ایک فی البدیہہ غزل بیاد و نذرِ ابنِ صفی ؔ مرحوم
احمد علی برقیؔ اعظمی
کون چھپا ہے پردۂ راز میں جس کے سب دیوانے ہیں
عشقِ حقیقی برحق ہے اور باقی سب افسانے ہیں
پہلے کہاں تھے اُن سے پوچھو اُن کی ضرورت جب تھی مجھے
آئے ہیں جو پیار جتانے سب جانے پہچانے ہیں
توڑ کے میرا خانۂ دل وہ کہاں گیا معلوم نہیں
خوابوں کا اک تاج محل تھا جس کے یہ ویرانے ہیں
سرِ رہگذر مجھے دیکھ کر نظر بچاکر گذر گئے
سمجھ رہا تھا جنھیں میں اپنا جیسے وہ انجانے ہیں
سوزِ دروں سے قلب و جگر میں بپا ہو جیسے حشر کوئی
آج منتشر روح و بدن کے میرے تانے بانے ہیں
وعدۂ فردا ہوا نہ پورا فرشِ راہ تھے دیدہ و دل
ملنا نہ چاہے اگر کوئی تو اُس کے کئی بہانے ہیں
جاسوسی افسانوں کا اک سورج تھا جو ڈوب گیا
ابن صفیؔ وہ شمعِ ادب تھے جس کے سب پروانے ہیں
جان بھی دے کر خلقِ خداکے دلوں میں اب تک زندہ ہیں
**************