غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
رزمگاہِ زیست میں بے خوف چلنا سیکھئے
اب خدارا خوابِ غفلت سے نکلنا سیکھئے
کشتیاں اپنی جلا کر مثلِ طارق بن زیاد
موجِ طوفانِ حوادث میں بھی پَلنا سیکھئے
خود بخود آجائیں گے یہ پاؤں راہِ راست پر
کھا کے ٹھوکر ہر قدم پر آپ چلنا سیکھئے
دیکھیں آنکھیں کھول کر ہے سامنے اس کی مثال
جس طرح بچہ سنبھلتا ہے سنبھلنا سیکھئے
دوسروں کی دستگیری کا بھروسہ چھوڑ کر
اپنے بَل پر رخ ہواؤں کا بدلنا سیکھئے
زندگی شمعِ فروزاں کی طرح ہو آپ کی
کیسے یہ جلتی ہے ہر محفل میں جلنا سیکھئے
جزر و مد قانونِ فطرت ہے یہ آئے گا ضرور
اِن تلاطُم خیز موجوں سے نکلنا سیکھئے
کامیابی آپ کے خود بڑھ کے چومے گی قدم
سینۂ باطل پہ برقیؔ مونگ دَلنا سیکھئے
***************