دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاب
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مرجاتے ہیں
اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مرجاتے ہیں
********