سے اپنی صفائی پیش کی ؟کیا گجرات فسادات پر ہم نے پوری قوم کو ملزم بنایا ،یاہندو قوم کی جانب سے کسی نے ہمارے سامنے آکر صفائی پیش کی ؟پھر کیوں ہم کہیں بھی کچھ ہوتا ہے تو اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ،قرآن ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، جیسے الفاظ کا گردان کیوں کرنے لگتے ہیں؟بھائی یہ گردان بند کریں دنیا سب جانتی ہے کہ نہ مسلمان ایسے ہیں اور نہ اسلام انہیں یہ سکھاتا ہے ۔یہ باتیں مسلم قائدین کو کہنے کی ہمت تو نہیں ہوتی لیکن اللہ غیر مسلموں سے کہلوا دیتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ۔وہ اپنے دین کی حقانیت اور سر بلندی کے لئے گیروا دھاریوں سے بھی کہلوا دیتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے ۔ہمارے قائد خود کو تو مجرم تصور کرتے ہی ہیں اور پوری قوم کو بھی اسی مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا کردیتے ہیں ۔گجرات فسادات کی ایک رپورٹ میں ایک اردو صحافی نے یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ گودھرا ٹرین سانحہ کی بلا سوچے سمجھے مذمت کے لا متناہی سلسلے نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ انہوں نے ہی یہ جرم کیا ہے تو اس کی سزا ملے گی ہی اور نتیجہ ہوا کہ انہوں نے فسادیوں کے آگے سر تسلیم خم کردیا ۔ آخر مولانا محمود مدنی سے کس نے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف تحریک چلائیں ؟یا ان کو اس تحریک سے کیا فوائد نظر آرہے ہیں ؟سوائے اس کے کہ پوری قوم کو پست ذہنی کا شکار بنائیں! اس سے زیادہ بھی کچھ حاصل ہو سکتا ہے کیا؟جب ہم نہ دہشت گردی کرتے ہیں ۔نہ اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے تو پھر کیوں ہم صفائی پیش کریں ؟ایک طرف ہماری قیادت کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ میڈیا اور ریاستی پروپگنڈہ سے خوفزدہ ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔اور دوسری جانب ہماری جوان نسل اب پورے حالات اور واقعات پر پوری سنجیدگی سے نظر رکھتی ہے ۔وہ کسی کے الزام کو بلا تحقیق قبول کرنے کی ذہنیت سے یکسر آزاد ہے ۔حالانکہ حالات بہت خراب ہیں ،اس کا اسے پتہ ہے ۔ اکثر اس کا اس نے بھگتان بھی کیا ہے ۔اس کے باوجود وہ پست ہمت نہیں ہوا ہے ۔وہ کسی کے الزام کے جواب میں مدافعانہ رویہ اپنانے کو راضی نہیں ہے ۔وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے ۔ اکثر الزامات عائد کرنے والے لوگ اس کے آئینہ دکھانے کے سبب بھاگتے نظر آتے ہیں ۔لیکن ہمارے ان جیسے قائد جنہیں مشکل حالات کا سامنا نہیں ہے وہ ایئر کنڈیشن گھروں گاڑیوں میں بیٹھ کر زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پتہ نہیں کس دنیا میں جی رہے ہیں کہ صفائی دینے کے لئے مذمت احتجاج اور برات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔پیرس سانحہ کے بعد جب دنیا کے سارے لیڈر ایک رخ میں ہی باتیں کررہے تھے تب کچھ نوجوانوں نے سماجی رابطے کی سائٹ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ذیل میں اس کا مطالعہ کریںاور خود فیصلہ کریں کہ ہماری نوجوان نسل ان مشکل حالات میں بھی کس پا مردی سے کھڑی ہے ۔

    ’’فرانس والو مجھے معاف کرنا ،سنا ہے تم پر قیامت ڈھا دی گئی سنا ہے تمہارے کچھ بچے یتیم ہو گئے ہیں ۔اور چند سہاگ بھی اجڑ گئے ہیں ۔سنا ہے تمہاراقیمتی گرم گرم لہو (جس کی حفاظت کی قیمت مسلمانوں کے کئی بچوں عورتوں اور بوڑھوں نے اپنے خون سے ادا کی تھی)سڑکوں پر بہادیا گیا ہے۔سنا ہے تمہاری چیخوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔سنا ہے تم پر بہت ظلم ہوا ہے ۔لیکن ،فرانس والو!مجھے معاف کرنا ۔مجھے تمہارا لہو دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔کیوں کہ میری آنکھوں میں فلسطین و شام کے بچوں کا بے گناہ لہو ،آنسو بن کر چھلک رہا ہے اور ان آنسوئوں کے اس پار سے مجھے تمہارا لہو لہو نہیں منرل واٹر لگ رہا ہے ۔فرانس والو مجھے معاف کردینا ۔مجھے تمہارے اجڑے سہاگ کا بین ،بین نہیں لوری لگ رہا ہے ۔کیوں کہ میں اپنی لاکھوں مسلمان بہنوں کا اپنے ان سہاگ پر بین سن سن کر تھک چکا ہوں ۔جو تمہاری طاقت کے نشے کی بھینٹ چڑھ گئے فرانس والو بہت معذرت !مجھے تمہارے یتیم بچے دکھائی نہیں دے رہے ،کیوں کہ یہاں میری آنکھوں کے سامنے یتیم بچے بلک رہے ہیں ،جن کے سروں کا سایہ بے گناہی کے جرم نے چھین لیا ہے۔معاف کرنا !میں سخت دل نہیں ہوں ۔خون بہنے پر خوش بھی نہیں ہوں۔لیکن آج تمہاری اس آہ و بکا نے مجھے بے گناہ مسلمانوں کی وہ چیخیں یاد دلادی ہیںجس سے دنیا کے کانوں پر کبھی جوں بھی نہیں رینگی ۔سو، اے فرانس والومجھے معاف کرنا ،میں تمہارے غم میں شریک نہیں ہو سکتا ۔کیوں کہ جب تک میرا خون بہہ رہا ہے مجھے تمہارا خون نظر نہیں آسکتا‘‘۔دیکھئے کس خوبصورتی کے ساتھ دنیا میں ہورہے ہائے ہو پر ان کے سامنے آئینہ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ پیرس میں بہنے والے خون پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کررہا ہے ۔اس کے خیالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس خون خرابے سے از حد رنجیدہ ہے ۔ لیکن وہ ایک حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے کہ جب کوئی شخص خودغمگین ہو تو اسے دوسروں کا غم دکھائی نہیں دیتا ۔وہ دنیا کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہے کہ بہت ہو گیا یہ خون خرابا اب امن و انصاف کی بات کرو ۔لیکن ہمارے نام نہاد قائدین میں اتنی ایمانی جرات بھی نہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ امن چاہتے ہو تو انصاف قائم کرو۔ورنہ یہ دنیا اسی طرح امن کو ترستی رہے گی ۔جبکہ کاٹجو اور دیگر غیر مسلم مذہبی اسکالر اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔

    سماجی رابطے کی سائٹ پرایک اور نوجوان اپنے جذبات کا کچھ اس طرح اظہار کرتا ہے ’’میں پیرس حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہوں،لیکن کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔مذمت کرنے نکلا تو پہلا پڑائو ہی افغانستان میں ہوا۔سوچا یہیں افسوس کرلوں لیکن چودہ سال دھکے کھانے کے باوجود نیٹو نے وقت نہیں دیا کہ ’مصروفیت ‘بہت تھی۔میں بھی لاشیں دفناتا رہا ۔یہاں سے گرتا پڑتا عراق کی طرف منھ کیا تو زخم اتنے تھے کہ گنتے گنتے شام آگیا ۔ شام کیا آیا غم کی شام ہو گئی ۔اتنے ’’ایلان‘‘دیکھے کہ بیرل بموں کی گنتی ہی بھول گیا ۔بھولنے سے یاد آیا کہ میں تو افسوس کرنے نکلا تھا لیکن فرانس کے سارے راستے بند دیکھ کر سوچا راستہ ہی بدل لیا جائے ۔ صومالیہ کا رخ کیا تو سوڈان کا زخم دکھنے لگا۔اسے نظر انداز کرکے لیبیا کی طرف نظر ماری تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔جی کڑا کرکے مالی پہنچا تو الجزائر کی تاریخ نے پائوںپکڑ لئے ۔اب میں کیا کروں میں تو مذمت کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔مذمت کے فیشن میں مبتلا لوگ کہیں گے کہ یہ نوجوان غلط راہوں پر جارہا ہے ۔یہ مذمت کرنا ہی نہیں چاہ رہا ہے بلکہ یہ پیرس قتل کا جواز پیش کررہا ہے ۔لیکن غور سے پڑھیں وہ بالکل قتل کا جواز پیش نہیں کررہا ہے بلکہ وہ دنیا کے مکار لوگوں کو ان کے جرائم گنا رہا ہے اور ساتھ ہمارے نام نہاد قائد کی غیرت کو جگانے کی کوشش کررہا ہے جس کے جاگنے کی امیدکم ہی ہے ۔

      ایک شخص نے مغرب اور صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں پر انہیں متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’جب آپ جمہوریت نافذ کرنے کابل ،بغداد اور دمشق پر چڑھائی کرسکتے ہیں تو وہ شریعت نافذ کرنے پیرس اور لندن کا رخ بھی کر سکتے ہیں ۔جب آپ کو اپنی مرضی کے میدان جنگ منتخب کرنے کا حق ہے تو انہیں بھی حق ہے کہ اوسلو ،پیرس یا لندن کو بیس کیمپ بنالیں۔اور ہم کتنے اچھے ہیں ،جنہوں نے ہمارے شہر لاکھوں افراد کو قتل کرکے تباہ کردئیے(کابل،قندھار،بغداد،بصرہ ،بن غاذی) ان کے شہروں میں چند سو لوگوں کے قتل پر سوگوار ہیں ،ان کے غم میں شریک ہیں ۔ہم کتنے اچھے ہیں ،کیوں کہ ہم جانتے ہیں’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔اس کا یہ کہنا کہ ہم کتنے اچھے ہیں یہ ایک طنز ہے اور اپنے غصے کا اظہار بھی۔کیا قائدین کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اصل مجرمین کی مذمت کریں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں کہ اگر تم باز نہیں آئے تو ہم بھی مجبور ہیں ،کیوںکہسرپھرے  تو بہر حال ہماری قوم میں بھی ہیں۔ایک اور غیر مسلم صحافی اجے بھٹا چاریہ ہندوستان میں گائے کے گوشت کی افواہ پرکئی مسلم نوجوان اور خاص طور سے دادری میں اخلاق کے قتل پر اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ بہت ہی برا رویہ ہے اگر خدا نخواستہ مسلم نوجوانوں میں ان واقعات پر ردعمل کا اظہار ہونے لگا تو کیا ہوگا ۔ہر طرف ہاہاکار مچ جائے گا ۔ہر طرف خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی ۔اس لئے اس پر قابو پانا حکومت کی ترجیحات میں ہونی چاہئے‘‘۔

    داعش کے بارے میں نہ میں مذمت کرسکتا ہوں اور نہ ہی ان کی تعریف کیوں کہ میں ان کے تعلق سے کچھ بھی نہیں جانتا اور مغربی صہیونی میڈیا کی خبروں پر میں بھروسہ نہیں کرسکتا ۔وہ جو کچھ کہہ دیں وہ معتبر اور دلیل ہر گز نہیں ہے کہ ہم اسی بنیا د پر کسی کو ہیرو اور کسی کو دہشت گرد مان لیں ۔میںکوئی عالم اور کوئی مشہور شخصیت میں سے تو ہوں نہیں کہ سب کے ساتھ مل کر میں بھی مذمت مذمت کا کھیل کھیلنے لگوں ۔ ہمارے عالموں کو تو بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر حالات کا مشاہدہ کئے فتویٰ دینے کی لت پڑ چکی ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب سے داعش کا شور سنا جارہا ہے اب تک تو سبھی مکتبہ فکر کے عالموں کا ایک گروپ عراق و شام جاکر خود سے حالات کا مشاہدہ کرکے آچکا ہوتا اور وہ امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کرتا ۔لیکن یہ لوگ مغربی ،صہیونی، ایرانی اور برہمنی میڈیا کے پروپگنڈہ سے جانے انجانے گمراہ تو ہو ہی رہے ہیں مسلم عوام کو بھی گمراہ کررہے ہیں ۔ساتھ ہی نا عاقبت اندیشانہ حرکتوں سے برادران وطن میں بھی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ واقعی مسلم نوجوان دہشت گردی کی راہوں پر چل پڑے ہیں ۔ آخر ایک سال قبل کی اس خبر کی جانب کوئی توجہ کیوں نہیں دے رہا ہے جب عراق سے پچاس کے قریب نرسیں ہندوستان آئی تھیں اور انہوں نے ان کے بارے میں آنکھوں دیکھی کیفیت بتائی تھی جن کو آج دنیا کا سب سے خطرناک دہشت گرد گروپ بتایا جارہا ہے ۔اور جن کی شبیہ ہر بیتے دن کے ساتھ اور دھندلی اور دہشتناک بنائی جارہی ہے ۔

(یو این این)


***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 477