donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Tabrez Qasmi
Title :
   Aapsi Inteshar Muslim Duniya Ke Liye Baase Tashweesh


آپسی انتشار مسلم دنیا کے لئے باعث تشویش


شمس تبریز قاسمی


گزشتہ 2 جنوری کو سعودی عرب میں دہشت گردی ، قتل و غارت گری ، فساد فی الارض اور دیگر جرائم میں ملوث 47 افراد کوتختہ دار پر لٹکا یا گیا ہے ،جن 47 افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے ان میں سے اکثر تعلق کا القاعدہ سے ہے جو مسلک کے اعتبار سے سنی ہیں ، موت کی سزا پانے والوں میں ایک مجرم وہ بھی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل بی بی سی کے نمائندے فرینک گارڈنر پر سعودی دارالحکومت ریاض میں فائرنگ کی جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر کے لئے مفلوج ہوگیا، سز ایافتہ کی فہرست میں ایک شیعہ عالم دین باقر النمر بھی شامل ہیں جنہیں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور باغیوں کی قیادت کرنے کے جرم میں سزائے موت دی گئی ہے۔لیکن شیعہ رہنما کی پھانسی کے بعد خطہ میں ٹھنڈ پڑی شیعہ ،سنی جنگ ایک مرتبہ پھر شباب پر پہونچ گئی ہے ، سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کا بالکلیہ خاتمہ ہوگیا ہے ، بحرین اور قطر نے بھی سفارتی تعلقات ختم کرلیا ہے ، عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے ۔

 شیعہ رہنما النمر پر الزام تھا کہ انہوں نے 2011میں ہونے والے سعودی حکومت مخالفت مظاہروں کی قیادت کی اور مشرقی صوبے کی عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت پرآمادہ کیا۔ مشرقی صوبہ میں تقریبا چالیس لاکھ شیعہ آباد ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایرانی انقلاب سے متاثر ہیں۔ النمرو بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے انقلابی کے بعد 1979 میں ایران جاکر ایک شیعہ مدرسے میں تعلیم حاصل کی اور ایک دہائی سے زیادہ تک ایران میں قیام پذیررہے، اس دوران انہوں نے شام کا بھی سفر کیا ۔1994 میں واپس سعودی عرب آکر انہوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی۔ القطیف سے تعلق رکھنے والے النمر2002 میں نمایاں ہوئے ، عوام میں ان کا چرچا اور اس کے بعد ان کی مقبولیت قومی سطح پر بڑھتی رہی۔2011میں جب تیونس سے عرب بہار یہ کی تحریک شروع ہوئی تو اس سے سعودی عرب بھی محفوظ نہیں رہ سکا  اور وہاں کے مشرقی صوبہ میں حکومت مخالف مظاہرے کئے گئے جن کی قیادت شیعہ رہنما النمر کررہے تھے۔2012ء میں النمر کو لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ،عدالت میں کاروائی ہوئی اور فساد فی لارض کا جرم ثابت ہونے کے بعد 2014 میںانہیں  موت کی سزا سنائی گئی جس پر عملدرآمد 2جنوری2016 کو ہوا۔

النمرو کی پھانسی کے بعد ایران نے اپنے میڈیا کے ذریعے اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ، یہ باور کرایا گیا کہ سعودی عرب ایک سنی ریاست ہے اور النمرو ایک شیعہ عالم تھے اس لئے النمرو کی پھانسی کی وجہ ان کا شیعہ مسلک سے ہونا ہے اور بس ،سعودی عرب مسلک اور گروہ بندی کی بنا پر سزائے موت صادر کررہی ہے ، اس خبر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ جن 47کو پھانسی دی گئی ہے ان میں صرف تین شیعہ تھے ،بقیہ تمام سنی تھے ،ان میں القاعدہ کی سرکردہ شخصیات بھی تھیں۔ النمر کو تختہ دار پرلٹکائے جانے کے بعد ایران سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں احتجاج ہوا ، سعودی سفارت کا خانہ کے باہر مظاہر ہ کیا گیا لیکن ایران میں یہ سب حدسے تجا وز کرگیا ، مظاہرین نے سفارت خانہ پر حملہ کردیا ،اس کی عمارتوں کو آگ کے حوالے کردیا ،وہاں لوٹ مار کی اور انتظامیہ خاموش رہی ، بہت دیر بعد پولس نے مظاہرین کو وہاں سے منتشر کیا ۔اس واقعہ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات خرا ب ہوگئے، سعودی عرب نے حکومت پر مظاہرین کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا اور ایرانی سفیر کو 24 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ، وہاں کے لئے پرواوزیں معطل کردی ۔ دیگر عرب ملکوں نے بھی سفارتی تعلقات ختم کرلیئے ہیں، یا اس ضمن میں غوروفکر کرہے ہیں ، حتمی فیصلہ عرب لیگ کے اجلاس کے بعد ہوگا۔

 سعودی حکومت نے جن لوگوں کو موت کی سزا دی ہے ان میں صرف ایک شیعہ ہیں بقیہ تمام کا تعلق سنی مذہب سے ہے ایسے میں سعودی حکومت پر سوال اٹھانا ،عدالتی فیصلے کو ایک مخصوص نظریہ سے جوڑنا اور پھر اس کے لئے سعودی سفارت پر حملہ کرنا کسی بھی طرح سے درست قرارنہیں دیا جاسکتا ہے ۔ ایران نے بھی گذشتہ دنوں 35 سنی مسلمانوں کو تختہ دار پر لٹکایا تھا ، 1979 کے انقلاب کے بعد سے ہی ایران پر یہ الزام ہے کہ وہاں سنی مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کردی گئی ہے کہ ، راجدھانی تہران میں ایک بھی سنی مسلمانوں کی مسجد نہیں ہے ، چند ماہ قبل ایک مسجد تعمیر کی جارہی ہے تھی جو منہدم کردی گئی ،وہاں سنیوں کو عیدن پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے ، حکومت کے اعلی عہدوں پر سنی مسلمانوں کو بحال نہیں کیا جاتاہے ، وہاں کئی ایسے شعبے ہیں جہاں اعلی عہدوں پر یہودی اور  دیگر مذہب کے لوگ تو متمکن ہیں لیکن سنی مسلمان نہیں ہیں ، ان سب کے باوجود اسے ایران کا داخلی معاملہ سمجھاجاتاہے ، شیعہ سنی جنگ کا نام نہیں دیا جاتا ہے، اسی طرح سعودی عرب کی بھی یہ کاروائی اس کا داخلہ معاملہ ہے ، شیخ النمرو کی پھانسی کا تعلق شیعہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت مخالف اقدام کرنے کی بناپر ہے ،ان کے ساتھ 45 سنیوں کو بھی تختہ دار پر لٹکا یا گیا ہے ، حالاں کہ 27دسمبر2015کو ایرانی صدر حسن روحانی نے تہران میں منعقدہ انٹرنیشنل اسلامک یونٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عر پ پر سخت نکتہ چینی کی تھی ،اسے دہشت گردی پھیلانے والا ملک قرار دیا تھا اور کہاتھا کہ سعودی عرب اسلام کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

سعودی عرب ان دنوں دہشت گردی کے مسئلہ سے دوچار ہے ، نائن الیون کے بعد ہی وہ مسلسل دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے ، ابھی چند دنوں سے قبل ریاض کی قیادت میں 34 ممالک پر مشتمل دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے ایک فوجی اتحاد قائم کیا گیا ہے۔عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کردار کو سراہا ہے اور اس کو اس جنگ میں ایک اہم اتحادی قرار دیا ہے۔ القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ان گروپوں میں شامل ہونے والے اپنے تمام شہریوں کے خلاف وہ سخت کاروائی کررہاہے۔

مشرق وسطی مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے ، داعش کے وجود میں آنے کے بعد یہ خطہ اغیار کے نشانے پر ہے ،تیسری عالمی جنگ کے آثار نمایاں ہیں ، فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت جاری ہے ،ایسے میں شیعہ ۔سنی جنگ ، کسی ملک کے اندرونی معاملے میں دخل اندازی، عدالتی فیصلہ پر سوالیہ نشان قائم کرنا اور مسلم ملکوں کے درمیان یہ آپسی انتشار پورے خطے اور مسلم دنیا کے لئے باعث تشویش اور افسوسناک ہے ، داعش کے خلاف جاری لڑائی بھی اس سے متاثر ہوگی،دہشت گروپوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، اسلام دشمنوں طاقتوں کو مزید موقع ملے گا اور عالم اسلام ایک مرتبہ پھر اپنی بربادی کا سامان خود فراہم کرنے والا ثابت ہو گا۔


stqasmi@gmail.com


*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 560