* ہم اپنے قدم کےنشاں چھوڑ آئے *
-- انحراف کے فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ 16 مارچ 2012 کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ہم اپنے قدم کےنشاں چھوڑ آئے
جہاں بھی گئے داستاں چھور آ ئے
رہِ شوق میں مُڑ کے پیچھے نہ دیکھا
پسِ پُشت وہم و گماں چھوڑ آ ئے
جنھیں عمر بھر میں سمجھتا تھا اپنا
وہ مجھ کو کہاں نیم جاں چھوڑ آ ئے
کوئی غیر ہوتا تو کرتا میں شکوہ
مجھے تو مرے مہرباں چھوڑ ۤآئے
بہت معرکے ہیں ابھی زندگی میں
کہاں اپنا عزمِ جواں چھوڑ آئے
جو رہتے تھے میرے سدا ا گے پیچھے
سمجھ کر مجھے ناتواں چھوڑ آئے
توقع نہیں تھی مجھے تم سے ایسی
کہاں مجھ کو تم جانِ جاں چھوڑ آئے
کوئی اس کی دیدہ دلیری تو دیکھے
وہ کہتا ہے مجھ سے کہ ہاں چھوڑ آ ئے
نشانہ بناؤ گے برقی کو کیسے
کہاں اپنی تیر و کماں چھوڑ آئے
******* |