* حُسن یہ کس کا ہوش ربا تھا *
احمد علی برقی اعظمی
حُسن یہ کس کا ہوش ربا تھا
’’میری راہ میں کون کھڑا تھا‘‘
دیکھ کے جس کو ہوگیا بیخود
اس کا حُسن و جمال بجا تھا
اس کا سراپا میری نظر میں
مظہرِ غمزہ و ناز و ادا تھا
دیکھ رہا تھا خوابِ حسیں میں
مدِّ مقابل جلوہ نما تھا
ساکت و صامت میری زباں تھی
قلب و جگر میں خشر بپا تھا
ہے وہ فراق کا حُسنِ تغزل
سارا زمانہ جس پہ فدا تھا
کہتے ہیں اقبال جسے سب
شاعرِ مشرق شعلہ نوا تھا
کرتا تھا بیدار وہ جس سے
وِردِ زباں وہ بانگِ درا تھا
زورِ قلم ہے اُس پہ تصدق
جس کا تغزل سب سے جُدا تھا
ہے تاریخ کا حصہ وہ ،جو
عہد میں اپنے رشکِ ھُما تھا
لوگوں کے ہے دلوں کی دھڑکن
اپنے لئے جو نہیں جیا تھا
صفحۂ ذہن پہ نقش ہے اب تک
برقی ایسا ماہ لقا تھا
****** |