* جو وہم ہے، ڈر ہے، پسِ پردہ نہیں نکل *
جو وہم ہے، ڈر ہے، پسِ پردہ نہیں نکلا
بستی سے ابھی تک وہ بگولہ نہیں نکلا
اس قریہءِ زہرہ کے لئے گھومی زمیں بھی
اس گیند کے نقشے میں ہو خطّہ نہیں نکلا
ہندہ کی طرح جسم ادھیڑا تھا ہوا نے
لیکن مرے سینے سے کلیجا نہیں نکلا
کچھ ہم ترے میعار پہ پورے نہیں اترے
کچھ تو بھی کہ مشہور تھا جیسا، نہیں نکلا
گو شہر میں پیمائشِ قد عام ہے لیکن
اک شخص بھی ہم قامتِ سایہ نہیں نکلا
پوشاکِ رفوکار کے کیا کہنے کہ اختر
اک تار گریبان میں اپنا نہیں نکلا
|