* انجام کا خیال جو آغاز ہی سے ہے *
غزل
انجام کا خیال جو آغاز ہی سے ہے
الفت میں حال غیر ہمارا ابھی سے ہے
آمادۂ فغاں نہ مجھے کر ستم شعار
پردہ ترے ستم کا مری خامشی سے ہے
لاکھوں فریب کھائے تری سادگی میں ہم
بے جا نہیں گلہ جو مجھے سادگی سے ہے
آنے نہ پائے ہوش کبھی دیکھ ساقیا
اس میکدے کی شان مری بیخودی سے ہے
عنبر وہ جانتا ہے جو ہے قدردانِ فن
اردو کو جو فروغ ہے وہ شاعری سے ہے
عنبر صدیقی
61/P, Topsia Road
Kolkata-700039
Mob: 9804373960
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|