donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Iraq Jang Ko Ghalat Rukh Dene Ki Koshish


عراق جنگ کوغلط رخ دینے کی کوشش 


عراق میں جاری خانہ جنگی کومسلکی تشددکا نام دے کر مسلمانوںکوآپس میں لڑانے کی سازش رچی جارہی ہے

صابررضارہبر


عراق ایک بارپھرلہولہوہے،قتل وغارت کا بازارگرم ہے اورچنگیزی طاقتیں بغدادمیں خون خرابے کی تاریخ دوہرانے کے درپے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ آج جوکچھ عراق میں ہورہاہے اس کی بنیادامریکہ اوربرطانیہ نے ہی اپنے اتحادیوںکے ساتھ رکھی تھی ۔یہ امریکہ و برطانیہ اور ان کے حلیف ممالک تھےجنہوں نےبے بنیادالزامات کی آڑمیں عراق کوتباہ کردیالیکن عراق کی موجودہ تصویرکیلئے خودکوذمہ دارنہ تصورکرتے ہوئے بڑی شرمی کے ساتھ برطانیہ کےسابق وزیراعظم ٹونی بلیئرنے کہہ دیاکہ عراق میں جوکچھ ہورہاہے وہ ۲۰۰۳ ءکا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ اگرصدام حسین کوپھانسی نہیں بھی دی جاتی تب بھی اس طرح کے حالات پیدا ہونا تھے۔یادرہے کہ یہی  ٹونی بلیئرتھے جنہوں نے اسلام کوایک دہشت پسند مذہب تعبیر کرتے ہوئے کہا تھاکہ اگراس کا قدم نہیں روکاگیا تویورپ میں اس کا دائرہ بہت جلدپھیل جائےگا۔پھرایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرعالم اسلام کوتاخت وتاراج کرنے کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔افغانستان کے بعدعراق ،پاکستان ،شام اورپھرعراق ۔دنیا کوآج جارج ڈبلیوبش اورٹونی بلیئرسے پوچھناچاہئے کہ عراق میں امن قائم کرنے کےان کے وعدوںکاکیاہوا؟۔یہ تو واضح ہی ہے کہ عراق میں جاری خانہ جنگی کابراہ راست فائدہ امریکہ کوحاصل ہوگا۔اس جنگ سے عراق وایران کوکچھ ملنے والانہیں ہے کیوںکہ یہ آگ جس نے لگائی ہے وہ  اس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش میں مصروف ہے۔بیرونی طاقتیں ہربارمسلم ممالک میں ٹکراؤ کی صورت پیداکرکے طرفین سے مٹھی گرم کرتی رہی ہیں لیکن بہت کچھ لٹانے کے باوجود مسلم ممالک کے سربراہان کے ہوش ٹھکانے نہیں لگے ہیں ۔


میں اس میں کسی تذبذب کا شکارنہیں ہوںکہ عراق میں جاری کشت وخون مسلکی جنون کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ اقتدارکی ہوس پوراکرنے کی مذموم کوشش ہے لیکن کچھ طاقتیں اسے شیعہ سنی  تصادم قراردے کرایک بارپھرمسلمانوں کے دوطبقوںکوباہم لڑانے کی سازش رچ رہے ہیں ۔یہ کوشش بین الاقوامی سطح سے لے کرقومی سطح تک ہورہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اسے سنی دہشت گرداورشیعہ کے درمیان جاری جنگ کہہ رہاہے جبکہ بی جے پی لیڈرسبرامنیم سوامی نے تویہاں تک اعلان کردیاکہ اس جنگ میں ہندوؤںکوشیعہ کا ساتھ دینا چاہئے کیوںکہ شیعوںکا رویہ ہندووںکے تئیں نرم ہوتاہے۔انہوںنے کہاکہ ہمیں عراق کی مددکرنی چاہئے اوراسرائیل سے دوستی نہیں توڑنی چاہئے ۔مجھے سبرامنیم کی اس دریادلی پر بے ساختہ ہنسی آگئی کیونکہ وہ مسلمانوںکے خلاف زہراگلنے کیلئے جانے جاتے ہیں ،کبھی انہوںنے مسلمانوںکوووٹ دینے کےحق سے بھی محروم کردئے جانے کا مطالبہ کیاتھا اس وقت انہوںنے شیعہ سنی کی تفریق بھی نہیں کی تھی پھرآج ان کے فکرمیں اچانک تبدیلی کسی گہری سازش کا نتیجہ ہوسکتاہے۔کہیں ایساتونہیں کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے کی تیاری چل رہی ہے اورمسلمانوںکو کمزورکرنے کیلئے شیعہ کے ساتھ دوستی اورسنی کے ساتھ دشمنی کا دکھاواکیاجارہے۔


برسوںپہلے ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی۔ تین آدمی گناکے ایک کھیت سے گنا توڑکرکھاتے ہوئے پکڑےگئے۔کسان  تنہاہونے کی وجہ سے ان کو چوری کا سزادینے سے قاصرتھا۔اسےایک  تدبیر سوجھی ۔اس نے ان تینوںسے اس کاگھراوراسکی ذات پوچھی۔ پھرایک طرف مخاطب ہوکرکہنے لگا ’ یہ ان دونوںمیں توایک میرے گائو ںکے قریب کا ہے اوردوسرامیری ذات کا ہے اس لئےاس نے گناتوڑلیالیکن تم نہ تومیرے گاؤ ںکے  ہواورنہ ہی میری ذات کے ہو۔اس کے بعددونوںچوراورمالک نے مل اس کی جم کرپٹائی کی اورآگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دورجاکرکھیت مالک نے ایک کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ تو میری ذات  کاہے اس لئے میرا کھیت اس کا کھیت ایک ہی جیسا ہے لیکن تم تومیرے گاؤںکے بھی نہیں ہونہ ہی میری ذات کےہوپھرتم نے میرے کھیت سے چوری کیوںکی؟جب کھیت مالک اس کوٹھکانے لگاچکاتوتیسرے کی جانب مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ تم میری ذات کےہوتوکیا میرے کھیت سے چوری کروگے ؟چوں کہ چورتنہابچ گیاتھا اس لئے اس کا بھی حشراس کے دیگردوستوںکا ہوا۔

یہ فقط ایک کہانی نہیں ہے بلکہ عصرحاضرمیں مسلمانوںکیلئے درس عبرت ہے ۔گجرات میں جب قتل عام ہواتووہاں یہ نہیں دیکھاگیا کہ کون شیعہ ،کون سنی ہے بلکہ بنام مسلم جوسامنے آیااسے مشق ستم بنایاگیا، گھروں اور دکانوں کوجلاتے وقت شیعہ اورسنی کا خیال نہیں رکھاگیا۔ سبرامنیم کی ہمدردی کوگہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کیوںکہ گجرات میں بھی ہندوؤںنے بھورا(شیعہ) کویہ اعتماددلایاتھاکہ ہمیں تم سے کوئی غرض نہیں بلکہ سنیوںسے نبٹنا ہے لیکن آج شواہدمنافقانہ پالیسی کا پول کھول رہے ہیں۔سبرامنیم کواگرواقعی انسانیت کا درد ہے توانہیں شیعہ سنی کی تفریق کرنے کے بجائے انسانی لہوکی حفاظت کی بات کرنی چاہئے ۔خون توخون ہی ہے خواہ وہ کسی کا ہو،اس کا رنگ لال ہی ہوگا ہمیںبلا تقریق مذہب مظلوموںکا ساتھ دیتے ہوئے انصاف کا تقاضہ پورا کرنا چاہے۔ مسلک ومذہب اورقبائل کی دیوارکے پس پردہ اپنے ناپاک ارادوںکی تکمیل کا موقع ڈھونڈناموقع پرستی اورخودغرضی ہے۔

عالم عرب میں کبھی جہادتوکبھی مسلکی تشددکے نام پرخانہ جنگی کابازارگرم ہے ،افغانستان ،شام ،مصر،پاکستان اورعراق گزشتہ کئی برسوںسے زبردست خانہ جنگی کے شکارہیںحالاںکہ وہاں مسلک کےنام پرجاری رقص ابلیسی کا تعلق کسی بھی نہج سے اسلامی جہادسے نہیںہے۔مسلم ممالک میں پھوٹنے والی خانہ جنگی کو بڑی چالاکی سے اہل مغرب نے بہارعرب کا نام دیدیا ۔مسلم سربراہان کوظالم اورعوام کومظلوم قراردیتے ہوئے عوام سے جھوٹی ہمدردی کا اظہارکرکے عوام کے ہاتھوںمیں مہلک ہتھیارتھمادئے۔ اسی ہمدردی کا نتیجہ تھاکہ شام میں مہلک گیس نے سیکڑوںبچوںکوتڑپاتڑپاکرموت کے گھات اتاردیا اوریہ بھی اسی منافقت کی دَین ہے کہ آج جنگ زدہ ممالک سے ہجرت کرنے والے مسلمانوںکی تعدادبڑھتی جاری ہے ۔ پہلے میانمارمیں مسلمانوںپرعرصہ حیات تنگ کیا گیا اوریہ آگ سری لنکاتک پہنچ گئی جہاں انتہاپسندبودھوںکے ذریعہ مسلمانوں پر ظلم وتشددکا سلسلہ جاری ہے ۔جمہوریہ افریقہ کوبھی مسلمانوںسے پاک کرنے کی تحریک شروع کردی گئی اورسیکڑوںمسلمانوںکوتہہ تیغ کردیاگیا لیکن حیرت اس بات پرہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کی اس منظم سازش کوعالمی میڈیااورانصاف کے علمبرداراہل مغرب نے کبھی دہشت گردی سے تعبیرنہیں کیا۔

 دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پردہشت گردی کوفروغ دینے کا سلسلہ جاری ہے اورپوری دنیا اس کی لپیٹ میں آتی جارہی ہے۔ایسے ہولناک ماحول میں اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے مقصدکوپوراکرتےہوئے دنیا کوجنگ کی آگ میں کودنے سے بچائے ۔صرف زبانی مذمت سے حالات کنٹرول ہونے والے نہیں اس لئے اقوام متحدہ کو سخت فیصلہ لینا ہوگا ۔ سب سے پہلے امریکہ اوراس کے اتحادی کو لگام لگانا ضروری ہے کیوںکہ آج عراق ،افغانستان ،پاکستان اورشام میں جوخون کی ندیاںبہہ رہی ہیں اس کی بنیاد سابق امریکی صدرجارج ڈبلیو بش اوربرطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئرنے رکھی تھی ۔جنگی جرائم قانون کے تحت ان دونوںجنگی مجنوںکے خلاف مقدمہ چلاناچاہیے ۔لیکن اقوام متحدہ جس طرح امریکہ کی کٹھ پتلی بنتا جارہاہے ا س کے پیش نظرمجھے امیدقوی ہے کہ اقوام متحدہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا جس سے امریکہ ناراض ہو۔اقوام متحدہ کی بے بسی تواسی وقت سامنے آگئی تھی جب ہزارمخالفتوںکے باوجودامریکہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔جنگ وجدال کی تاریخ شاہدہے کہ جنگ کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں نکال سکی ہے ،جب بھی کہیں امن کا سویراقائم ہوا ہے۔ اس میں باہمی گفتگواورآپسی صلح پسندی نے ہی اہم کردارنبھایاہے ا س کے باوجود آج قومی وبین الاقوامی سطح پرہرچھوٹے بڑے مسئلہ کوحل کرنے کیلئے جنگ کا بازارگرم کردیاجاتا ہے اورپھرپلک جھپکتے ہی خداکی زمین انسانوںکے لہوسے لالہ زارنظرآنے لگتی ہے۔

مضمون نگار پٹنہ انقلاب میں سب ایڈیٹر ہیں

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 516