donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> World
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Hamid Mohsin
Title :
   Qadeem Adawat, Jadeed Monafrat

قدیم عداوت، جدید منافرت


از:۔سید حامد محسن ، چیرمین سلام سنٹر ، بنگلور


مغرب کے ہاتھوں اسلام مخالف پروپگنڈہ کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ اسلام اور نصرانیت کے درمیان کشمکش اور رسہ کشی کی تاریخ تقریباً ایک ہزار برس سے زائد عرصہ پر محیط رہی ہے۔ عرب میں ظہور کے ایک سو برس سے کم عرصہ ہی میں اسلام نے یوروپ کے دروازوں پر دستک دینی شروع کردی تھی۔ اس سلسلہ میں 712ہجری میں پہل ہوئی اور شام کے اُموی حکمرانوں کے فوجی سپہ سالار طارق بن زیاد نے اسپین پر فوج کشی کی اور اسلامی حکومت کی سرحدوں کو یوروپ کے اندر ون تک پھیلادیا۔

 اسلام کے اس عروج سے عیسائی یوروپ میں کھلبلی مچ گئی اور اسلام کی پیش رفت پرلگام لگانے کی تدبیریں سونچی جانے لگیں۔ مغرب نے اسلامی عقیدے اور نظریہ پر وار کرنا شروع کیا مگر اس میں کامیابی کی کم ہی گنجائش نکلی۔ لہٰذا حملہ کارُخ حضور اکرمؐ کی ذا ت مبارکہ کی جانب کردیا گیا۔ حضوراکرمؐ  کی متعدد شادیوں اور جنگوں کو حملے کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ مگر 1095ء سے شروع ہونے والی صلیبی جنگوں میں یوروپ کی توانائیاں صرف ہوئیں۔ 1187ء میں صلاح الدین ایوبیؒ نے کرسچین فوجوں کو شکست فاش دیکر بیت المقدس اور یروشلم پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ سات صلیبی جنگوں نے یورپ کی کمر توڑ ڈالی۔ اسی درمیان اسلام باسفورس کے ساحل سے یوروپ میں نفوذ کر چکا تھا۔ عیسائیت کا اہم مرکز قسطنطنیہ (جسے آج استنبول کہا جاتا ہے) اسلامی سلطنت کا حصہ بن کر عثمانی سلطنت کا دارالخلافہ بنا۔ عثمانی حکمرانوں نے بلقان کی ریاستوں کو اپنی کمان میں لیا اور تقریباً پانچ سوبرس تک ان پر حکومت کی۔ ان زخموں کے مندمل ہوتے یوروپ کو کئی صدیاں لگیں۔

 اسلام کادانشورانہ چیلنج  :

آئیے !ذرا ہم تاریخ کے صفحات میں جھانک کر یہ دیکھیں کہ اسلام اور عیسائی یوروپ کے تعلقات پچھلے چودہ سو برسوں میں کیسے رہے ہیں۔

مسلمان اسلام کی شروعات سے ہی یوروپ کے لئے مسئلہ بنے ہوئے تھے۔ ابتداء اسلام نے نظریہ تثلیث(Concept of Trinity)  کے پیروکاروں کے لئے مسئلہ پیدا کردیا۔ یوروپ والوں نے سوال کیا کہ آخرخدا کو اپنے فرزند کو سولی پر چڑھائے جانے کے 600برس بعد جزیرہ نمائے عرب میں ایک اور بنی کو بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ اسلام کی ابتداء کے اولین چند دہوں ہی میں اسلام نے یوروپ کے سامنے دانشورانہ چیلنج بھی پیش کردیا۔ یوروپ نے ان تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے مختلف النوع طریقے اختیار کئے۔

علم اور سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی میں اسلامی عقائد کا رول بہت ہی اہم تھا۔ اسلامی عقیدہ توحیددراصل نصرانیت کی(Concept of Trinity) تثلیث کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا اور لوگوں کے لئے کشش کا حامل تھا۔ پھر قرآن کریم اپنی اصلی زبان اور الفاظ کے ساتھ رہنمائی کے لئے موجود تھا جس کی وجہ سے اسلامی عقیدہ کو زیادہ استحکام حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ اسلام نے کسی پاپائیت (Priesthood)  کی بنیاد نہیں ڈالی۔ ہر دانشور فکری قیود و تحدید سے اوپراٹھ کر اپنی فکر و تخیّل کو حدّ پرواز تک لے جانے کے لئے آزاد تھا۔ ان تمام نکات نے اسلامی علوم و سائنس کے لئے مہمیز کاکام کیا۔

دینیات اور مذہبی نقطہ نظر کے تئیں یوروپ خود کو بے دست و پا محسوس کرنے لگا لہٰذا اس نے اسلامی عقیدے، حضرت محمدؐ کی شخصیت اور ان کے پیرو کاروں پر ذاتی حملے شروع کردیئے۔ سیاسی طور پر یوروپ نے صلیبی جنگوں کی ابتداء کی اور ان میں پے در پے شکست کے بعد مسلم دنیا میں اپنی کالونیاں بنانے کی پالیسی پر عمل در آمد شروع کردیا۔ دانشوری کے میدان میں اس نے کئی نئی عملی جہتوں میں کام شروع کیا اور مسلم فکر اور تاریخ کی حدبندی شروع کردی۔

    اسلام سے بُغض :

اسلام سے بُغض کی ابتدا اولین دور سے ہی کردی گئی ہے۔ پال الوارس (وفات 859ئ) نے ’’بُک آف ڈینیئل‘‘ Book of Daniel  کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضور اکرمؐ کی شخصیت (نعوذ باللہ) اینٹی کرائسٹ نامی کردار سے ملتی جلتی ہے۔ اس نے سن 666ء کے حوالے سے (جو حضور کی وفات کا سال ہے) کہا کہ پیغمبر اسلام ان تمام علامات کے حامل ہیں جو اینٹی کرائسٹ کی خصوصیات ہوںگی۔ نبی اکرمؐ  کی توہین آمیز کردار سازی کو چانسنز ڈے جیسٹے (Chansons de geste)  جیسے لٹریچر میں شامل کرکے آپ ؐ  کو نازیبا ناموں سے موسوم کیا گیا۔ اس صورت گری نے بعد کی کئی صدیوں تک جرمن، اطالوی، اسپین، انگریزی اور فرانسیسی ادب کو متاثر کیا۔ یہ سلسلہ سارے عہد وسطیٰ پر محیط رہا اور سترہویں صدی تک چلتا رہا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں اس کا دوبارہ احیاء ہوا یا کیا گیا۔ اس کی حالیہ مذموم شکل مصنف سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ (The Satanic Verses)  ہے جس میں چانسنز (Chansons)  کے اہانت آمیز اند ازکو اختیار کیا گیا۔

        صلیبی جنگیں:

جوں جوں اسلام کی مقبولیت بڑھتی گئی اس کے خلاف محاذ آرائی کے لئے فضا بھی ساز گار ہوتی گئی اور بھولے بھالے عوام کو اسلام کے خلاف جنگوں پر آمادہ کرنے کا جواز بنتا گیا۔ کلرمنڈ (Clermond) کی مشہور و معروف ’’پیس آف گاڈ کونسل (Peace of God Council)  کی کانفرنس میں پوپ اربن دوئم نے اسلام کے خلاف صلیبی جنگوں کا اعلان کردیا۔ اس کونسل نے اسے خدا کی جانب سے جنگ (War of God)  کا نام دیا اور اسلام کا قلعہ قمع کرنے اور یروشلم کو ’’مسلمانوں کے قبضے‘‘ سے آزاد کرانے کا تہیہ اور عزم کیا۔

صلیبی جنگوں کی ابتداء یوروپ میں یہودیوں کے قتل عام سے ہوئی۔ عیسائی افواج 15؍ جولائی 1095  ء کو یروشلم کے چالیس دن کے محاصرے کے بعد شہر میں داخل ہوئیں اور سترہزار مسلم عورتوں، مردوں اور بچوں کو تہ تیغ کرڈالا۔ اس کا تذکرہ مسلم مورخ ابن اثیر کی کتب میں ملتا ہے۔
ریمنڈ اگویلز (Raymond Aguiles) جو اس قتل عام کا عینی شاہد ہے لکھتا ہے: ’’میدان جنگ کا منظر معرکتہ الآرا تھا۔ ہمارے آدمیوں نے دشمنوں(مسلمانوں) کے سرکاٹے، اور تیروں سے انہیں چھلنی کردیا اور وہ میناروں سے گرتے گئے، کچھ اور جنگ بازوں نے ان کو زد و کوب کرکے آگ کے شعلوں میں جھونک ڈالا۔ شہر میں ان مردہ انسانوں کے سر، ہاتھ اور پیر کے ڈھیر بکھرے نظر آنے لگے۔ راہ گیروں کے لئے انسانوں اور گھوڑوں کی لاشوں کے درمیان سے یا انہیں پر قدم رکھ کر راستہ نکالنا ہوتا مگر یہ منظرپھر بھی اتنا ہولناک نہ تھا۔ جو کچھ ہیکل سلیمانی میں دیکھا گیا وہ ناقابل ذکر تھا۔ یہ وہ عبادت خانہ تھا جہاں خدا کی عبادت کی جاتی تھی۔ وہاں کیا ہوا؟ اگر میں صداقت سے کام لوں تو لوگ شاید میرے الفاظ پر اعتبار نہ کریں۔ مجھے صرف اس قدر کہہ لینے دیجئے کہ عبادت خانے کے اندر اور اس کے روبرو پورچ میں شہسواروں کے گھوڑے اپنے گھٹنوں تک خون یا پھر مردہ گھوڑوں کی زینوں کے ڈھیر میں غرق تھے۔ یہ محض خداہی کا فیصلہ تھا کہ یہ عبادت خانہ خون کی اس ندی میں ڈوب جائے کیوں کہ صدیوں سے یہ خدا کے باغی(مسلمان) یہاں خدا کی توہین میں مصروف تھے۔ اس ارض مقدس میں صلیبیوںنے مسلمانوں کو دیگوں میں بھونا، بچوں کو شعلوں کی نذر کیا اور ان بدبخت ساراسین (Saracens) (مسلمانوں)کی کھوج میں قریوں اور دیہاتوں کو چھان مارا۔ "

یوروپ کے اعصاب پر صدیوں تک صلیبی جنگیں چھائی رہیں۔ لہٰذا یوروپ نے اسلام کو سدا تشدد اور ظلم و جور سے مطعون کیا اور اسلام سے متعلق خیالی اور تحریری صورت گری کی گئی کہ مسلمانوں کو ایک عام فرد بے رحم، احمق، مغرور، عیاش، بداخلاق، متشدد اور لاعلم انسان متصور کیا جائے۔ انگریزی میں ایسی صورت گری کو Stereotype کہتے ہیں۔ انہیں Stereotypes کو فکر، ادب، سینما اور نظریات کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یوروپ کے نو آبادیاتی دور میں ان Stereotype  کی بڑے پیمانے پر تبلیغ کی گئی اور آج بھی گاہے گاہے ان کی دھول جھٹک کر انہیں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کے مانیٹروں کی زینت بنایا جاتاہے۔

        مشرقیت  : (Orientalism)

ان Stereotypes کے جواز کے طور پر یوروپ نے اس نقلی صورت گری کی پشت پناہی کے لئے دانشورانہ اصناف کی تدوین کی جن میں عمرانیات یا Anthropology  کو اہم مقام حاصل ہے۔ عمرانیات کی غرض و غایت تمام غیر مغربی اقوام اور کلچروں کو پُر نقص، پرعیب، اور موجودہ مغربی معاشرے کا قدیم ورژن ثابت کرنا تھا۔ اسلام کو بھی نسلی امتیاز کی آنکھوں سے دیکھا گیا اور مستشرقیت (Orientalism)  کو محض اسلام کی کردار کشی اور ہجو اور مذمت کی خاطر ترقی دی گئی اور اسلام سے نفرت اس پورے مضمون کا محور ثابت ہوئی۔

مستشرقین پندرہویں صدی سے اسلا م کی صورت مسخ کرنے کی مہم میں مصروف رہے ہیں۔ ان کے ذمہ محض یہ کام رہا ہے کہ وہ اسلام کو شرپسند، اور بدباطن لوگوں کا مذہب ثابت کریں۔ زیادہ تر مستشرقین عیسائی پادری رہے ہیں۔ قرآن کو بے جوڑ اور غیرمبسوط اور تکراری کلام قرار دیا گیا جو تشدد پر ابھارتا ہے)نعوذ باللہ(۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کو۔۔۔۔۔۔ اور اخلاقی قدروں سے عاری شخصیت قرار دیا گیا  )نعوذ باللہ(۔ اسلامی فکر اور اسلامی علوم کو بے وقعت، اور بے وزن گردانا گیا اور پوری طرح اس بات کی سعی کی گئی کہ ان کا تاریخ میں کوئی تذکرہ نہ ہو۔ اور اگر تذکرہ ہو بھی تو وہ مثبت انداز سے ہرگز نہ ہو۔

Orientalism  یا مشرقی علوم محض ایک علمی مضمون ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ (Outlook) بھی ہے۔ یوروپین سیاحوں، ناول نگاروں اور آرٹسٹوں نے اسلام پر وافر لٹریچر اور تصاویر تیار کیں جن میں اسلام کی جو تصویر کشی کی گئی وہ اسلام کو بربریت، جنسی عیاشی اور تشدد کا مجموعہ ثابت کرتی ہے۔ ان میں سے کئی مصنفین ایسے بھی تھے جو مسلم دنیا میں مغرب کے جاسوس اور شر انگیزی کے ایجنٹ کے فرائض انجام دے رہے تھے یا دے چکے تھے۔ ان میں رچرڈ برٹن(وفات 1890ئ) آئزا بیلا ابرہارڈٹ (وفات 1904ئ) اور ٹی ای لارنس (وفات 1935ئ) وغیرہم کافی مشہور ہیں۔ ان میں سے کئیمستشرقین عیسائی پادری مسلم دنیا میں محض جنسی لطف کے حصول کے لئے داخل ہوئے تھے جو یوروپ میں انہیں دستیاب نہ تھا۔

        اسلام سے خوف کارجحان :

    مشہور مصنف،مینوریوس(Minou Reeves) اپنی کتاب ’’محمداِن یورپ‘‘"Muhammad in Europe" میں لکھتی ہیں:   

    ’’اسلام یوروپ کے لئے محض ایک فوجی چیلنج ہی نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی اور اخلاقی چیلنج بھی تھا کیونکہ اسلام نے انسانوں کو ایک متبادل فلسفہ حیات سے آگاہ کرایا۔ دانش اور کلچر کے میدانوں میں عرب دنیا یوروپ کا مضحکہ اڑاسکتی تھی۔ اسلامی دانشور میڈیسن، ریاضی، علم ہیئت، علم کیمیا، علم نباتات، اور فزکس کے مضمون آپٹکس (Optics) میں کرسچین یوروپ سے کئی درجہ آگے تھے۔ عربوں نے ہندوستان سے صفر سیکھا اور اس نے ان کو ایک بڑی جست دی جو ریاضی کے میدان میں ان کو یوروپ سے کئی منازل آگے لے گئی۔ انہوں نے اس کی مدد سے ریاضی کے مسائل چٹکیاں بجاتے حل کرنے کا ملکہ حاصل کرلیا اور اس کی مدد سے الجبرا، تجزیاتی جیومیٹری اورٹرگنومیٹری کے میدانوں میں آگے بڑھ گئے۔ 1600ء تک یوروپ میں طب کی اہم نصابی کتاب ابن سینا کی ’’القانون فی الطّب‘‘ تھی جو فارسی النسل ابن سینا نے گیارہویں صدی عیسوی میں مرتب کی تھی۔ عربوں نے سسلی اور اسپین میںعلمی و فکری مراکز قائم کئے جن  سے یوروپی نشاۃ ثانیہ کومہمیز ملی۔

مگر کوئی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ آخر کار جزیرہ نمائے عرب کے ریگستانی بدوئوں نے جن کی تہذیب کی جڑیں قبائلیت میں گڑی ہوئی تھیں، اس قلیل مد ت میں علم اور فضل کی یہ معراج کیونکر حاصل کرلی۔ جواب انتہائی آسان ہے۔ ان کے اعتقادات کی تازگی نے اپنے مذہب و اعتقاد کی سرحدوں کو حد نظرتک توسیع کے لئے توانائی بخشی اور یہ پلک جھپکتے اسے اس زمانے کی سب سے مہذب قوموں یعنی یونان، ایران اور بازنطین کو اپنے سے ہم آغوش کرچکے تھے۔ انہوں نے آناً فاناً فارسیوں سے ان کے طور طریقے سیکھے، یونانیوں کے فلسفہ کو گلے لگایا اور ان تمام کو یوروپ کی مقبوضہ اراضی اور ان کے عوام کے درمیان متعارف کرایا۔ یوروپی عوام کے لئے جہاں عربوں کے طور طریقے اور تواضع و خاطر کے مراسم حیرت انگیز تھے وہیں اس نے عربوں سے رقابت کو بھی جنم دیا۔ انہیں یہ معلوم کرتے دیرنہ لگی کہ اس تہذیبی مہم اور تحریک کے بانی پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ ہیں۔

 لہٰذاپیغمبر محمدؐ کی اس اُبھرتی شخصیت میں انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں یہ ان کے نظریات اور مقدس شخصیات پر مکمل سایہ نہ کرلے۔ لہٰذا اس نے جہاں عربوں سے فراخدالانہ علمی تبادلے پر اکسایا وہیں پیغمبر اسلام کے تئیں حسد و رشک کو بھی جنم دیا۔پیغمبرمحمدؐ  کی کردار کشی کی تاریخ در اصل اسی پس منظر میں پنہاں ہے۔

اب مسلمانوں کے لئے یہ سونچنے کا نکتہ ہے کہ جس یوروپ نے اتنی ساری چیزیں ان سے مستعار لیں، وہ کیوں تعطل اور جمود کا شکار ہوگئے اور یوروپ کو کیوں کر سبقت حاصل ہوئی۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ عیاں ہوتاہے کہ مسلم دنیا کے جمود کی ابتداء یوروپ کی کالونی بنانے کی مہم سے قبل ہوئی۔ یوروپ میں مسلمانوںاور محمدؐ کے خلاف نفرت انگیز مہم کی ابتداء اسی وقت ہوچکی تھی جب مسلمانوں کا تہذیبی آفتاب آسمان کی بلندی پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔

        تشکیلِ اجارہ داری  :

یوروپین حکمرانوںنے مسلم ممالک اور مسلم معاشروں کو ہر قسم کے نئے نظریات، طور طریقوں کی تجربہ گاہ بنایا ۔ دنیا کو’مہذب بنانے‘ کے جذبے سے سرشار ان کی مشینریوں نے مسلم دنیا میں تعلیم، ثقافت اور جدید نظریات کی آبیاری کے لئے ہر وہ نوآزمودہ طریقے اپنائے جنہیں Utopian (ناقابل عمل کہا جاسکتا تھا۔

اس نو آبادیاتی نظام نے مسلم کلچر اور تہذیب کوحد درجہ نقصان پہنچایا، جس کے دو رس اثرات مرتب ہوئے۔ ہر وہ چیز جس میں ان کو اسلام کی بھینی سی خوشبوبھی محسوس ہوئی اسے انہوں نے پرے ہٹانے، اور حقیر اور اخلاقی اقدار سے عاری ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ان مساعی کا جو نتیجہ تھا وہ یہ تھا کہ مسلم معاشروں میں ثقافتی ترجیحات کو الٹ دیا گیا۔ ان ممالک کے قدرتی وسائلپر قبضہ کرکے ان کو تہی دست کیا گیا اور مسلم عوام کو قلاش بنادیا گیا۔مغرب نے ’’اسلام سے پیدا شدہ مسائل‘‘ کے حل کے لئے جو طریقہ اختیار کیا اس نے ان کے جرائم کی فہرست طویل کردی۔ مغرب کی ناانصافیوں کا تذکرہ فرصت کا متقاضی ہے۔ صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ مغرب نے یہ تمام محض اسلام کو شیطانی نظریات کا حامل (Demonised Other) ثابت کرنے کے مشن کے تحت انجام دیا۔ آج یہی فکر دنیا پر مغربی اجارہ داری کی اساس کا حصہ ہے اور مغرب کی مسلم دنیا سے متعلق پالیسیوں کی بنیاد ہے۔

    اورمسلمان فکر و نظر سے محروم رہ گئے:

    آج اسلام میں اپنی قدیم جاہ و حشمت اور شوکت وسطوت کا ہلکا سا پرتو بھی نہیں رہا۔ مسلمان آپس میں منقسم ہیں اور ملت اسلامیہ بے سمتی کا شکار ہے۔ نئی روشنی ، آزادی اظہار خیال او ربحث مباحثہ اور مذاکر ہ کے فقدان کی وجہ سے حالات کی نئی کروٹوں کے باوجود مسلمان بحث وفکر و نظر سے محروم رہ گئے۔ وقت آگے بڑھتا رہا مگر مسلمانوں کی فکرو نظر اپنی جگہ جامد و ساکت کھڑی رہی۔ اس طرح مسلم سونچ پر لگے تالے زنگ آلود ہوگئے اور پوری قوم مفلوج ،تاریک خیال اور فعّالیت و حرکت سے عاری قوم میں تبدیل ہوگئی۔

 ’’نیادشمن‘‘ :

 یوروپ کی بیداری کو پانچ سوبرس گذر چکے ہیں۔ گرچہ قوت کا مرکز اب امریکہ منتقل ہوچکا ہے لیکن امریکہ اور یورپ کے درمیان مکمل فکری تطبیق اور نئی توانائی کے مراکز کی کھوج ان کو مسلم ممالک میں پھوٹ ڈالنے اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے جنگجویانہ پالیسیوں پر گامزن رکھے ہوئے ہے۔ ان اغراض کی خاطر مغرب اب اس بات پر مجبور ہے کہ وہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منافرت کے ان قدیم سوتوں کو دوبارہ پھوڑ نکالے جو زمین میں دفن ہوا چاہتے تھے۔ اس تفصیل کے بعد اس وضاحت کی کم ہی گنجائش رہ جاتی ہے کہ مغربی حکمت عملی اور حکمران طبقہ نے اپنے لئے کون سی ترجیحات مقرر کی ہیں۔ لہٰذا پچھلے بیس برسوں میں نفرت اور تعصّب کو غیض و غضب میں تبدیل کرنے کی بھر پور کوششیں ہوئی ہیں۔ گرچہ خود یوروپ میں قومی سرحدوں میں مقید کئی مختصر قومیّتیں مثلاً اسپین میں بیسکس (Besques) اور برطانیہ میں آئرش قومیں آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہی ہیں، مگر یورپ اور امریکہ کو کسی ایسے دشمن کی ضرورت تھی جو مختلف جِلدی شناخت اور رنگ و روپ لئے ہوئے ہو۔ ایسی قوموں کو ’’نیادشمن‘‘ بنانا اس حکمت عملی کا جزولاینفک تھا۔ ان مسلم اراضیوں کو جن کو یوروپ اور امریکی افواج نے کارپیٹ بمباری کرکے تباہ کیا تھا، وہاں کے ناراض اور غضبناک رفیوجیوں میں سے انتہاپسندوں کو منتخب کرکے ان کو دنیا کے اسٹیج پر عسکری عناصر اور اسلامی دہشت گردوں کا قالب دیا گیا۔ میڈیا نے ان کے مقاصد کو خوفناک الفاظ میں ڈھالا اور دنیا کو اس ’’نئے دیوہیکل شیطانوں‘‘ سے متعارف کرایا جو ان کے الفاظ میں ’’مغرب کو سبق پڑھانے پر مُصرتھے‘‘

جدید منافرت :  

    ہم ایک پیچیدہ دور سے گذر رہے ہیں۔ دنیا آج جغرافیائی خطوں میں نہیں بلکہ قومی ریاستوں میں بٹی ہوئی ہے جسے انگریزی میں Nation-Statesکی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بین الملّی تعلقات آج مسلسل مذہبی اور فرقہ وارانہ کش مکش اور رسہ کشی کا شکار ہیں۔ کبھی کبھی یہ کش مکش لسانی جنونیت یا علاقائیت کا قالب ڈھال لیتی ہے۔ مذہب کو آج روحانی سکون و خوشنودیٔ رب کے حصول کے بجائے فرقہ وارانہ تعصبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔


جنگیں محض یونہی قوموں پر نہیں تھوپی جاتیں۔ اس کے لئے پہلے سے سماں باندھنا لازمی ہوتا ہے۔ فلسطین ، افغانستان ، عراق ، لبنان، شام اور لیبیامیں غارت گری کی خاطر یہ ضروری تھا کہ دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کیا جائے اور اس سے قبل اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان قوموں اور ان کے مذہب یعنی اسلام کے خلاف عوامی ذہنوں میں نفرت و حقارت کا ایک ابلتا و مچلتا طوفان برپا کیا جائے۔ مسلمانوں کو چند نفرت انگیز کار روائیوں کا عادی ثابت کیا جائے اور تشدد کو ان کے مذہب و قومی عادات کا خاصہّ قرار دیا جائے۔ اسے Stereotype کہتے ہیں۔ لہٰذا آج ہم اس مہم کے صلہ میں عوام کو اسلام اور مسلمانوں سے خاصہ متنفر پاتے ہیں۔ جب ذہن متنفر اور دِل تعصب کی آماجگاہ ہوں تو دوسری قوموں، فرقوں اور گروہوں کو دشمن قرار دینا دشوار نہیں ہوتا۔ اور جب کوئی گروہ دشمن قرار دیا جاتا ہے اس کے خلاف بآسانی تشدد کے دہانے کھولے جاسکتے ہیں۔

    ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے الفاظ کے کانوں میں پڑتے ہی ذہن کے پردوں پر بندوق بردار، باریش، خون آلود دیدوں والے جنگجوئوں کی تصویر ابھر نے لگتی ہے جن کے کندھوں سے اسٹینگرمیزائیل لٹک رہے ہوتے ہیں۔ یہ تصویریں نہ صرف اخباری صفحات کی زینت بن رہی ہیں بلکہ برقی لہروں اور ٹی وی اسکرین پر بھی انہیںکا غلبہ ہے۔ سیاسی مباحث میں بھی جہاد، مجاہدین،  اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی دہشت گردی ، فتویٰ، طلاق ، حجاب ، کافر، شریعت،  مدرسہ ،  شیعہ اور سنّی ہی مرکز بحث ہوتے ہیں۔ غالباً اس کے پیچھے یہ محرک کار فرما ہے کہ ان اصطلاحات کو امریکہ کی نام نہاد دہشت کے خلاف جنگ (War on Terror) کے لئے جوازٹھہرا یا جائے۔

     اب مسلمان کیا کریں  ؟

فرقہ وارانہ منافرت کو ہوادینے کے لئے مذہبی جذبات کے استحصال کی رو ایت پرانی ہے مگر پچھلے چند برسوں سے جو رجحان دیکھنے میں آیاہے وہ یہ ہے کہ مذہبی فرقوں کے درمیان تناؤ کو عسکریت پسند عناصر جرائم پیشہ افراد اور سیاستدان بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس نئے رجحان نے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو وسیع کیا ہے۔

    انتہا پسندی بداعتمادی کو جنم دیتی ہے اور یہ دونوں جھوٹ ، واہمات اور غلط بیانی کی خوراک پر پلتے ہیں ، انتہا پسند عناصر ہر اس چیز کا سہارا لیتے ہیں جو نفرت کو ہوادیتی ہے اور جذبات کو بھڑکاتی ہے ۔وہ اپنے اندر تفاخر اور غیروں کے تئیں حقارت وتوہین کے جذبات کی آبیاری کرتے ہیں ان مقاصد کی خاطر وہ تاریخ کومسخ کرنے دیگر فرقوں کی کردار کشی اور ان کے درمیان محصور کنی کی ذہنیت پیداکرنے کاکام کرتی ہیں۔نتیجتاً بے اعتمادی کی فضا میں تشدد کی معمولی سی چنگاری بھی کسی ہولناک المیہ کو جنم دے سکتی ہے۔ اس کے لئے ان دو بڑے مذہبی فرقوںیعنی ہندواورمسلمانوں کے درمیان باہمی بھائی چارہ اورخیر سگالی کی بنیادوں کی تلاش اہم کام ہوگا۔ یہ خیال کہ نفرت ہمیں بانٹے گی اور محبت ہمیں جوڑے گی کسی لمحہ ذہن سے محو نہیں ہونا چاہئے۔

    اب ضرورت ہے کہ ہندوستانی عوام اور مسلم اقلیت کے درمیان گفتگوکے سلسلہ کو از سر نو دوبارہ استوار کریں تاکہ وہ بھولے اور سادہ لوح عوام جو بے خبری کی دنیا میں ٹھوکریں کھارہے ہیں ، وہ تاریکی کی اس چادر کو چاک کرسکیں۔ ضروری ہے کہ دونوں قوموں کے درمیان صحت مندمذاکرات کاآغاز ہو۔ جب تک غلط فہمیوں کے غبار کو ہٹانے کی مخلصانہ کوشش نہیں ہوگی اس وقت تک یہ دونوں بڑی قومیں ، باہم ہندوستان جنت نشان کی تعمیروترقی میں شانہ بہ شانہ ساتھ تو نہیں چل سکتیں ۔

    افسوس کہ آج مسلمان اپنے مذہب و ثقافت کی تعبیر سے قاصر ہیں، نئی تعلیم کے جلومیں طاقتور ہو کر ابھرنے والی علاقائی زبانوں سے بے بہرہ ہیں ۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد ؐ  کی شخصیت پر کیچڑاچھالنے والی شخصیات اور کردار کشی کرنے والی فلموں اورکارٹونوں کامقابلہ ، مظاہروں ، جلوسوں اور غیض وغضب  کے بجائے غیرمسلم بھائیوں اور بہنوں کوعلاقائی زبانوں میں سیرت رسو لؐ کے مطالعے کی دعوت سے کیاجائے۔اس کے ذریعہ سے حضرت محمدؐ کے متعلق جو غلط فہمیاں ذہنوں میں پائی جاتی ہیں وہ فوری دور ہوں گی۔ ہمارے اس عظیم ملک ہندوستان میں اسلام اورمسلمانوں کے تئیں خیرسگالی کاجذبہ رکھنے والے غیرمسلم بھائیوں اور بہنوںکی عظیم اکثریت ہے جو نفرت کے پرچارکوں سے ہوشیار رہتے ہیں اور ہر پیغام ِامن کو گلے لگاتے ہیں۔

(یو این این)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 583