donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof Mohsin Usmani Nadvi
Title :
   Woh Baat Khutbae Arfat Me Jiska Zikr Na Tha


 وہ  بات خطبہ عرفات میں جس کا ذکر نہ تھا


پروفیسر محسن عثمانی ندوی


مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع یوم عرفہ میں ہوتا ہے اور اس میں ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور یوم عرفہ کے خطبہ میں جو پیغام دیا جاتا ہے ساری دنیا کے مسلمان شاہ وگداامیر وغریب سب اسے سنتے ہیں،ہر ملک کے مسلم اخبارات اسے شائع کرتے ہیں ،ہر جگہ ریڈیو اور ٹی وی سے وہ نشر ہوتا ہے ، گویا گنبد مینا اس خطبہ سے گونجتا ہے ،اور اس کی باز گشت جنگل اور صحراء تک سنائی دیتی ہے ،اس سال امام حرم شیخ عبد الرحمن سدیس نے بیس لاکھ لوگوں کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کے سامنے ۱۱ ستمبر ۲۰۱۶ کویہ خطبہ دیا ، انہوں نے اس خطبہ میں بہت سی اچھی اچھی باتیں کیں جیسے ’’اللہ نے انسان کوزمین پر اپنا نائب بنایاہے ‘‘ اور’’ اللہ نے امت مسلمہ کے لئے دین اسلام کو منتخب کیا ہے ‘‘ اور’’ نبی کریم ﷺ نے آج کے دن خطبہ دیا اور عدل وانصاف کے احکام بتائے‘‘ اور ’’ اس وقت دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی کو کسی دین سے نہیں جوڑا جاسکتا ‘‘ اور  یہ کہ عالم اسلام اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے ‘‘ شیخ سدیس اس طرح کی باتیں خطبہ عرفات میںکہتے رہے تقریر میں انہوں نے ایک اہم جملہ یہ بھی کہا کہ ’’ مسلم حکمراں سن لیں کہ امت  سخت حالات سے گذر رہی ہے جب تک مسلمان مشترکہ طورپر کوشش نہیں کریں گے مسائل حل نہیں ہوں گے ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کا ہے اور مسجد اقصی ہمارا قبلہ اول تھا اس کی آزادی کے لئے جدو جہد کر نی چاہئے ‘‘ دوسو ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کو انہوں نے بتایا کہ امت سخت حالات سے گذر رہی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سخت حالات سے نپٹنے اور کسمپرسی اور ذلت کے اندھیروں سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کیسے کیا جاسکتا ہے انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مسجد اقصی کو آزاد کیسے کرایا جاسکتا ہے ۔ اب علماء حکمرانوں کے خوف سے حق گوئی سے کام نہیں لیتے ۔ اگر حق گوئی اور بیباکی سے کام لیا جائے تو یوم عرفہ کے موقعہ پر خطیب کو یہ صاف صاف کہنا چاہئے کہ مسجد اقصی کوواگذار کرانے کیلئے اور فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کو ختم کرنے لئے وہی طاقت حاصل کرنی ہوگی جواسرائیل کے پاس ہے جس نے فلسطینیوں کو گاجر اور مولی کی طرح سے کاٹ دیا ہے۔ طاقت کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عرب حکمرانوں کو صنعتی انقلاب لانا ہوگا ہر چیز کو باہر سے درآمد کرنے کا سہل طریقہ ختم کرنا ہوگا اور یہ کہ اسی معیار کے اسلحہ تیار کرنے ہوں گے جس معیار کے اسلحہ امریکہ اور اسرائیل کے پاس ہیں تاکہ مسلمانوں اور خدا کے دین کے دشمنوں پر خوف طاری ہوجائے ۔یہ وہ بات ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا تھا اور یہ وہ بات ہے جس پر عرب حکمراں عمل نہیں کررہے ہیں اور یہ وہ ضروری بات ہے جو خطبہ عرفات میں موجودنہیں ہے یوم عرفہ کے خطیب کو واشگاف لفظوں میں بے خوف ہو کر یوں کہنا چاہئے تھا:

’عرب مسلم حکمراں اور خلیجی سلطنتوں کے والا تبار امیر و سلطان ،آل سعود اورآل صباح اور آل نہیان ،غور سے سنیں کہ اگر وہ اسرائیل کے مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پوری قوم کو صارفین کی قوم کی بجائے کار آزمودہ ،کار پرداز اور اسلحہ ساز قوم بنا نا ہوگا،حال اور مستقبل کی نئی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، باہر سے مصنوعات کے در آمد کرنے پر پابندی لگانی ہوگی قوم وہی چیز استعمال کرے گی جسے وہ خود تیار کریں گے اور جب تک وہ خود تیار نہ کرنے لگے اس  وقت تک صبر سے کام لے گی ۔ خود باشاہ سلامت بھی قیمتی کار اس وقت تک استعمال نہ کریں گے جب تک ان کا ملک خود کار نہ بنانے لگے ، چلنا ہو تو پیدل چلیں گے کہیں جاناہو تو پاپیادہ جائیں گے اور اپنے پیروں کو لہو لہان کرلیں گے لیکن در آمد کی ہوئی کار استعمال نہ کریںگے،ان کے اندر ولولہ تازہ ہونا چاہئے ان کی اند ر جذبہ کا خروش اور صنعتی انقلاب کا جوش ہونا چاہئے وہ غم ہونا چاہئے تھا جو صلاح الدین ایوبی میں مسجد اقصی کے لئے پایا جاتا تھا وہ اپنے کو بر سر جنگ صلاح الدین ایوبی بنائیں جنگی سامان بنائیں ورنہ تخت سلطنت سے دست بردار ہوجائیں ، بہت ہوچکی ملت مسلمہ کی ذلت ، خون کے آنسو رلاتی ہے عالم اسلام کی حالت ، افغانستان میں درندگی کی انتہا کردی گئی سوڈان پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے لیبیا میں تشددختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے عراق کوکچل کر رکھ دیا کیا ،مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کرکے وہاںعیسائی ریاست کی تشکیل کی گئی ،اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں پر رات دن ظلم کررہا ہے شام میں خون مسلم پانی سے زیادہ ارزاں ہے ، محکومیت اور ذلت مسلمانوں کی پہچان بن گئی ہے اور یہی مسلم حکمراںہیں جو ذلت ونکبت کے براہ راست ذمہ دار ہیں ، ان حکمرانوں کو چاہئے تھاترقی یافتہ ایٹمی میزائیل بنائیںلانچنگ پیڈ بنائیں، ایٹم بم بنائیں، ہائیڈروجن بم بنائیں ٹینک اور بکتر بندگاڑیاں تیار کریں، جنگی طیارے بنائیں ، سائنس اور ٹکنولوجی میں وہ اپنے ملک کو ہمدوش ثریا کریں پوریٍ عالم اسلام سے سائنس اور ٹکنولوجی کے میدان کے جوہر قابل کواپنے یہاں بلائیں اور ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں اور خود یہ اذعان حاصل کریں کہ وہ  ابھی تک تحت الثری میں ہیں ، پسماندہ ہیں،ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلہ میں وہ کسی شمار قطار میں نہیں ہیں ایک اسرائیل جب چاہے ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے ، یہ شیشہ کے مکانات ،یہ رخشندہ فلزات ، یہ تعیش کے آلات ، یہ معیار زندگی یہ فریب آسودگی یہ سب جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے یہ ترقی نہیں پسماندگی ہے ،زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روگردانی ہے اس طرز زندگی سے کبھی مسجد اقصی کی واگذار ی ممکن نہیں ہے‘

   یہی اصل بات تھی جس کا کوئی تذکرہ یوم عرفہ کے خطبہ میںموجود نہ تھا ۔ امریکہ اور یورپ کے ذریعہ افغانستان اور عراق کوکھنڈر بنا دئے جانے کا دلدوز واقعہ عصر حاضر کے مفکر اور جلیل القدر عالم مولانا علی میاں نے نہیں دیکھا تھاان کو اللہ نے پہلے اٹھالیا تھا، ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے مسلم حکمرانوں کو جو انہوں نے مشورے دئے تھے اس پر ایک نظر ڈالئے وہ اپنی کتاب انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر میں لکھتے ہیں :

 ’’عالم اسلام کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا ، اگر اس کو اسلام کے پیغام کی خواہش ہے اور وہ دنیا کی قیادت کا فرض  انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو اس کے لئے ممتاز قوت اور تربیت اور صنعت وعلوم ، تجارت اور فن حرب میں مکمل کی ضرورت ہوگی ،اس کو زندگی کے ہر شعبہ میں اور اپنی ہر ضرورت میں مغرب سے مستغنی اور بے نیاز ہونا پڑیگا ،اور اس سطح پر ہو کہ اپنے لئے پہننے اور کھانے کا سامان کرسکے ، اپنے لئے ہتھیار تیار کرسکے ، اپنی زندگی کے معاملات کا انتظام  اس کے ہاتھ میں ہو،اپنی زندگی کے خزانے وہ خود برآمد کرسکے اور اس سے فائدہ اٹھا سکے اپنی حکومتوں کو اپنی دولت اور اپنے آدمیوں کے ذریعہ چلاسکے، اس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے سمندروں میں بحری بیڑے اور جہاز شور کررہے ہوں ، اور وہ دشمن کا مقابلہ اپنے یہاں کے جنگی جہازوں اور توپوں اور ہتھیاروں سے کریں اس کی برآمد اس کی درآمد سے زیادہ ہو اور اس کو مغربی ممالک سے قرض لینے کی ضرورت پیش نہ آئے ،اس کو کسی کے جھنڈے کے نیچے آنانہ پڑے ، اور وہ کسی کیمپ میں شامل ہونے پرمجبور نہ ہو ۔

     جب تک عالم اسلام علم وسیاست صنعت وحرفت وتجارت میں مغرب کا محتاج رہے گا مغرب اس کا خون چوستا رہے گا،اس کی زمین کا آب حیات نکالے گا ،اس کا سامان تجارت اور مصنوعات ہر روز اس کی منڈیوں ، بازاروں اور جیبوں پر چھاپہ ماریں گے اور اس کی ہر چیز پرہاتھ صاف کرتی رہیںگی،جب تک عالم اسلام مغرب سے قرض لیتا رہے گا اور اپنی حکومت کا انتظام کرنے ، اہم کلیدی عہدوں کو پر کرنے اپنی فوج کو ٹریننگ دینے کے لئے مغرب کے آدمیوں کا رہین منت رہے گا ، وہاں کا سامان تجارت اور صنعت منگائے گا اور اس کو اپنا اتالیق اور استاذ مربی اور سرپرست حاکم اور سردار سمجھے گا اس کے حکم اور اس کی رائے کے بغیر کوئی کام نہیں کرے گا اس وقت تک وہ مغرب سے مقابلہ کرنا تو درکنار اس سے آنکھیں بھی نہیں ملاسکتا  ۔

      یہ علمی اور صنعتی زندگی کا وہ شعبہ تھا جس کے بارے میں عالم اسلامی نے عہد ماضی میں کوتاہی سے کام لیا اور جس کی تعزیر میں اس کو طویل ذلیل زندگی کا مزہ چکھنا پڑا اور اس پر مغربی قیادت اور سرداری مسلط کردی گئی جس نے دنیامیں تباہی وغارتگری، قتل و خونریزی اور خودکشی برپا کی ، اب اگر اس موقعہ پر بھی عالم اسلامی نے علمی صنعتی تیاری اور اپنی زندگی کے معاملات میں آزادی کے بارے میں غفلت برتی اور اس مرتبہ بھی اس سے یہ چوک ہوگئی تو دنیا کی تقدیر میں بدنصیبی اور شقاوت لکھ دی جائے گی اور انسا نیت  کے ابتلا کی مدت اور طویل ہوجائیگی۔‘‘

( انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثرص۳۵۱)

     
مسلمانوں کی نکبت وناسازگاری بے چارگی اور درماندگی کا علاج  اس کی سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ مصاف زندگی میں فولاد کی طاقت پیدا کریں مادی اسباب اور ٹکنولوجی سے غفلت نہ برتیں ۔ کاش خلیجی حکمراں شروع سے یہ کام کرتے اور عیش کوشی اور غفلت میں مبتلا نہ ہوتے ۔

 پاکستان کے ایک معروف عالم دین مولانا محمد یوسف بنوری ہیں ان کی تحریر بھی قابل غور ہے:

’’ عالم اسلام بالخصوص عرب کے صحراؤں میں قدرتی وسائل ، خام ذخائر اور مال ودولت کی کمی نہیںبلکہ فراوانی ہے ، گر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان کے مال ودولت کا بڑا حصہ یا تو غیر ملکی بینکوں میں جمع ہونے کی وجہ سے دشمنان اسلام کے کام آتا ہے ، بادشاہ خرچی ، عیش پرستی، عافیت کوشی ،اور آسائش پسندی کے لئے ضائع کیاجاتا ہے ، لیکن فوجی استحکام ، عسکری تربیت ، اور اسلحہ سازی تقریباً صفر ہے ،دشمنان اسلام ہر جگہ ہوائی اڈے ،بحری بیڑے، فوجی چھائونیاں، اور اسلحہ سازی کے بڑے بڑے کارخانے قائم کررہے ہیں ،مگر مسلمان خدا فراموشی کے ساتھ ظاہری تدبیر سے بھی مجرمانہ غفلت میں مست ہیں۔‘‘

پاکستان کے ایک اور ممتاز عالم مولانا ظفر احمد عثمانی تاریخ تمدن اسلام  وعرب میں تحریر کرتے ہیں:

     ’’  دشمن کے مقابلہ میں قوت حرب ( جنگی طاقت) کو اس حد تک بڑھانا چاہئے کہ دشمن پر ہیبت طاری ہوجائے  ، ہمارے پہلے خلفاء اور سلاطین اس حکم پر پوری طرح عامل تھے ،حضرت معاویہ نے خلافت بنی امیہ میں پانچ سو بحری جہازوں کا جنگی بیڑا تیار کیا تھا ، وہ دشمن کی جنگی قوت سے مدافعت کا پورا ساما ن تیا ر کرتے تھے دوسروں کے دست نگر نہ تھے جیسے ہم آج کل دوسروں کے محتاج ہیں ،سب مسلمانوں کومل کر اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرنے چاہئیں اور نئی نئی ایجادیں بھی کرنی چاہئے یہ سب ’’اعدوا لہم ما استطعتم ‘‘ میں داخل ہیں‘‘۔

حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری ایک برگزیدہ بزرگ شخصیت کا نام ہے بڑے بڑے علماء دین ان کے ہاتھ پر بیعت تھے انہوں نے اس پر قلق اور افسو س کا اظہار کیا کہ مسلمان ممالک صنعت وحرفت اور اپنی ضرورت کو اپنے ملک میں پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیںکرتے ،اور ان کی زیادہ تر دولت باہر سے ضروریات زندگی کے در آمد کرنے پر صرف ہوتی ہے،مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ شعبان ۱۳۸۱ مطابق جنوری ۱۹۶۲ میں راقم نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ کویت اور قطر کا سفر کیا جب اجازت اور رخصت کے لئے رائے پور حاضرہوا تو بڑی عنایت اور محبت سے رخصت فرمایا ، چلتے وقت خصوصیت سے فرمایا ’’ ان بھلے مانسوں سے کہنا کہ اپنی دولت کا صحیح استعمال کریں، کارخانے بنائیں اور صنعتوں کو رواج دیں ‘‘۔مولانا علی میاں نے مزید یہ لکھا ہے کہ حضرت رائے پوری کہا کرتے تھے کہ جب تک کوئی ملک اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہوتو اس زمانہ میں دین اور دنیا کاکوئی کام نہیں کرسکتا  

(سوانح مولانا عبد القادر رائے پوری ۲۷۹ ، ۲۸۰)

یوم عرفہ کے خطبہ میں حکمرانوں کو اس اہم ترین بات کی طرف توجہ نہ دلانا سنگین ترین غلطی ہے،اورحکمرانوں کا سائنس اور ٹکنولوجی کو ترقی نہ دینا مہلک ترین غلطی ہے اور اپنی اس غلطی کو نہ جاننا بے شعوری کی معراج ہے ۔ کسی کو اس تنقید و احتساب پر چیںبجبیں ہونے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے نظام حکمرانی میںایک معمولی شخص کو بھی حکمراں پر تنقید کا حق حاصل ہوتاہے اور اسلام کے نظام حکمرانی میں کسی حکمراں کو ملک پر مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہوتے وہ ملک کے باشندوں کی طرف سے صرف وکیل انتظامی ہوتا ہے۔بات کڑوی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ عہد حاضر میں مسلمانوں کی بربادی  کے ذمہ دار آج کے مسلم حکمراں ہیں اور ان سے بھی زیادہ ذمہ دار وہ علماء ہیں جو کلمہ حق کہنے سے گریز کرتے ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ منڈلاتے ہوئے خطرہ کا شعور ہی موجود نہیں ہے۔ ایک کوا جب کہیں خطرہ محسوس کرتا ہے تو کائیں کائیں کرکے تمام کووں کو جمع کرلیتا ہے سب کو ہوشیار کردیتا ہے ۔ اس وقت پورا عالم اسلام خطرہ میں ہے لیکن خطرہ کا احساس نہیں پایا جاتا ہے ۔ خطرہ کا احساس پایاجاتا تو خطبہ عرفات میں اس کا ذکر ضرور آتا ۔احساس کاپایا جانا خود ایک دولت ہے اسی لئے اقبال نے اپنی منظوم دعا میں یہ کہا تھا ’’ احساس عنایت کر آثار مصیبت کا ‘‘ لیکن مصیبت کی ہولناکی کا کسی کو احساس نہیں ،عالم اسلام کے لئے ترقی ونہضت کا راستہ صرف وہی ہے جسے مولانا علی میاں نے اور دوسرے علماء نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے اگر حکمرانوں نے اس پر عمل نہیں کیا تو سواد امت کو ان کا گریبان پکڑنے کا حق حاصل ہوگا کیونکہ ان کی غلطی کا خمیازہ دنیا میںپوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میںیہ شعور بیدار کیا جائے کہ موجودہ شکست وریخت اور زوال اور انحطاط کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹکنولوجی میں دنیا کی قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور جب تک سائنس اور ٹکنولوجی اورصنعت میں ترقی یافتہ قوموں کے ہمسر نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک ان کو جرم ضعیفی کی سزا ملتی رہے گی ۔اس پیغام کوپھیلانے اورعرب اور مسلم دنیا میں اس کا صور پھونک دینے کی ضرورت ہے ۔

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 499