ایک فی البدیہہ غزل بیاد و نذرِ عندلیب شادانی مرحوم
احمد علی برقیؔ اعظمی
بادِصبا ہے آج کہاں کچھ اس کی خبر وہ لائے تو
ہیں دیدار کی پیاسی آنکھیں آنے والا آئے تو
دیتا ہے دروازۂ دل پر کون یہ دستک رہ رہ کر
ایسے میں کیا کرے کوئی جب اُس کا دل گھبرائے تو
بھولی بِسری یادیں یہ کر دیتی ہیں اکثر نیند حرام
صفحۂ ذہن پہ یاد کسی کی رہ رہ کر تڑپائے تو
عزتِ نفس بھی کچھ ہوتی ہے جس کا مجھے ہے پاس و لحاظ
سر کے بَل جاؤں گا وہاں میں لیکن کوئی بلائے تو
تمھیں بتاؤ کیا گذرے گی قلبِ حزیں پر ایسے میں
برسوں کے یارانے کو اِک پَل میں کوئی جُھٹلائے تو
موت سے بدتر ہے یہ جینا جس کے ساتھ بھی ایسا ہو
کیا ہوگا گر حسرتِ دل یہ دل ہی میں رہ جائے تو
کیسے غلط فہمی کا ازالہ کروں میں اُس کی اے برقیؔ
مِٹ جائیں گے شکوے گِلے سب ہاتھ وہ لیکن آئے تو
**************