* تھے چند روز کے نقش و نگار دیکھ چکے *
غزل
تھے چند روز کے نقش و نگار دیکھ چکے
ترا فریب ہم اے چشمِ یار دیکھ چکے
تری نگاہ کی گردش سے واسطہ کیا ہے
ہزاروں گردشِ لیل و نہار دیکھ چکے
بس اب تو مل گئی اپنی وفا کی داد ہمیں
انہیں بھی خواب میں ہم سوگوار دیکھ چکے
خدا ہی جانے دلِ نامراد کا انجام
مریضِ عشق کا ہم حالِ زار دیکھ چکے
ہر امتحان میں ثابت قدم رہا عنبر
وہ آزما کے ہمیں بار بار دیکھ چکے
عنبر صدیقی
61/P, Topsia Road
Kolkata-700039
Mob: 9804373960
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|