* صدائے صورِ اسرافیل کا غم کھا گیا ہ *
صدائے صورِ اسرافیل کا غم کھا گیا ہے
ہمیں اپنی عدم تکمیل کا غم کھا گیا ہے
غمِ ابلاغ میں ہم لوگ آدھے رہ گئے ہیں
مکمل سوچ کی ترسیل کا غم کھا گیا ہے
بہ سطحِ چرخِ کوزہ گر تڑپتا ہے جو پیکر
اسے محرومیِ تشکیل کا غم کھا گیا ہے
ہمارے دکھ پہ وہ رویا تو یوں سمجھو کہ گویا
کوئی قابیل تھا، ہابیل کا غم کھا گیا ہے
جنوں کب تک ڈھلے گا بوند بوند اختر غزل میں
اسی پیرایہءِ تنزیل کا غم کھا گیا ہے
|