* غمزہ و ناز و ادا ایسے وہ دکھلاتے ہی *
غمزہ و ناز و ادا ایسے وہ دکھلاتے ہیں
اہلِ دل اُن کی طرف جس سے کھنچے جاتے ہیں
وہ تو کہتے تھے کہ ہیں عقدہ کشا وہ میرے
میری کیوں عرضِ تمنا کو وہ ٹھکراتے ہیں
زندگی بارِ گراں ہے غمِ دوراں سے مگر
’’ اور جینے کی تمنا میں مرے جاتے ہیں‘‘
اپنے وعدے کا نہیں رہتا انہیں پاس و لحاظ
کہہ کے وہ مجھ سے گئے تھے کہ ابھی آتے ہیں
جھانک کر اپنے گریباں میں وہ پہلے دیکھیں
میں اگر سچ بھی کہوں اس کو وہ جُھٹلاتے ہیں
آج آئیں گے ، کبھی کہتے ہیں کل آئیں گے
صرف وعدوں سے ہمیشہ مجھے بہلاتے ہیں
آج کی بزمِ سُخن ہے یہ بیادِ شہزاد
وہ نہیں ہیں تو ہمیں یاد بہت آتے ہیں
تھے جو بہلے کبھی یک جان و دو قالب برقی
دیکھ کر مجھ کو سرِ راہ وہ کَتراتے ہیں
*********************** |