donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Tabrez Qasmi
Title :
   Tere Samne Aasma Aur Bhi HaiN


تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں


شمس تبریز قاسمی


مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کے سنگم پرو اقع ملک ترکی میں گذشتہ نوے سالوں سے رائج پارلیمانی جمہوری نظام ختم ہونے کے کگار پر ہے ۔ عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن رجب طیب اردوان اپنے مقاصد میں کافی حدتک کامیاب ہوچکے ہیں ا ور توقع ہے آئندہ برسوں میں وہ ترکی کے پارلیمانی نظام کو طاقتور صدارتی طرزحکومت میں تبدیل کرنے میں سو فی صد کامیا بی سے ہم کنار ہوجائیں گے ۔ یہ سچ ہے کہ 7 مئی کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں رجب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں 18 سیٹوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ جب کہ انہیں اپنے صدارتی نظام کو متعارف کرانے کے لئے اس الیکشن میں دوتہائی کی اکثریت درکار تھی ۔ترکی کی پارلیمان میں کل 550 نششتیں ہیں جس میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لئے 276 نششتوں کی تعداد ضروری ہے اور دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے 330 ۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ کو کل 258 سیٹیں ملی ہیں جو 42 فی صد ووٹوں کا نتیجہ ہے۔ حکومت سازی کے لئے اب کسی پارٹی کا سہار الینا ہوگا ۔ یوںتیرہ برس بعد ترکی میں ایک مرتبہ پھر مخلوط حکومت بنے گی اور اے کی پی کی بلاشرکت غیر اقتدار کا سلسلہ ختم ہوجائے گالیکن ان سب کے باوجود ملک کی سب سے بڑی پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولیپمنٹ ہی رہے گی ۔ اول مرحلہ میں ملک کی 42 فی صد عوام اردوان کے اس نظریہ سے متفق ہوچکی ہے کہ کمال اتاترک کے قائم گئے پارلیمانی نظام کو وہ پسند نہیں کرتی ہے ،وہ صدارتی نظام کی خو اہاں ہے ۔  جو سب سے بڑی کامیابی ہے ۔

 1919 میں 631 سالوں تک قائم رہنے والی عالم اسلام کی سب سے مضبوط ترین اور طاقتور حکومت سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مصطفی کمال اتاترک نے 1923 میں پارلیمانی جمہوریہ کی بنیاد ڈالی جس کا بنیادی عنصر اسلامی تہذیب و ثقاقت کا خاتمہ ، مذہبی اقدار سے رودگردانی ،لادینیت کا فروغ اور مغربی ممالک کے مفاد کو پروان چڑھانا تھا ۔طویل عرصے تک اقتدار پر قابض ہونے والے تمام سربراہوں نے مصطفی کمال کے ذریعے کی گئی اصلاحات کو ہی آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔1960  میں وزیر اعظم عدنان میندریس نے پہلی مرتبہ ملک کو سیکولرزم کی نئی تعریف سے روسناش کرایا ۔مذہب پر عائد بے جا پابندیاں ختم کی ۔ مصطفی کمال نے جس سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی اس میںتبدیلی کاسلسلہ شروع کیا لیکن فوج نے اسے برداشت نہیں کیا اور ان کے خلاف  بغاوت کرکے تختہ پلٹ دیا ۔ ترکی میں اسلام پسند تحریکوں کو کچلنے کی مسلسل کوششوں کے  درمیان1995 کے انتخابات میں معجزاتی طور پر پہلی مرتبہ اسلام پسند رفاہ پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری اور واضح اسلامی نقطہ نظر رکھنے والے نجم الدین اربکان ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔ رفاہ پارٹی کے اسلام پسند نظریات کے بعد قومی سلامتی کونسل کے ساتھ ان کے تعلقات میںخرابیاں پیدا ہوگئیں۔ یہ اندیشے بھی سر اٹھانے لگے کہ کہیں نئی حکومت ترکی کے سیکولرزم نظام اور مغرب کی طرف التفات کی پالیسی کو تباہ ہی نہ کردے۔ آخر کار قومی سلامتی کونسل کے دباؤ میں آکر  1997 میں اربکان کو مستعفی ہونا پڑا اور ان پر تاحیات سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ رفتہ یہ پارٹی بھی ختم ہوگئی۔اسی رفاہ پارٹی سے نکلے ہوئے لوگوں میں سے ایک گروپ نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی بنائی جسے 2002 کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی ملی اور عبد اللہ گل وزیر اعظم بنے ۔2003 میں اردوان پر جب عائد سیاسی پابندی ختم ہوگئی تو وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے اور عبد اللہ گل صدر بن گئے۔ 2014 میں رجب اردوان نے ملک  کے پارلیمانی نظام کو بدلنے کی پہل کی ۔ پہلی مرتبہ وہ عوام کے منتخب کردہ ووٹوں سے صدر منتخب ہوئے اور وسیع تر اختیارات صدر مملکت کے حوالے کئے گئے۔ حالیہ الیکشن میں دوتہائی ممبران سے اس صدارتی نظام کو پاس کرانے کا منصوبہ تھا ۔


گذشتہ تیرہ سالوں میں اردوان کی زیر قیادت حکومت نے تمام شعبوں میں ترکی کو ترقی کے ساتویں آسمان پر پہچادیا ۔ معاشی اعتبار سے ترکی دنیا کے تیز رفتار ترقی کرنے والے ٹاپ ٹین ترقی پذیر ممالک میں شامل ہوگیا۔ عدالتی اصلاحات کی کوششیں ہوئیں۔انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں کثیر سرمایہ کاری ہوئی۔سفارتی رشتے بھی خوشگوار بنائے گئے ۔ مسلم ممالک کے مفاد اور ان کے حقوق کی پاسبانی بھی کی گئی۔ ہرجہت سے ترکی کی ترقی ہوئی ۔

ترکی کے اس انتخابی نتائج کو عالمی میڈیا میں رجب اردوان کی تنزلی اور ان کی مقبولیت میں ہوئی کمی کے نظریہ سے دیکھا جارہا ہے۔جسٹس اینڈڈیوپلیمنٹ پارٹی گذشتہ تین الیکشنوں سے تن تنہا اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔2002-2007-2011 کے الیکشن میں اسے شاندار کامیابی ملی ہے اور تیرہ سالوں سے تن تنہا یہ پارٹی بر سراقتدار رہی ہے لیکن اس الیکشن میں سادہ اکثریت کی تعداد کو بھی نہ پہچ پانا اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی کی عوام اب رجب ادوان کو نہیں چاہتی ہے ۔ طیب کی پالیسی ان کے لئے ناپسندیدہ ہے ۔ اس ضمن میں طرح طرح کے الزاما ت بھی طیب اردوان پر عائد کئے جارہے ہیں۔ناپسنددیدگی کے وجوہات و اسباب کی ایک لمبی فہرست شمارکرائی جارہی ہے ۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اردوان کے مقابلے میں ان پارٹیوں کی حمایت کی جارہی ہے جو اسلام مخالف نظریہ کی حامل ہے ۔جس کے ایجنڈے میں کمال اتاترک کے دور میں عائد پابندیوں کو پھر سے بحال کرنے کا منصوبہ شامل ہے ۔

 طیب اردوان کی مخالفت کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ترک معاشرے میں  اعلی مسلم اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ وہ اسلام پسندوں کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں ۔ فلسطین کے موقف کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں ۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم زیادتی ہوتی ہے تو وہ اپنے دردو غم کا اظہا رکرتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی دوہری پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یو این میں عالم اسلام کے حقوق کی برملا ترجمانی کرتے ہیں ۔ مصر میں منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کو وہ جرم گردانتے ہیں ۔ اردوان کی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہی آج پوری دنیا کے سیکولر عناصر اور مغربی استعمار متحد ہوکر اردوان کے مقابلے میں صف آرا ہوچکے ہیں اور وہ انہیں اقتدارسے بالکلیہ دخل کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک چکے ہیں لیکن حالیہ الیکشن کے نتائج سے یہی امید ہے کہ آئند ہ صدارتی نظام کو متعارف کرانے کے لئے انہیں اکثریت ملے گی ۔ ہاں ! ضرور ملے گی۔طیب رجب اردوان عالم اسلام کے ہیرو ہیں ۔ غریبوں اور مظلوموں کے مسیحا ہیں ۔پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہو سب کی نگاہیں اردوان کی طر ف اٹھتی ہیں ۔عالم اسلام کی قیادت کا حق جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی اور اس کے سربراہ طیب اردوان کو حاصل ہے ۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ طیب اردوان ترکی کی سرحدوں سے باہر اپنا قدم نکالیں اور ملت اسلامیہ کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیں۔
 ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں اردوان کے ساتھ ہے ۔ خدا انہیں ہمیشہ سلامت رکھے ۔ انہیں نیک مقاصد میں کامیابی ملے ۔اللہ ان سے ملت کی سربلندی اور قیادت کا کام لے ۔

(آمین)

علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی موقع کے لئے یہ کہاتھاکہ

توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیر ے سامنے آسماں اور بھی ہیں
 اسی شب و روز میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیر ے زمان و مکاں او ربھی ہیں

stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار بصیرت آن الائن کے ایڈیٹر ہیں )

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 642